وارانسی
وارانسی (ہندی: वाराणसी؛ ہندوستانی تلفظ: [ʋa:ˈra:ɳəsi] ( سنیے)) جسے بنارس ([bəˈna:rəs] ( سنیے)) بھی کہا جاتا ہے [4] بھارت کی ریاست اتر پردیش کا ایک تاریخی شہر ہے۔ اس کا ایک اور معروف نام کاشی ([ˈka:ʃi] ( سنیے)) بھی ہے۔ یہ شہر دریائے گنگا کے بائیں کنارے پر آباد ہے۔ اس کا اصل نام وارانسی ہے جو بگڑ کر بنارس ہو گیا۔ وارانسی کو ہندوؤں کے نزدیک بہت متبرک شہر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ایک سو سے زائد مندر ہیں۔ ہر سال تقریباً دس لاکھ یاتری یہاں اشنان کے لیے آتے ہیں۔ نیز شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تعمیر کردہ مسجد اسلامی دور کی بہترین یادگار ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی جو 1916ء میں قائم کی گئی تھی بہت بڑی درس گاہ ہے۔ اس میں سنسکرت کی تعلیم کا خاص انتظام ہے۔ ہندو مت کے علاوہ بدھ مت اور جین مت میں بھی اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔
بنارس | |
---|---|
میٹروپولیٹن شہر | |
عرفیت: بهارت کا روحانی پایۂ تخت | |
ملک | بھارت |
ریاست | اتر پردیش |
ضلع | وارانسی |
حکومت | |
• میئر | رام گوپال موہلے (بھاجپا) |
• رکنِ پارلیمان | نریندر مودی (بھاجپا) |
رقبہ | |
• میٹروپولیٹن شہر | 3,131 کلومیٹر2 (1,209 میل مربع) |
بلندی | 80.71 میل (264.80 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• میٹروپولیٹن شہر | 1٬201٬815 |
• درجہ | 30th |
• میٹرو[1] | 1٬435٬113 |
زبانیں | |
• متکلم | اردو، ہندی |
منطقۂ وقت | بهارتی معیاری وقت (UTC+5:30) |
ڈاک اشاریہ رمز | 221 001 to** (** علاقائی کوڈ) |
رمزِ بعید تکلم | 0542 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | UP 65 |
جنسی تناسب | 0.926 (2011) ♂/♀ |
خواندگی | 80.12 (2011)%[2] |
ویب سائٹ | www |
وارانسی کی ثقافت اور دریائے گنگا کا آپس میں انتہائی اہم مذہبی رشتہ ہے۔ یہ شہر صدیوں سے ہندوستان بالخصوص شمالی ہندوستان کا ثقافتی اور مذہبی مرکز رہا۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا بنارس گھرانا وارانسی سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ بھارت کے کئی فلسفی، شاعر، مصنف، وارانسی کے ہیں، جن میں کبیر، رویداس، مالک رامانند، شوانند گوسوامی، منشی پریم چند، جيشكر پرساد، آچاریہ رام چندر شکلا، پنڈت روی شنکر، پنڈت ہری پرساد چورسیا اور استاد بسم اللہ خان کچھ اہم نام ہیں۔ یہاں کے لوگ بھوجپوری بولتے ہیں جو ہندی کا ہی ایک لہجہ ہے۔ وارانسی کو اکثر مندروں کا شہر، ہندوستان کا مذہبی دار الحکومت، بھگوان شیو کی نگری، ديپوں کا شہر، علم نگری وغیرہ جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مشہور امریکی مصنف مارک ٹوین لکھتا ہے "بنارس تاریخ سے بھی قدیم، روایات سے بھی پرانا ہے"۔
اشتقاقیات
ترمیموارانسی نام کی اصل ممکنہ طور یہاں کے دو مقامی دریاؤں دریائے وارونا اور دریائے اسی کے ناموں سے مل کر بنی ہے۔[5] نیز رگ وید میں یہ شہر کاشی کے نام سے مذکور ہے۔
تاریخ
ترمیمپرانوں کے مطابق کاشی شہر بھگوان شیو نے تقریباً 5000 برس پہلے قائم کیا۔ یہ شہر ہندوؤں کے مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔ سكنتھ پران، رامائن، مہا بھارت اور رگ وید سمیت کئی ہندو گرنتھوں میں اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ عام طور پر وارانسی شہر کو تقریباً تین ہزار سال قدیم تصور کیا جاتا ہے جبکہ ہندو روایات کے مطابق کاشی اس سے بھی قدیم ہے۔ نیز یہ شہر ململ اور ریشمی کپڑوں، ہاتھی دانت اور دستکاری فنون کا تجارتی اور صنعتی مرکز رہا ہے۔
گوتم بدھ (پیدائش 567 قبل مسیح) کے زمانے میں وارانسی مملکت کاشی کا دار الحکومت ہوا کرتا تھا۔ مشہور چینی سیاح ہوئن سانگ نے شہر کو مذہبی، تعلیمی اور فنکارانہ سرگرمیوں کا مرکز بتایا اور اس کا رقبہ دریائے گنگا کے کنارے 5 کلومیٹر تک وسیع لکھا ہے۔
قدیم کاشی
ترمیمقبل تاریخ
ترمیمگنگا کے کنارے آباد کاشی بہت پرانی نگری ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ ہزاروں برس قبل کچھ پست قامت اور سانولے لوگوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی اور یہاں کپڑوں اور چاندی کا کاروبار شروع ہوا۔ بعد ازاں مغرب سے آئے ہوئے بلند قامت گوروں نے ان کی نگری چھین لی۔ یہ بڑے جنگجو تھے، ان کے گھروں کے دروازے نہ تھے اور خود کو آریہ یعنی بہترین اور عظیم کہتے تھے۔ آریاؤں کے اپنے قبیلے تھے۔ اسی دوران میں کاشی کے قریب واقع شہر ایودھیا میں ایک ریاست قائم ہوئی۔ سینکڑوں برس تک کاشی شہر پر بھرت راجكل کے چندرونشی بادشاہ حکومت کرتے رہے۔ کاشی تب آریاؤں کے مشرقی شہروں میں سے ایک تھا اور وہ اس کی سرحد سے پرے موجود مشرقی ملک کو ناپاک سمجھتے تھے۔
مہا بھارت دور
ترمیممہا بھارت دور میں کاشی ہندوستان کے امیر اضلاع میں سے ایک تھا۔ مہا بھارت میں مذکور ایک کہانی کے مطابق ایک سویمبر میں پانڈوؤں اور كوروؤں کے دادا بھیشم نے کاشی نریش کی تین بیٹیوں امبا، امبیکا اور امبالكا کو اغوا کر لیا تھا۔ اس اغوا کے نتیجے میں کاشی اور ہستینا پور کے درمیان میں دشمنی ٹھن گئی۔ کرن نے بھی دريودھن کے لیے کاشی کی شہزادی کو زبردستی اغوا کیا تھا، جس کی وجہ سے کاشی نریش مہا بھارت کی جنگ میں پانڈوؤں کی طرف سے لڑے تھے۔ كالانتر میں گنگا کے سیلاب نے ہستینا پور کو ڈبو دیا، تب پانڈوؤں کی نسل موجودہ الہ آباد میں جمنا کے کنارے واقع کوسامبی میں نیا دار الحکومت بنا کر بس گئی اور ان کی یہ ریاست وتس کہلائی اور کاشی پر وتس کا قبضہ ہو گیا۔
ویدک دور
ترمیماس کے بعد برهمدت نای کے حکمران کا کاشی پر قبضہ ہوا۔ اس دور میں بڑے پنڈت حکمران ہوئے اور علم اور پنڈت کا منصب برہمنوں سے چھتریوں کے پاس پہنچ گیا تھا۔ پنجاب میں ان کا معاصر حکمران راجا اشوپتی تھا۔ اسی وقت گنگا جمنا کے دواب میں راج کرنے والے پانچالوں میں بادشاہ واہن جے ولی نے بھی اپنے علم کا ڈنکا بجایا تھا۔
مہا جنپد دور
ترمیماس دور میں کاشی کا راجا اشوسین ہوا۔ اسی دور میں پارشوناتھ ہوئے جو جین مذہب کے تئیسویں تیرتھ تھے۔ ان دنوں بھارت میں چار ریاستیں غالب تھیں جو ایک دوسرے کو جیتنے کے لیے آپس میں بر سر پیکار رہا کرتی تھیں۔ اس دور میں کاشی کو مختلف ریاستوں نے فتح کیا۔ اسی دور کے بادشاہ مہاكوشل نے اپنی بیٹی كوسل دیوی کی مگدھ کے راجا بمبسار سے شادی کر کے جہیز کے طور پر کاشی کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سکہ رائج الوقت سالانہ دینی شروع کی اور اس طرح کاشی مگدھ کے زیر انتظام چلی گئی۔ حکومت کے لالچ میں مگدھ کے راجا بمبسار کے بیٹے اجاتشترو نے باپ کو مار کر تخت چھین لیا۔ چنانچہ بیوہ بہن كوسل دیوی کے دکھ سے غمگین اس کے بھائی كوسل کے بادشاہ پرسینجت نے کاشی کی آمدنی اجاتشترو کو دینا بند کر دی جس کے نتیجہ میں مگدھ اور كوسل کے درمیان میں دشمنی ٹھن گئی۔ اس میں کاشی کبھی كوسل اور کبھی مگدھ کے ہاتھ لگی۔ آخر کار اجاتشترو کی جیت ہوئی اور کاشی اس کی بڑھتی ہوئی سلطنت میں سما گئی۔ بعد میں مگدھ کا دار الحکومت راجگڑہ سے پاٹلی پتر چلا گیا اور پھر کبھی کاشی پر اس کا حملہ نہیں ہو پایا۔
کاشی نریش اور رام نگر
ترمیموارانسی اٹھارویں صدی میں آزاد ریاست کاشی بن گیا تھا اور بعد میں برطانوی راج کے تحت یہ اہم تجارتی اور مذہبی مرکز رہا۔ 1910ء میں برطانوی انتظامیہ نے وارانسی کو ایک نئی بھارتی ریاست بنایا اور رام نگر کو اس کا ہیڈکوارٹر بنایا، لیکن اس کا دائرہ اختیار کچھ نہیں تھا۔ مقامی مذہبی رہنما اور ریاست بنارس کے راجا کاشی نریش اب بھی رام نگر قلعہ میں رہتے ہیں۔ یہ قلعہ وارانسی شہر کے مشرق میں گنگا کے کنارے پر بنا ہوا ہے۔ رام نگر قلعہ کی تعمیر کاشی نریش بادشاہ بلونت سنگھ نے شاندار چنار بلوا پتھر سے اٹھارویں صدی میں کروایا تھی۔ کاشی نریش کا ایک اور محل چیت سنگھ محل ہے۔ یہ شوالہ گھاٹ کے قریب مہاراجا چیت سنگھ نے بنوایا تھا۔
رام نگر قلعہ اور اس کا عجائب گھر اب بنارس کے بادشاہوں کے تاریخی ورثہ طور پر محفوظ ہیں اور اٹھارویں صدی سے کاشی نریش کی سرکاری رہائش بھی ہے۔ آج بھی کاشی نریش کی شہر میں قدر کی جاتی ہے۔ یہ شہر کے مذہبی رہنما مانے جاتے ہیں اور یہاں کے لوگ انھیں بھگوان شیو کا اوتار مانتے ہیں۔ نریش شہر کے اہم ثقافتی سرپرست اور تمام بڑی مذہبی سرگرمیوں کے لیے لازمی ہیں۔
قرون وسطی دور
ترمیمگهڑوال خاندان کے چندردیوا نے 1090ء میں بنارس کو اپنا دوسرا دار الحکومت بنایا۔[6] قرون وسطی میں اسے سڑک کے ذریعے ٹیکسلا اور پاٹلی پوترا سے ملایا گیا۔ وارانسی قرون وسطی کے دوران میں دانشوروں اور محققین کی سرگرمی کا مرکز بنا رہا، جس نے دھرم اور تعلیم کے ایک ثقافتی مرکز کے طور پر اس کی شہرت میں اہم کردار ادا کیا۔ بھگتی تحریک کی کئی اہم شخصیات وارانسی میں پیدا ہوئیں، جن میں کبیر جو 1389ء میں یہاں پیدا ہوئے، [7] اس کے علاوہ رویداس ایک پندرہویں صدی کا سماجی مذہبی مصلح، صوفی، شاعر، مسافر اور روحانی شخصیت یہاں پیدا ہوا اور یہاں مقیم رہا جو مقامی چمڑہ سازی کی صنعت میں ملازم تھا۔ [8]
جدید تاریخ (1500ء - تاحال)
ترمیممتعدد نامور علما اور مبلغین نے بھارت اور جنوبی ایشیا سے وارانسی شہر کا دورہ کیا۔ گرو نانک نے 1507ء شوراتری کے لیے وارانسی کا دورہ کیا جس نے سکھ مت کے قیام میں بڑا کردار ادا کیا۔ [9]
سولہویں صدی میں مسلم مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں وارانسی میں ہندو مت کی ثقافتی سرگرمیوں کو کافی فروغ ملا، اس نے شہر میں شیو اور وشنو کے مندروں کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کی۔ [10] پونے کے راجا نے اناپورنا دیوی مندر اور 200 میٹر (660 فٹ) اکبری پل بھی اس مدت کے دوران مکمل کیا گیا۔ [11] سولہویں صدی کے دوران میں سیاح یہاں آنا شروع ہوئے۔ [12] سڑک کے بنیادی ڈھانچے کو بھی اسی دوران میں بہتر کیا گیا۔ شیر شاہ سوری نے سڑک کو پشاور اور کلکتہ تک بڑھا دیا۔ برطانوی راج کے دوران میں سڑک گرینڈ ٹرنک روڈ کہلانے لگی۔ 1737ء میں مغلوں نے ریاست بنارس کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔ اٹھارویں صدی میں محمد شاہ نے گنگا پر ایک رصدگاہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ اٹھارویں صدی میں یہاں سیاحت پروان چڑہی۔ [12] 1791ء میں گورنر جنرل ہند وارن ہیسٹنگز نے وارانسی میں سنسکرت کالج بنوایا۔ [13] 1867ء میں وارانسی میونسپل بورڈ کا قیام عمل میں آیا جس سے شہر کے بنیادی ڈھانچے، صحت، صفائی، پینے کے پانی کی فراہمی اور بنیادی سہولیات میں اہم اصلاحات ہوئیں۔ [14]
1897ء میں مارک ٹوین شہر کے بارے میں لکھتا ہے کہ "بنارس تاریخ سے پرانا، روایت سے پرانا، اسطورہ سے پرانا اور ان سب کو اکھٹا کر دیا جائے تو یہ دگنا پرانا ہے۔ [15] 1910ء میں برطانیہ نے بنارس کو نئی ریاست بنا دیا جس کا دار الحکومت رام نگر تھا۔ اٹھارویں صدی سے مذہبی سربراہ کاشی نریش کی رہائش رام نگر قلعہ میں ہے۔
جغرافیہ اور آب ہوا
ترمیمجغرافیہ
ترمیموارانسی 80،71 میٹر (264.8 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے۔[16] وارانسی شمالی بھارت کی وسطی گنگا وادی میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے مشرقی سرے پر دریائے گنگا کے بائیں جانب وكراكار کنارے پر واقع ہے۔ یہیں وارانسی ضلع کا دار الحکومت بھی ہے۔ خاص وارانسی شہر گنگا اور وارونا دریاؤں کے درمیان میں ایک بلند سطح مرتفع پر آباد ہے۔ قدیم زمانے سے یہاں کی جغرافیائی صورت حال بسنے کے لیے سازگار رہی ہے۔ لیکن شہر کے اصل مقام کا اندازہ موجودہ دور سے لگانا مشکل ہے کیونکہ آج کی حالت کچھ قدیم گرنتھوں میں بیان صورت حال سے مختلف ہے۔ وارانسی براستہ سڑک نئی دہلی کے جنوب مشرقی میں 797 کلومیٹر (495 کلومیٹر)، لکھنؤ کے جنوب مشرق میں 320 کلومیٹر (200 میل)، الہ آباد کے مشرق میں 121 کلومیٹر (75 میل) اور جونپور کے جنوب میں 63 کلومیٹر (39 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔[17] وارانسی شہری ہم بستگی کا رقبہ 112،26 مربع کلومیٹر (تقریباً 43 مربع میل) ہے۔[18]
دریا اور ندیاں
ترمیموارانسی یا کاشی کے اہم دریا گنگا کو دریائے وارونا اور دریائے اسی کا سنگم اور وارانسی ان کا درمیان میں بتاتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وارانسی کے علاقے میں متعدد چھوٹی بڑی ندیاں بہتی ہیں جیسے گنگا بانگگا، گومتی، كرمناسا، گڑوی، چدرپربھا وغیرہ۔
آب ہوا
ترمیموارانسی کی مرطوب ہوا کی وجہ سے موسم گرما اور موسم سرما کے درجہ حرارتوں کے درمیان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ [19][20] موسم گرما اپریل سے شروع ہو کر اکتوبر تک رہتا ہے جس درمیان میں مون سون کی بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ موسم سرما دسمبر سے فروری کے درمیان میں ہوتا ہے جس میں ہمالیہ سے آنے والی سرد لہر سے یہاں کا درجہ حرارت بہت گر جاتا ہے۔ موسم سرما میں درجہ حرارت 22 اور 46 °C کے درمیان میں جبکہ سرما میں درجہ حرارت 5 °C تک گر جاتا ہے۔ اوسط سالانہ بارش 1110 ملی میٹر (44 انچ) تک ہوتی ہے۔ سردی کے موسم میں کہر جبکہ گرمی کے موسم میں لو چلنا یہاں عام ہے۔
یہاں مسلسل بڑھتی ہوئی پانی کی آلودگی اور نئے تعمیر ہوئے ڈیموں کی وجہ سے مقامی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ دریائے گنگا کی آبی سطح پرانے وقتوں سے اچھی خاصی گر گئی ہے اور اسی وجہ سے دریا کے درمیان میں کچھ چھوٹے جزائر بھی ظاہر ہو گئے ہیں۔ وارانسی میں گنگا کی آبی سطح کم ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گنگا کے پانی میں آلودگی ہونا سب کے لیے تشویش کا موضوع تھا، لیکن اب اس کا بہاؤ بھی کم ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اتراکھنڈ سے لے کر خلیج بنگال تک فکر ظاہر کی جا رہی ہے۔
آب ہوا معلومات برائے وارانسی ایئر پورٹ (1971–2000) | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 32.3 (90.1) |
35.8 (96.4) |
42.4 (108.3) |
45.3 (113.5) |
46.8 (116.2) |
48.0 (118.4) |
43.9 (111) |
39.8 (103.6) |
42.3 (108.1) |
39.0 (102.2) |
35.3 (95.5) |
32.7 (90.9) |
48.0 (118.4) |
اوسط بلند °س (°ف) | 23.0 (73.4) |
26.2 (79.2) |
32.6 (90.7) |
38.5 (101.3) |
40.3 (104.5) |
38.4 (101.1) |
33.7 (92.7) |
32.9 (91.2) |
32.8 (91) |
32.7 (90.9) |
29.4 (84.9) |
24.7 (76.5) |
32.1 (89.8) |
اوسط کم °س (°ف) | 9.2 (48.6) |
11.6 (52.9) |
16.2 (61.2) |
21.9 (71.4) |
25.5 (77.9) |
27.2 (81) |
25.7 (78.3) |
25.4 (77.7) |
24.4 (75.9) |
20.6 (69.1) |
14.4 (57.9) |
10.1 (50.2) |
19.2 (66.6) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | 0.3 (32.5) |
2.4 (36.3) |
7.9 (46.2) |
11.4 (52.5) |
17.8 (64) |
14.3 (57.7) |
21.4 (70.5) |
21.7 (71.1) |
19.1 (66.4) |
8.9 (48) |
4.3 (39.7) |
2.3 (36.1) |
0.3 (32.5) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 19.0 (0.748) |
18.2 (0.717) |
8.3 (0.327) |
6.1 (0.24) |
10.3 (0.406) |
107.3 (4.224) |
309.3 (12.177) |
288.4 (11.354) |
244.9 (9.642) |
32.3 (1.272) |
9.3 (0.366) |
4.8 (0.189) |
1,058.2 (41.661) |
اوسط بارش ایام | 1.6 | 1.7 | 1.0 | 0.6 | 1.2 | 5.4 | 13.9 | 13.1 | 10.0 | 1.8 | 0.6 | 0.5 | 51.5 |
ماخذ: India Meteorological Department (record high and low up to 2010)[21][22] |
معیشت
ترمیموارانسی میں مختلف گھریلو صنعتیں قائم ہیں جن میں بنارسی ریشمی ساڑھی، ٹیکسٹائل کی صنعت، قالین کی صنعت اور دستکاری اہم ہیں۔ وارانسی کے 2006ء شہر ترقی کے منصوبے کے مطابق وارانسی کی آبادی کا تقریباً 29 فیصد برسر روزگار ہے۔ [23] روزگار افراد میں تقریباً 40 فیصد صنعت، کاروبار اور تجارت میں 26 فیصد، دیگر خدمات میں 19 فیصد، نقل و حمل اور مواصلات میں 8 فیصد، زراعت میں 4 فیصد، تعمیرات میں 2 فیصد اور 2 فیصد معمولی کارکن ہیں۔ [24]
بنارسی ریشم دنیا بھر میں اپنے ملائم پن کے لیے مشہور ہے۔ بنارسی ریشمی ساڑیوں پر باریک ڈیزائن اور زری کا کام چار چاند لگاتے ہیں اور ساڑی کی زینت بڑھاتے ہیں۔ اس وجہ ہی یہ ساڑیاں سالوں سے تمام روایتی تہواروں اور شادی وغیرہ کے اجتماعات میں پہنی جاتی رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل زری میں خالص سونے کا کام بھی ہوا کرتا تھا۔ ریشم کی بنائی وارانسی غالب صنعت ہے۔[25] مسلمانوں اس صنعت میں بااثر برادری ہیں اور تقریباً پانچ لاکھ افراد بطور بننے والے، رنگے ولے، کڑھائی والے اور سیلزمین اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ [26]
بھارتی ریل کا ڈیزل انجن بنانے کی انجن فیکٹری بھی وارانسی میں واقع ہے۔ [27] بھارت ہیوی الیکٹریکلس لمیٹڈ (بھیل) ایک بڑا بجلی کا سامان کا پلانٹ بھی یہاں موجود ہے۔[28] وارانسی اور کانپور کا پہلا بھارتی کاروباری گھرانا نہال چند كشوری لال 1857ء میں ملک کے چوتھے آکسیجن پلانٹ کی تنصیب سے شروع ہوا تھا۔
وارانسی کی دوسری سب سے اہم صنعت میں سیاحت ہے۔ 3 ملین ملکی اور تقریباً 200٬000 غیر ملکی سیاح سالانہ یہاں کا دورہ (2005 اور 2010 میں، بالترتیب) کرتے ہیں جن میں زیادہ تر کا مقصد مذہبی ہوتا ہے۔[29][30] مقامی سیاح زیادہ تر بہار مغربی بنگال، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش سے آتے ہیں جبکہ غیر ملکی سیاحوں میں سری لنکا اور جاپان سر فہرست ہیں۔ [31]
شہر میں کئی بینک موجود ہیں ہے جن میں الہ آباد بینک، آندھرا بینک، بینک آف بڑودا، کینرا بینک، سینٹرل بینک آف انڈیا، کارپوریشن بینک، انڈین اوورسیز بینک، اسٹیٹ بینک آف انڈیا شامل ہیں۔[32]
بنارسی پان دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس کے ساتھ ہی یہاں کا قلاقند بھی بہت مشہور ہے۔
ثقافت
ترمیموارانسی کا پرانا شہر گنگا تیرے شہر کا تقریباً چوتھائی حصہ ہے جو بھیڑ بھاڑ والی تنگ گلیوں اور ان کنارے پر سجی ہوئی چھوٹی بڑی ہزا رہا دکانوں اور سینکڑوں ہندو مندروں سے بھرا ہوا ہے۔ ثقافت سے بھرپور پرانا شہر غیر ملکی سیاحوں کے لیے برسوں سے مقبول توجہ بنا ہوا ہے۔ وارانسی کے اہم رہائشی علاقے (خاص طور درمیانہ اور اعلیٰ درمیانے طبقہ) گھاٹوں سے دور واقع ہیں جو وسیع اور نسبتا کم آلودگی والے علاقے ہیں۔
ادب
ترمیمکبیر، روی داس اور تلسی داس معروف بھارتی مصفین تھے جو وارانسی شہر میں رہے۔[33] کئی اخبارات اور جرائد وارانسی سے شائع ہیں۔ [34] اہم اخبار آج ہے ایک ہندی قوم پرست اخبار ہے جوسب سے پہلے 1920ء میں شائع ہوا تھا۔ [35]
فن
ترمیموارانسی فنون اور ڈیزائن کا ایک اہم مرکز ہے۔ یہاں سونے اور چاندی کی تاروں سے سجا ریشم اور بروکیڈ، قالین بنائی، لکڑی کے کھلونے، کانچ کی چوڑیاں، ہاتھی دانت کا کام، عطورات، تانبے کے برتن اور مختلف دستکاری اشیا دستیاب ہیں۔[36][37] جبکہ وارانسی کی دیواروں پر بھی جا بجا تصویریں بنی نظر آتی ہیں۔
موسیقی
ترمیموارانسی کی موسیقی کی روایت پرانوں کے دور سے ہے۔ قدیم روایات کے مطابق شیو نے موسیقی اور رقص ایجاد کیا۔ موجودہ دور میں ٹھمری کی مقامی مشہور کلاسیکی گلوکارہ گرجا دیوی نے خوب شہرت حاصل کی۔ [38] وارانسی بہت سے عظیم سازندوں مثلا استاد بسم اللہ خان، پنڈت ویکاش مہاراج اور پنڈت روی شنکر کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ [39] [40]
بنارس گھرانہ
ترمیمبنارس گھرانہ بھارتی طبلہ نواز چھ مشہور گھرانوں میں سے ایک ہے۔ یہ گھرانہ 200 سال سے کچھ پہلے شہرت یافتہ پنڈت رام سہائے (1780–1826) کی کوششوں سے تیار ہوا تھا۔ پنڈت رام سہائے نے اپنے باپ کے ساتھ پانچ سال کی عمر سے ہی طبلہ نوازی شروع کی تھی۔ گھرانے کی درجہ بندی مشرقی ہند کے طور پر کی گئی ہے جس میں لکھنؤ، فرخ آباد اور بنارس گھرانے آتے ہیں۔ [41]
تہوار
ترمیموارانسی میں کئی ہندو تہوار منائے جاتے ہیں، جن میں شرکت کے لیے تمام بھارت سے لوگ آتے ہیں۔
مہا شواراتری
ترمیممہا شواراتری (فروری) میں ایک جلوس مہا امرتیونجیا مندر سے کاشی وشوناتھ مندر جاتا ہے۔[42]
ناگ ناتھیا
ترمیمناگ ناتھیا وارانسی کا ایک ہندو تہوار ہے۔ ناگ ناتھیا تہوار تلسی گھاٹ میں منعقد کیا جاتا ہے۔ تہوار کرشنا کی ناگ کالیا پر فتح کے جشن میں منایا جاتا ہے۔[43]
دھرپد میلہ
ترمیمدھرپد میلہ ایک پانچ روزہ موسیقی تہوار ہے جو فروری مارچ میں تلسی گھاٹ میں منعقد کیا جاتا ہے۔[44]
ہنومان جاینتی
ترمیمہنومان جاینتی (مارچ اپریل) ہنومان کی سالگرہ کے موقع پے ایک خصوصی پوجا، آرتی اور ایک عوامی جلوس منعقد کیا جاتا ہے۔[45][46]
دیو دیوالی
ترمیمدیو دیوالی جسے گنگا تہوار بھی کہا جاتا ہے ایک ہندو تہوار ہے جو کارتک پورنما کو وارانسی، اتر پردیش، بھارت میں منایا جاتا ہے۔ یہ ہندو تقویم کے مہینے کارتک (نومبر - دسمبر) میں چاند کی چودھویں رات کو دیوالی کے پندرہ دن بعد منایا جاتا ہے۔
رام نگر کی رام لیلا
ترمیمیہاں دسہرا کا تہوار خوب رونق اور تماشوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس موقع پر ریشمی اور زری کے بروکیڈ وغیرہ سے سجی کاشی نریش کی ہاتھی پر سواری نکلتی ہے اور اس کے پیچھے طویل جلوس ہوتا ہے۔ اور پھر نریش ایک ماہ طویل چلنے والے رام نگر وارانسی کی رام لیلا کا افتتاح کرتے ہیں۔ [47] آخری دن اس میں بھگوان رام راون کا خاتمہ کر کے جنگ ختم کرتے ہیں اور ایودھیا لوٹتے ہیں۔ [47] مہاراجا ادت نارائن سنگھ نے رام نگر میں اس رام لیلا کا آغاز انیسویں صدی کے وسط سے کیا تھا۔ [47]
بھرت ملاپ
ترمیمبھرت ملاپ رام 14 سالہ جلاوطنی کے بعد واپسی پر چھوٹے بھائی بھرت سے ملاپ کی خوشی میں جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ اکتوبر نومبر میں وجیا دشمی کے بعد ایک دن بعد منایا جاتا ہے۔[42] کاشی نریش اس تہوار میں شاہی لباس میں شریک ہوتے ہیں۔ تہوار عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔[48]
مقدس نگری
ترمیموارانسی یا کاشی کو ہندو مذہب میں مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے۔ یہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہندو زیارت کے لیے آتے ہیں۔ یہاں کی اہم توجہ کا مرکز کاشی وشوناتھ مندر ہے جس میں بھگوان شو کے بارہ جيوترلنگوں میں سے اہم شولنگ یہاں موجود ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دریائے گنگا سب کے گناہ کو ختم کر دیتا ہے اور کاشی میں وفات خوش قسمتی سے ہی ملتی ہے اور اگر مل جائے تو روح تناسخ کے دائرے سے آزاد ہو کر نجات پا جاتی ہے۔ ہندو مذہب میں شاكت مت کے لوک دیوی گنگا کو بھی شکتی کا ہی اوتار مانتے ہیں۔
وارانسی بدھ مت کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے اور گوتم بدھ سے متعلقہ چار تیرتھ مقامات میں سے ایک ہے۔ وارانسی کے اہم شہر سے ذار ہٹ کر ہی سارناتھ ہے جہاں گوتم بدھ نے اپنا پہلا خطاب کیا تھا۔
وارانسی ہندوؤں اور بدھوں کے علاوہ جین مت کے ماننے والوں کے لیے بھی ایک مقدس مقام ہے۔ اس تئیسویں تیرتھ شتین شری پارشوناتھ کا جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔ وارانسی پر اسلامی ثقافت نے بھی اپنا اثر ڈالا ہے۔
دریائے گنگا
ترمیمبھارت کا سب سے بڑا دریا گنگا تقریباً 2،525 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے گومكھ سے گنگا ساگر تک جاتا ہے۔ اس پورے راستے میں دریائے گنگا شمال سے جنوب کی طرف بہتا ہے لیکن صرف وارانسی میں ہی دریائے گنگا جنوب سے شمال میں بہتا ہے۔ یہاں تقریباً 80 گھاٹ ہیں۔ یہ گھاٹ تقریباً 6.5 کلومیٹر طویل کنارے پر بنے ہوئے ہیں۔ ان گھاٹوں میں پانچ گھاٹ بہت ہی مقدس مانے جاتے ہیں۔ انھیں اجتماعی طور پر پنج تیرتھی کہا جاتا ہے۔
پنج تیرتھی گھاٹوں میں اسی گھاٹ، دشاشومیدھ گھاٹ، آدکے شو گھاٹ، پنج گنگا گھاٹ اور منیکرنیکا گھاٹ شامل ہیں۔ اسی گھاٹ جنوبی ترین جبکہ آدکے شو گھاٹ سب سے شمال میں واقع ہے۔
گھاٹ
ترمیموارانسی میں 80 سے زیادہ گھاٹ ہیں۔ شہر کے کئی گھاٹ مراٹھا سلطنت کے دور میں بنائے گئے تھے۔ زیادہ تر گھاٹ اشنان گھاٹ (غسل) ہیں، کچھ گھاٹ شمشان گھاٹ ہیں۔[49][50][51] بہت سے گھاٹوں کے ساتھ کوئی کہانی وابستہ ہے۔ جبکہ کچھ گھاٹ ذاتی ملکیت بھی ہیں۔ [52] کاشی نریش کا شوالہ گھاٹ اور کالی گھاٹ ذاتی املاک ہیں۔ وارانسی کے گھاٹوں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
- اسی گھاٹ
- گنگا محل گھاٹ
- ریوا گھاٹ
- تلسی گھاٹ
- بھدینی گھاٹ
- جانکی گھاٹ
- ماتا آنندمئی گھاٹ
- جین گھاٹ
- پنچکوٹ گھاٹ
- پربھو گھاٹ
- چیت سنگھ گھاٹ
- اکھاڑہ گھاٹ
- نرجنی گھاٹ
- نروای گھاٹ
- شوالہ گھاٹ
- گلريا گھاٹ
- دنڈی گھاٹ
- ہنومان گھاٹ
- پراچین ہنومان گھاٹ
- میسور گھاٹ
- ہریش چندر گھاٹ
- لالی گھاٹ
- وجيانرم گھاٹ
- کیدار گھاٹ
- چوکی گھاٹ
- كشے میشور گھاٹ
- مان سروور گھاٹ
- نارد گھاٹ
- راجا گھاٹ
- گنگا محل گھاٹ
- پانڈیا گھاٹ
- دگپتيا گھاٹ
- چوسٹی گھاٹ
- رانا محل گھاٹ
- دربھنگہ گھاٹ
- منشی گھاٹ
- اہلیا بائی گھاٹ
- شیتلاگھاٹ
- پریاگ گھاٹ
- دشاشومیدھ گھاٹ
- راجندر پرساد گھاٹ
- مان مندر گھاٹ
- منیکرنیکا گھاٹ
- تریپورہ بھیروی گھاٹ
- ميرگھاٹ گھاٹ
- للتا گھاٹ
- سندھیا گھاٹ
- سنکٹا گھاٹ
- گنگا محل گھاٹ
- بھونسلو گھاٹ
- گنیش گھاٹ
- رام گھاٹ
- جٹار گھاٹ
- گوالیار گھاٹ
- بالاجی گھاٹ
- پنچ گنگا گھاٹ
- درگا گھاٹ
- برہما گھاٹ
- بوندی پركوٹا گھاٹ
- شیتلاگھاٹ
- لال گھاٹ
- گائے گھاٹ
- بدری نارائن گھاٹ
- ترلوچن گھاٹ
- نندیشور گھاٹ
- تیلیا نالہ گھاٹ
- نیا گھاٹ
- پرہلاد گھاٹ
- رانی گھاٹ
- بھیساسر گھاٹ
- راج گھاٹ
- آدیشو یا وارانا سنگم گھاٹ
اہم گھاٹ
ترمیمدشاشومیدھ گھاٹ
ترمیمدشاشومیدھ گھاٹ کاشی وشوناتھ مندر کے قریب واقع ہے اور سب سے شاندار گھاٹ ہے۔ اس سے متعلق دو افسانوی کہانیاں ہیں: ایک کے مطابق برہما جی نے اس کی تعمیر شیو جی کے استقبال کے لیے کی تھی۔ دوسری کہانی کے مطابق برہماجی نے یہاں دشاشومیدھ یگ کیے تھے۔ ہر شام پجاریوں کے ایک گروہ یہاں اگنی پوجا کرتا ہے جس میں بھگوان شو، گنگا دریا، سوریا دیو، اگنیدیو اور پوری کائنات کو آہوتیاں سمان کی جاتی ہیں۔ یہاں دیوی گنگا کی بھی خوبصورت آرتی کی جاتی ہے۔[50]
منیکرنیکا گھاٹ
ترمیممنیکرنیکا گھاٹ سے منسلک بھی دو کہانیاں ہیں۔ ایک کے مطابق بھگوان وشنو نے شیو کی تپسیا (عبادت) کرتے ہوئے اپنے سدرشن چکر سے یہاں ایک حوض کھودا تھا۔ جب شیو وہاں خوش ہو کر آئے تب وشنو کے کان کی منیکرنیکا اس کنڈ (حوض) میں گر گئی تھی۔
دوسری کہانی کے مطابق بھگوان شیو کو اپنے بھگتوں سے چھٹی ہی نہیں مل پاتی تھی، دیوی پاروتی اس پریشان ہوئیں اور شیو جی کو روکے رکھنے کے لیے اپنے کان کی نیکرنیکا وہیں چھپا دی اور شیو جی سے اسے ڈھونڈنے کو کہا۔ شیو جی اس ڈھونڈ نہیں پائے اور آج تک اس مقام پر انتیشٹی (چتا جلانا) ہوتی رہتی ہے۔ قدیم گرنتھوں کے مطابق منیکرنیکا گھاٹ کا مالک وہی چنڈال تھا، جس نے راجا ہریش چندر کو خریدا تھا۔ اس گھاٹ کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں مسلسل ہندو انتیشٹی ہوتی رہتی ہیں اور گھاٹ پر چتا کی آگ مسلسل جلتی ہی رہتی ہے، کبھی بجھنے نہیں پاتی۔
سندھیا گھاٹ
ترمیمسندھیا گھاٹ جسے شندے گھاٹ بھی کہتے ہیں، منیکرنیکا گھاٹ کے شمالی طرف سے جڑا ہوا ہے۔ یہ گھاٹ کاشی کے بڑے اور خوبصورت گھاٹوں میں سے ایک ہے۔ اس گھاٹ کی تعمیر 150 سال پہلے 1830ء میں گوالیار کی مہارانی بے جابائی سندھیا نے کرائی تھی اور اور اس سے جڑا ہوا شیو مندر جزوی طور پر دریا کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس گھاٹ کے اوپر کاشی کے متعدد بااثر لوگوں کی طرف سے بنائے گئے مندر واقع ہیں۔ یہ تنگ گھومتی گلیوں والے علاقے میں واقع ہے۔ ہندو اسطیر کے مطابق اگنی دیوتا کی پیدائش یہیں ہوئی تھی۔ یہاں ہندو لوگ ويریے اسور کی ارچنا کرتے ہیں اور بیٹے کی خواہش کرتے ہیں۔
مان مندر گھاٹ
ترمیممان مندر گھاٹ ریاست جے پور کے مہاراجا جے سنگھ دوم نے 1770ء میں بنوایا تھا۔ اس میں سنگتراشی کے ساتھ جھرنکے بنے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے وارانسی میں جنتر منتر رصدگاہ ویدشالا بھی بنوائی تھی جو دہلی، جے پور، اجین، متھرا کے ساتھ پانچویں رصدگاہ ہے۔
للتا گھاٹ
ترمیممرحوم نیپال نریش نے یہ گھاٹ وارانسی میں شمالی جانب بنوایا تھا۔ یہیں اس نے ایک نیپالی کھٹمنڈو پگوڈا طرز کا کیشو مندر بھی بنوایا تھا۔ جس میں بھگوان وشنو کی پوجا ہوتی ہے۔[53]
اسی گھاٹ
ترمیماسی گھاٹ دریائے اسی کے سنگم کے قریب واقع ہے۔ اس خوبصورت گھاٹ پر مقامی جشن اور کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ یہ گھاٹوں کی قطار میں آخری اور شمالی ترین گھاٹ ہے۔ یہ مصوروں اور فوٹوگرافروں کا بھی پسندیدہ مقام ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں طویل مدتی غیر ملکی طلبہ، محققین اور سیاحوں قیام کرتے رہے ہیں۔ عام دنوں میں صبح کے وقت تقریباً 300 لوگ فی گھنٹہ یہاں آتے ہیں جبکہ تہوار کے دنوں میں یہ تعدا 2500 افراد فی گھنٹہ تک جا پہنچتی ہے۔ مہا شواراتری جیسے تہواروں کے دوران میں ایک ہی وقت میں تقریباً 22،500 لوگ یہاں سما سکتے ہیں۔[54]
تلسی گھاٹ
ترمیمتلسی گھاٹ کا پرانا نام "لولارک گھاٹ" تھا۔ اس کا نام سولہویں صدی میں تلسی داس بدل کر تلسی گھاٹ رکھا۔ تلسی داس نے اس گھاٹ پر شری کرشن لیلا کا آغاز کیا گیا، جو ابھی تک قائم ہے۔ کاشی نریش طرف سے ناگ ناتھیا کے موقع پر سونے کی اشرفیاں دی جاتی ہیں۔ اسی گھاٹ پر تلسی داس کا بنوایا ہوا ایک ہنومان مندر موجود ہے۔
گنگا محل گھاٹ
ترمیمگنگا محل گھاٹ وارانسی پر دریائے گنگا کے کنارے بنے گھاٹوں میں سے ایک اہم گھاٹ ہے۔ اسے نارائن خاندان نے 1830ء میں تعمیر کروایا۔ اس کے شمال میں اسی گھاٹ واقع ہے۔ اسے دراصل اسی گھاٹ کی توسیع کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔[55][56][57][58]
نارائن خاندان نے 1830ء میں وارانسی میں دریائے گنگا کے پاس ایک ایک محل تعمیر کروایا تھا جس کا نام گنگا محل تھا۔ کیونکہ محل گھاٹ پر واقع تھا اس لیے اس کا نام گنگا محل گھاٹ پڑا۔ پتھروں سے بنی سیڑھیاں گنگا محل گھاٹ کو اسی گھاٹ سے جدا کرتی ہیں۔ یہ محل اب تعلیمی اداروں کے زیر استعمال ہے۔[55][56][57][58]
منشی گھاٹ
ترمیممنشی گھاٹ وارانسی میں دریائے گنگا کے بنے گھاٹوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک شاندار عمارت کے ایک حصے کے ساتھ 1912ء میں تعمیر ہوا۔ منشی گھاٹ کا نام ریاست ناگپور کے وزیر خزانہ شریدھارا ناراین منشی کے نام پر ہے۔ 1915ء میں دربھنگہ، بہار کے برہمن بادشاہ نے اس گھاٹ خریدا اور اس کی توسیع کی۔ اس کی توسیع کو اب دربھنگہ گھاٹ کہا جاتا ہے۔[59]
مندر
ترمیموارانسی مندروں کا شہر ہے۔ بنارس میں ایک اندازے کے مطابق 23،000 مندر موجود ہیں۔ [60] تقریباً ہر چوراہے پر ایک مندر تو مل ہی جائے گا۔ چھوٹے مندر روزانہ کی پوجا کے لیے ایک سہولت ہیں۔ ان کے ساتھ ہی یہاں بڑی تعداد میں بڑے مندر بھی موجود ہیں جو وارانسی کی تاریخ میں وقتا فوقتا بنائے گئے تھے۔ ان میں کاشی وشوناتھ مندر، اناپورنا مندر، ڈنھڈھراج گنیش، بھال بھیرو، درگا مندر، سنکٹ موچن ہنومان مندر، تلسی مانس مندر، نیا وشوناتھ مندر، بھارت ماتا مندر، سنكٹھا دیوی مندر اور وشالاكشی مندر اہم ہیں۔[42][61][5]
کاشی وشوناتھ مندر
ترمیمکاشی وشوناتھ مندر جسے کئی بار سنہری مندر بھی کہا جاتا ہے، موجودہ طور پر 1780ء میں اندور کی مہارانی اہلیا بائی ہولکر نے بنوایا تھا۔ یہ مندر دریائے گنگا کے دشاشومیدھ گھاٹ کے قریب واقع ہے۔ 1839ء پنجاب کے حکمران مہاراجا رنجیت سنگھ نے اس مندر کے دونوں برجوں کو سنہرا کرنے کے لیے سونا عطیہ کیا تھا۔ 28 جنوری، 1983ء کو مندر کی انتظامیہ اتر پردیش حکومت نے لے لی اور اس وقت کے کاشی نریش ڈویے بھوتی نارائن سنگھ کی صدارت میں اسے ایک ٹرسٹ کے حوالے کر دیا۔
درگا مندر، رام نگر
ترمیمدرگا مندر رام نگر، وارانسی میں واقع ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے اسے 500 سال قبل ریاست بنارس کے شاہی خاندان نے بنوایا تھا۔ یہ مندر ہندو دیوی درگا سے منسوب ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں بندروں کی موجودگی کی وجہ سے اسے منکی ٹیمپل بھی کہا جاتا ہے۔ نوراتری جشن کے وقت یہاں ہزاروں یاتریوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ اس مندر میں غیر ہندووں کا داخلہ منع ہے۔ اس کا طرز تعمیر شمالی بھارتی ہندو ہے۔ مندر کے ساتھ ہی ایک بڑا پانی کا حوض بھی ہے، جسے درگا کند کہتے ہیں۔ مندر کثیر منزلہ ہے اس کا سرخ رنگ طاقت کی علامت ہے۔ حوض پہلے دریا سے منسلک تھا، جس سے اس کا پانی تازہ رہتا تھا، لیکن بعد میں اس نالے کو بند کر دیا گیا جس سے اس میں ٹھہرا ہوا پانی رہتا ہے۔ منگل اور ہفتہ کو درگا مندر میں بھگتوں کی کافی بھیڑ رہتی ہے۔ اسی کے پاس ہنومان کا سنکٹ موچن مندر ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے یہ کاشی وشوناتھ مندر اور اناپورنا مندر کے بعد آتا ہے۔
سنکٹ موچن ہنومان مندر
ترمیمسنکٹ موچن ہنومان مندر وارانسی، اتر پردیش میں ہندو دیوتا ہنومان کے مقدس مندروں میں سے ایک ہے۔ یہ دریائے اسی کے کنارے درگا مندر اور کاشی وشوناتھ مندر کے قریب واقع ہے۔[62] سنکٹ موچن کے ہندی میں معنی مشکل کشا کے ہیں۔ ہنومان کی پیدائش کا تہوار ہنومان جاینتی یہاں منایا جاتا ہے۔
اناپورنا دیوی مندر
ترمیماناپورنا دیوی مندر جسے اناپورنا ماتا مندر اور اناپورنا مندر بھی کہا جاتا ہے۔ وارانسی کے مقدس شہر کے سب سے زیادہ مشہور مندروں میں سے ایک ہے۔ یہ مندر ہندو مذہب میں عظیم مذہبی اہمیت کا حامل ہے اور اناپورنا دیوی سے منسوب ہے۔ اناپورنا مندر اٹھارویں صدی میں مراٹھا پیشوا باجی راؤ نے تعمیر کروایا تھا۔[63][64][65][66]
درگا مندر، وارانسی
ترمیمدرگا مندر، وارانسی وارانسی کے مقدس شہر میں سب سے زیادہ مشہور مندروں میں سے ایک ہے۔ یہ مندر ہندو مت کی دیوی درگا سے منسوب ہے۔ درگا مندر بنگالی مہارانی نے اٹھارویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔[67] لال پتھروں سے بنے اس انتہائی خوبصورت مندر کے ایک طرف "درگا کنڈ" (تالاب) ہے۔ اس کنڈ کو بعد میں بلدیہ نے فوارے میں تبدیل کر دیا، جس کی وجہ سے یہ اپنا اصل حسن کو کھو چکا ہے۔ مندر کے اندر ہون کنڈ ہے، جہاں روزانہ ہون ہوتے ہیں۔ ساون کے مہینے میں یہاں ایک ماہ کا بہت پیارا میلہ لگتا ہے۔
بھارت ماتا مندر
ترمیمبھارت ماتا مندر وارانسی میں واقع ایک ہندو مندر ہے۔ اس مندر میں دیوتاؤں اور دیویوں کے روایتی مجسموں کی بجائے غیر منقسم بھارت کا سنگ مرمر سے بنا ایک بڑا نقشہ موجود ہے۔[68][69][70][71][72][73]
نیپالی مندر
ترمیمنیپالی مندر وارانسی کے مقدس شہر میں قدیم ترین اور سب سے مشہور مندروں میں سے ایک ہے۔ اس مندر کی ہندو مت میں عظیم مذہبی اہمیت ہے اور یہ بھگوان شیو سے منسوب ہے۔ اس کی تعمیر نیپال کے بادشاہ نے انیسویں صدی میں کروائی۔ مندر ٹیراکوٹا، پتھر اور لکڑی سے بنا ہے اور کھٹمنڈو کے پاشوپتی ناتھ مندر ہو بہو نقل ہے۔[74][75][76][77][78]
شری وشوناتھ مندر
ترمیمشری وشوناتھ مندر جسے نیا وشوناتھ مندر، وشوناتھ مندر اور برلا مندر بھی کہا جاتا ہے وارانسی کے مقدس شہر کے سب سے زیادہ مشہور مندروں میں سے ایک اور مقبول سیاحتی مقام ہے۔ مندر بنارس ہندو یونیورسٹی میں واقع ہے اور بھگوان شیو سے منسوب ہے۔ شری وشوناتھ مندر کا مینار دنیا کا بلند ترین مندر مینار ہے۔[79][80][81][82][83][84] شری وشوناتھ مندر کی تعمیر مکمل ہونے میں پینتیس سال (1931–1966) لگے۔ مندر کی مجموعی بلندی 77 میٹر ہے (253 فٹ) ہے۔
تلسی مانس مندر
ترمیمتلسی مانس مندر وارانسی کے مقدس شہر میں سب سے زیادہ مشہور مندروں میں سے ایک ہے۔ ہندو شاعر سنت، اصلاح پسند اور فلسفی تلسی داس نے سولہویں صدی میں رام چرت مانس یہیں لکھی تھی۔[85][86]
مساجد
ترمیموارانسی میں 15 اہم تاریخی مساجد واقع ہیں۔ جن میں عبد الرزاق مسجد، عالمگیر مسجد، بی بی رضیہ مسجد، فاطمہ مسجد، گیان واپی مسجد، شاہدہ مسجد اور حضرت سید سالار مسعود درگاہ اہم ہیں۔
عالمگیر مسجد، وارانسی
ترمیمعالمگیر مسجد، وارانسی جسے بنی مادھو کی درگاہ اور اورنگزیب مسجد بھی کہا جاتا ہے جسے سترہویں صدی میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے بنوایا تھا۔ یہ موجودہ بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر وارانسی میں واقع ہے۔ ہندووں کے مطابق یہ مسجد ایک مندر کے کھنڈر پر بنائی گئی ہے۔ [87][مکمل حوالہ درکار][88]
گیان واپی مسجد
ترمیمگیان واپی مسجد وارانسی، اتر پردیش، بھارت میں واقع ہے۔ اسے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے سترہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ ہندووں کے مطابق اسے کاشی وشوناتھ مندر کے کھنڈر پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ دریائے گنگا کے کنارے دشاشومیدھ گھاٹ کے شمال میں للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے۔ یہ ایک جامع مسجد ہے جو وارانسی شہر کے دل میں واقع ہے۔[89] یہ انجمن انتظامیہ مسجد کے زیر انتظام ہے۔[90]
دیگر اہم مقامات
ترمیمبھارت آثار قدیمہ سروے کے مطابق 19 مقامات کو انتہائی اہم آثار قدیمہ شمار کیا گیا ہے۔[91] جن میں چند عالمگیر مسجد، وارانسی، بھارت ماتا مندر، درگا مندر، وارانسی، کاشی وشوناتھ مندر، سنکٹ موچن ہنومان مندر، شری وشوناتھ مندر، رام نگر قلعہ، وارانسی میں گھاٹ، تلسی مانس مندر اور جنتر منتر، وارانسی ہیں۔[92]
رام نگر قلعہ
ترمیمرام نگر قلعہ رام نگر، وارانسی، بھارت میں ایک قلعہ بندی ہے۔ یہ دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے۔ یہ مغلیہ فن تعمیر کا یک نمونہ ہے جسے ریاست بنارس کے راجا بلونت سنگھ نے بنوایا۔ اٹھارویں صدی سے اس میں مقامی مذہبی رہنما کاشی نریش آباد ہیں۔ موجودہ بادشاہ اور قلعہ کے رہائشی اننت نارائن سنگھ ہیں، جنہیں وارانسی کا مہاراجا بھی تصور کیا جاتا ہے تاہم اس شاہی لقب کو 1971ء کے بعد سے ختم کر دیا جا چکا ہے۔[93][94] موجودہ دور میں قلعہ کا کچھ حصہ عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔
جنتر منتر
ترمیمجنتر منتر وارانسی میں قائم ایک رصدگاہ ہے جسے 1737ء میں مملکت امبیر کے مہاراجہ جے سنگھ دوم نے بنوایا تھا۔ یہ رصدگاہ مہاراجہ جے سنگھ دوم کی بنوائی ہوئی پانچ رصدگاہوں میں سے ایک ہے۔[95][72][96][97][98][99][100][101]
تعلیم
ترمیمتاریخی طور اعتبار وارانسی، ہندوستان میں تعلیم کا مرکز رہا ہے اور ملک بھر سے طلبہ اور علما کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ [102][103] وارانسی کی مجموعی شرح خواندگی 80٪ (خاتون خواندگی 75 فیصد: مرد خواندگی 85 فیصد) ہے۔ [102][103] یہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ سب سے اہم ہے بنارس ہندو یونیورسٹی جو 20،000 سے زیادہ طالب علموں کے ساتھ ایشیا کی سب سے بڑی رہائشی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔[104] اس کے علاوہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، جامعہ ایمانیہ، مہاتما گاندھی کاشی ودیاپیٹھ، سمپورآنند سنسکرت یونیورسٹی، شری اگرسین کنیا پی جی کالج اور ادے پرتاپ کالج قابل ذکر ہیں۔
بنارس ہندو یونیورسٹی
ترمیمبنارس ہندو یونیورسٹی جس کا سابقہ نام سینٹرل ہندو کالج تھا وارانسی، اتر پردیش، بھارت میں واقع ایک مرکزی یونیورسٹی ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی 20،000 سے زیادہ طالب علموں کے ساتھ ایشیا کی سب سے بڑی رہائشی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔[104]
آبادیات
ترمیم2011ء کی مردم شماری کے عبوری اعدادوشمار کے مطابق وارانسی شہری آبادی 1،435،113 جس میں 761٬060 مرد اور 674٬053 خواتین تھیں۔[105] 2001ء میں وارانسی کی شہری آبادی 1.371.749 تھی جس کا جنسی تناسب 879 خواتین فی 1٬000 مرد تھا۔[106] تاہم وارانسی نگر نگم کے تحت علاقے کی آبادی 1.100.748 تھی [107] اور جنسی تناسب 883 خواتین فی 1٬000 مرد تھا۔[107] شہری علاقے میں شرح خواندگی 77 فیصد جبکہ میونسپل کارپوریشن علاقے میں ہے کہ 78 فیصد ہے۔[107] میونسپل علاقے میں تقریباً 138،000 لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔[108]
کھیل
ترمیمباسکٹ بال، کرکٹ اور فیلڈ ہاکی وارانسی کے مقبول کھیل ہیں۔[109] شہر کا مرکزی اسٹیڈیم ڈاکٹر سمپورآنند اسٹیڈیم جسے سگرا اسٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔[110]
نقل و حمل
ترمیمشہر میں نقل و حرکت کے ٹیکسیوں، رکشوں، سائیکل رکشوں کی سواری دستیاب ہے، مگر قدیم شہر کے علاقے میں بعض پابندیاں ہیں۔[111] شہر کے بیرونی علاقوں میں بسیں عام ہیں اور ٹیکسیاں بھی دستیاب ہیں۔ [112]
فضائی
ترمیموارانسی میں فضائی نقل و حمل کے لیے لال بہادر شاستری بین الاقوامی ہوائی اڈا جسے وارانسی بین الاقوامی ہوائی اڈا بھی کہتے ہیں (Varanasi International Airport) [113] (آئی اے ٹی اے: VNS، آئی سی اے او: VEBN) موجود ہے۔ یہ ایک عوامی ہوائی اڈا ہے، جو بابتپور [114] میں وارانسی، اتر پردیش، بھارت کے شمال مغرب میں 26 کلومیٹر (16 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔
سابقہ طور پر یہ وارانسی ہوائی اڈے کے طور پر جانا جاتا تھا، اکتوبر 2005ء کو اس کا نام تبدیل کر کے لال بہادر شاستری بین الاقوامی ہوائی اڈا رکھ دیا گیا۔[115] یہاں دہلی، گایا، کھٹمنڈو، کھجوراہو، شارجہ، لکھنؤ، ممبئی، حیدرآباد، دکن، بنگلور اور کولکاتہ سے پروازیں آتی ہیں۔
سڑک
ترمیموارانسی بھارت کے اہم بڑے شہروں جیسے نئی دہلی، ممبئی، کولکاتہ، چینائی، پونہ، احمد آباد، اندور، بھوپال، گوالیار، جبل پور، اوجین اور جے پور وغیرہ سے بذریعہ سڑک اور ریل سے منسلک ہے۔ یہ دہلی سے 786 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ قدیم دور ہی سے یہ شہر ٹیکسلا، غازی پور، پاٹلی پتر، ویشالی، ایودھیا، گورکھپور اور آگرہ وغیرہ سے منسلک رہا ہے۔
ریل
ترمیمبنارس کی پہلی ریلوے لائن دسمبر، 1862ء میں ایسٹ انڈیا ریلوے کمپنی نے کلکتہ سے بنوائی۔ وارانسی جنکشن ریلوے اسٹیشن جسے عام طور پر وارانسی کنٹونمنٹ ریلوے اسٹیشن کہا جاتا ہے، بھارت کی ریاست اتر پردیش میں ریل مرکز ہے۔
جڑواں شہر
ترمیمنگار خانہ
ترمیم-
وارانسی
-
وارانسی جنکشن
-
وارانسی
-
وارانسی
-
بنارس ہندو یونیورسٹی
-
کشتی بازار بنارس
-
درگاہ فاطمہ
-
گنگا آرتی
-
رام نگر قلعہ
-
سنسکرت اسکول
-
دریائے گنگا
-
وارانسی
-
وارانسی
-
وارانسی
-
وارانسی
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Urban Agglomerations/Cities having population 1 lakh and above"۔ Office of the Registrar General & Census Commissioner, India۔ 2018-12-26 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-05-12
- ↑ "Varanasi City Census 2011 data"۔ census2011.co.in۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-04-11
- ↑ "Cities having population 1 lakh and above" (PDF)۔ Government of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-05-12
- ↑ The name that appears on the 1909 version official map of India
- ^ ا ب Cunningham اور Sastri 2002، صفحہ 131–140
- ↑ Sailendra Sen (2013)۔ A Textbook of Medieval Indian History۔ Primus Books۔ ص 32–33۔ ISBN:978-9-38060-734-4
- ↑ Das 1991، صفحہ 17
- ↑ Merriam-Webster 1999، صفحہ 910
- ↑ Gandhi 2007، صفحہ 90
- ↑ Berwick 1986، صفحہ 121
- ↑ Mitra 2002، صفحہ 182
- ^ ا ب Prakash 1981، صفحہ 170
- ↑ Corp 2007، صفحہ 1
- ↑ Kochhar 2015، صفحہ 247
- ↑ Twain 1897، صفحہ Chapter L
- ↑ "DEO Varanasi"۔ Tourist Information: General Information۔ Varanasi District Administration by National Informatics center۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-07
- ↑ Maps (Map)۔ گوگل میپس
- ↑ Rana P.B. Singh۔ "Varanasi as Heritage City (India) on the scale the UNESCO World Heritage List: From Contestation to Conservation" (PDF)۔ EASAS papers۔ Swedish South Asian Studies Network۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2006-08-18
- ↑ Singh 1975، صفحہ 4
- ↑ Pandey 1989، صفحہ 13
- ↑ "Varanasi Climatological Table Period: 1971–2000"۔ India Meteorological Department۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-04-15
- ↑ "Ever recorded Maximum and minimum temperatures up to 2010" (PDF)۔ India Meteorological Department۔ 2013-05-21 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-04-15
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ JNNURM 2006، صفحہ 29
- ↑ JNNURM 2006، صفحہ 28
- ↑ JNNURM 2006، صفحہ 29-31
- ↑ Warikoo 2010، صفحہ 192
- ↑ JNNURM 2006، صفحہ 31
- ↑ "About Bharat"۔ Bharat Heavy Electricals Limited۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-03
- ↑ "Foreign tourists' arrival breach 2L mark"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 2014-01-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-10-22
- ↑ JNNURM 2006، صفحہ 57
- ↑ JNNURM 2006، صفحہ 56
- ↑ "Bank, Post & Telegraph"۔ Uttar Pradesh Tourism۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-10-30
- ↑ The Indian Empire معجم سلطانی ہند، 1909, v. 2, p. 262.
- ↑ Medhasananda 2002، صفحہ 653
- ↑ Kasbekar 2006، صفحہ 126
- ↑ "Varanasi"۔ Encyclopædia Britannica۔ 1 نومبر 2012۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-08
- ↑ "Benares, the Eternal City"۔ Banaras Hindu University۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-02
- ↑ Broughton Ellingham2000، صفحہ 91
- ↑ Bruyn, Bain اور Allardice 2010، صفحہ 470
- ↑ creative cities map | Creative Cities Network
- ↑ Raj Kumar (2003)۔ Essays on Indian music (History and culture series)۔ Discovery Publishing House۔ ص 200۔ ISBN:81-7141-719-1۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-18
{{حوالہ کتاب}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے:|coauthors=
(معاونت) - ^ ا ب پ "Varanasi"۔ دائرۃ المعارف بریطانیکا۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-08-11
- ↑ "Varanasi city"
- ↑ Uttar Pradesh Tourism۔ "Fair and Festivals of Varanasi"۔ Uttar Pradesh Tourism۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-10-22
- ↑ "Sankat Mochan Sangeet Samaroh from اپریل 13"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 8 اپریل 2009۔ 2012-11-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-08
- ↑ "Jasraj, Birju Maharaj enthral on first night"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 14 اپریل 2009۔ 2012-11-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-08
- ^ ا ب پ Mitra 2002، صفحہ 216
- ↑ "Fairs and festivals"۔ National Informatics Centre۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-02
- ↑ "Ghats of Benares, 1–20"۔ National Informatics Centre۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-03
- ^ ا ب "Ghats of Varanasi, 41 to 60"۔ National Informatics Centre۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-03
- ↑ "Ghats of Benares, 61 to 84"۔ National Informatics Centre۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-03
- ↑ Bansal 2008، صفحہ 34–35
- ↑ "History"۔ Varanasi.org۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ John McKim Malville and Rana P. B. Singh۔ "Time and the Ganga River at Asi Ghat, Pilgrimage and Ritual Landscape" (PDF)۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-20
- ^ ا ب "Ganga Mahal Ghat"۔ Varanasi.nic.in۔ اخذ شدہ بتاریخ Sep 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ^ ا ب "Ghats of Varanasi"۔ Varanasi.org۔ اخذ شدہ بتاریخ Sep 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ^ ا ب "About Ghats"۔ kashiyana.com۔ 2016-08-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Sep 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ^ ا ب "The Varanasi Heritage Dossier"۔ Wikiversity۔ اخذ شدہ بتاریخ Sep 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ Proposing Varanasi for the World Heritage List of UNESCO (PDF)، Varanasi Development Authority
- ↑ Bansal 2008، صفحہ 48–49
- ↑ "Important temples of Varanasi"۔ National Informatics Centre۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-02
- ↑ "Temples of Varnasi"۔ وارانسی Official website۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-09
{{حوالہ ویب}}
: استعمال الخط المائل أو الغليظ غير مسموح:|publisher=
(معاونت) - ↑ "Annapurna Devi Mandir"۔ Varanasi.org۔ اخذ شدہ بتاریخ Jun 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Bhavani Devi"۔ Varanasi Temples۔ اخذ شدہ بتاریخ Jun 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Annapurna Temple in Varanasi"۔ Temple Travel۔ 2015-04-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Jun 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Annapurna Temple, Varanasi"۔ My Temples India۔ اخذ شدہ بتاریخ Jun 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت)[مردہ ربط] - ↑ "Durga Mandir"۔ Varanasi.org۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Bharat Mata Mandir"۔ varanasi.org۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Bharat Mata"۔ varanasicity.com۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "LP"۔ Lonely Planet۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Temple news"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ^ ا ب "Coordinates"۔ latlong.net۔ 2017-08-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Elevation"۔ Free Map tools۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Nepali Mandir"۔ ixigo.com۔ 2015-09-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "A piece of Nepal in Varanasi"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "This ghat of Goddess Lalita"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Kathwala Temple"۔ TripAdvisor۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Information"۔ buzzntravel۔ 2016-03-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "History"۔ Eastern U.P. Tourism website۔ 2015-04-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Brief description"۔ بنارس ہندو یونیورسٹی website۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "The temples"۔ بنارس ہندو یونیورسٹی website۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Vishwanath Temple"۔ Wikinapia۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "New Vishwanath Temple"۔ وارانسی city website۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Birla Temple"۔ varanasi.org.in۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Tulsi Manas Mandir"۔ Varanasi.org۔ اخذ شدہ بتاریخ Mar 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ K.B. Jindal (1955)، A history of Hindi literature، Kitab Mahal،
۔۔۔ The book is popularly known as the Ramayana، but the poet himself called it the Ramcharitmanas i.e. the 'Lake of the Deeds of Rama'
- ↑ Gupta 1987، صفحہ 38
- ↑ Crowther, Raj اور Wheeler 1984
- ↑ Diane P. Mines؛ Sarah Lamb (2002)۔ Everyday Life in South Asia۔ Indiana University Press۔ ص 344–۔ ISBN:0-253-34080-2۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- ↑ "VHP game in Benares, with official blessings"۔ Frontline۔ S. Rangarajan for Kasturi & Sons۔ ج 12 شمارہ 14–19: 14۔ 1995
- ↑ "Alphabetical List of Monuments – Uttar Pradesh"۔ Archaeological Survey of India۔ 2019-01-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-10-22
- ↑ "DEO Varanasi"۔ Tourist Information:Places of Interest۔ Varanasi District Administration by National Informatics center۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-07
- ↑ Swati Mitra (2002)۔ Good Earth Varanasi city guide۔ Eicher Goodearth Limited۔ ص 124–127۔ ISBN:9788187780045۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-06
- ↑ "Lonely Planet review for Ramnagar Fort & Museum"۔ Lonely Planet۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-06
- ↑ "History"۔ Varanasi.org۔ 2016-03-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Altitude"۔ daftlogic.com۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Places Of Interest"۔ Varanasi.nic۔ 2016-03-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Jantar Mantar"۔ وارانسی city website۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "About Jantar Mantar"۔ holidayiq.com۔ 2016-01-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Jantar Mantar in Varanasi"۔ hoteltravel.com۔ 2015-09-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ↑ "Jantar Mantar information"۔ visitinvaranasi.com۔ 2015-09-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ Aug 2015
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في:|accessdate=
(معاونت) - ^ ا ب Sharma 1995، صفحہ 191
- ^ ا ب Gupta 2006، صفحہ 41
- ^ ا ب Kumar Yadav, Mithilesh (14 جون 2011)۔ "From ancient to modern"۔ Hindustan Times۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-10-30
- ↑ "Urban Agglomerations/Cities having population 1 lakh and above" (PDF)۔ Provisional Population Totals, Census of India 2011۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-07
- ↑ "Urban Agglomerations/Cities having population of more than one million in 2001"۔ Census of India 2001 (Provisional)۔ Office of the Registrar General, India۔ 25 جولائی 2001۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2006-08-18
- ^ ا ب پ "Population, Population in the age group 0–6 and literates by sex – Urban Agglomeration/Town: 2001" (PDF)۔ Census of India 2001 (Provisional)۔ Office of the Registrar General, India۔ ص 53–54۔ 2019-01-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2006-08-17
- ↑ "Slum Population in Million Plus Cities (Municipal Corporations): Part A"۔ Census of India 2001 (Provisional)۔ Office of the Registrar General, India۔ 22 جنوری 2002۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2006-08-18
- ↑ "Varanasi team scores big win"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 9 نومبر 2005۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-10-30
- ↑ "Dr Sampurnanda Stadium, Varanasi"۔ The Cricketer۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-10-30
- ↑ "DEO Varanasi"۔ Tourist Information How to Reach page۔ Varanasi District Administration by National Informatics center۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-07
- ↑ Bruyn, Bain اور Allardice 2010، صفحہ 467
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 2006-10-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- ↑ "Airports Authority of India"۔ Airports Authority of India۔ 2006-10-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-02-01
- ↑ "Varanasi Airport renamed"۔ Press Information Bureau, Government of India۔ 20 اکتوبر 2005۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- ↑ Vishnu Som (30 اگست 2014)۔ "To Rejuvenate Indian Cities, PM Modi Takes First Step With Japan"۔ NDTV.com۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
کتابیات
ترمیم- Students' Academy۔ Banaras (Varanasi) – The City of Gods۔ Lulu.com۔ ISBN:978-0-557-91475-3۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Catherine Blanshard Asher (24 ستمبر 1992)۔ Architecture of Mughal India۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-0-521-26728-1۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Vanessa Betts؛ Victoria McCulloch (27 ستمبر 2013)۔ India – The North: Forts, Palaces, the Himalaya Dream Trip۔ Footprint Travel Guides۔ ISBN:978-1-907263-74-3۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Simon Broughton؛ Mark Ellingham (2000)۔ World Music: Latin and North America, Caribbean, India, Asia and Pacific۔ Rough Guides۔ ISBN:978-1-85828-636-5۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Real Corp (2007)۔ CORP 007 Proceedings۔ Lulu.com۔ ISBN:978-3-9502139-3-5۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Sunita Pant Bansal (2008)۔ Hindu Pilgrimage۔ Pustak Mahal۔ ص 6–9, 34–35۔ ISBN:9788122309973
{{حوالہ کتاب}}
:|work=
تُجوهل (معاونت) وپیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Dennison Berwick (1986)۔ A Walk Along The Ganges۔ Dennison Berwick۔ ISBN:978-0-7137-1968-0۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Vanessa Betts؛ Victoria McCulloch (30 اکتوبر 2013)۔ Delhi to Kolkata Footprint Focus Guide۔ Footprint Travel Guides۔ ISBN:978-1-909268-40-1۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Joe Bindloss؛ Lindsay Brown؛ Mark Elliott (2007)۔ Northeast India۔ Lonely Planet۔ ISBN:978-1-74179-095-5۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Pippa de Bruyn؛ Keith Bain؛ David Allardice (18 فروری 2010)۔ Frommer's India۔ John Wiley & Sons۔ ISBN:978-0-470-64580-2۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - City Development Plan for Varanasi (PDF)۔ Jawaharlal Nehru National Urban Renewal Mission۔ 2006۔ 2014-02-23 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- Winand M. Callewaert (2000)۔ Banaras: vision of a living ancient tradition۔ Hemkunt Press۔ ص 90۔ ISBN:81-7010-302-9۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Alexander Cunningham؛ Surendranath Majumdar Sastri (2002) [1924]۔ Ancient Geography of India۔ Munshiram Manoharlal۔ ISBN:81-215-1064-3
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Geoff Crowther؛ Prakash A. Raj؛ Tony Wheeler (1984)۔ India, a Travel Survival Kit۔ Lonely Planet۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - G. N. Das (1991)۔ Couplets from Kabīr۔ Motilal Banarsidass Publ.۔ ISBN:978-81-208-0935-2۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Madhuri Desai (2003)۔ "Mosques, Temples, and Orientalists: Hegemonic Imaginations in Banaras" (PDF)۔ Traditional Dwellings and Settlements۔ ج XV شمارہ 1
{{حوالہ رسالہ}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Fiona Dunlop؛ Carol Sykes؛ Felicity Jackson (2001)۔ Fodor's Exploring India۔ Fodor's Travel Publications۔ ISBN:978-0-679-00707-4۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Diana L. Eck (1982)۔ Banaras, City of Light۔ Columbia University Press۔ ISBN:978-0-231-11447-9۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Surjit Singh Gandhi (2007)۔ History of Sikh Gurus Retold: 1469–1606 C.E۔ Atlantic Publishers & Dist۔ ISBN:978-81-269-0857-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Amita Gupta (2006)۔ Early Childhood Education, Postcolonial Theory, and Teaching Practices in India: Balancing Vygotsky and the Veda۔ Macmillan۔ ISBN:978-1-4039-7114-2۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Shobhna Gupta (2003)۔ Monuments of India۔ Har-Anand Publications۔ ص 11۔ ISBN:978-81-241-0926-7۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - A. L. Herman (1999)۔ Community, Violence, and Peace: Aldo Leopold, Mohandas K. Gandhi, Martin Luther King, Jr.، and Gautama the Buddha in the Twenty-First Century۔ SUNY Press۔ ص 153۔ ISBN:978-0-7914-3983-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Ansar Hussain (1 جنوری 1999)۔ Rediscovery of India, The: A New Subcontinent۔ Orient Blackswan۔ ISBN:978-81-250-1595-6۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Uttar Pradesh (India) (1965)۔ Uttar Pradesh district gazetteers۔ Govt. of Uttar Pradesh۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Vidula Jayaswal (2009)۔ Ancient Varanasi: an archaeological perspective (excavations at Aktha)۔ Aryan Books International۔ ISBN:978-81-7305-355-9
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Asha Kasbekar (2006)۔ Pop Culture India!: Media, Arts, And Lifestyle۔ ABC-CLIO۔ ISBN:978-1-85109-636-7۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Kaushal Kishore (2008)۔ Holy Ganga۔ Rupa Publications۔ ISBN:978-81-291-3328-1۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Atul Kochhar (4 جون 2015)۔ Benares: Michelin Starred Cooking۔ Bloomsbury Publishing۔ ISBN:978-1-4729-2078-2۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Stella Kramrisch (1946)۔ The Hindu Temple۔ Motilal Banarsidass Publ.۔ ISBN:978-81-208-0223-0۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Brajesh Kumar (2003)۔ Pilgrimage Centres of India۔ Diamond Pocket Books (P) Ltd.۔ ISBN:978-81-7182-185-3۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Eicher Goodearth Limited (2002)۔ Good Earth Varanasi City Guide۔ Eicher Goodearth Limited۔ ISBN:978-81-87780-04-5۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Medhasananda (2002)۔ Varanasi at the crossroads: a panoramic view of early modern Varanasi and the story of its transition۔ Ramakrishna Mission, Institute of Culture۔ ISBN:978-81-87332-18-3۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Ronald Mellor؛ Amanda H. Podany (2005)۔ The World in Ancient Times: Primary Sources and Reference Volume۔ Oxford University Press۔ ISBN:978-0-19-522220-3۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - J. Gordon Melton (1 جنوری 2007)۔ The Encyclopedia of Religious Phenomena۔ Visible Ink Press۔ ISBN:978-1-57859-209-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - J. Gordon Melton؛ Martin Baumann (2010)۔ Religions of the World, Second Edition: A Comprehensive Encyclopedia of Beliefs and Practices۔ ABC-CLIO۔ ISBN:978-1-59884-204-3۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Merriam-Webster (1999)۔ Merriam-Webster's Encyclopedia of World Religions۔ Merriam-Webster۔ ISBN:978-0-87779-044-0۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Jaishree Misra (2007)۔ Rani۔ Penguin Books India۔ ISBN:978-0-14-310210-6۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Swati Mitra (2002)۔ Good Earth Varanasi City Guide۔ Eicher Goodearth Limited۔ ISBN:978-81-87780-04-5۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Bidyut Mohanty (1993)۔ Urbanisation in Developing Countries: Basic Services and Community Participation۔ Concept Publishing Company۔ ISBN:978-81-7022-475-4۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Time Out (2010)۔ Time Out India: Perfect Places to Stay, Eat and Explore۔ Time Out Guides Ltd۔ ISBN:978-1-84670-164-1۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - K. N. Pandey (1989)۔ Adoption of Agricultural Innovations: A Study of Small and Marginal Farmers of Varanasi, U.P.۔ Northern Book Centre۔ ISBN:978-81-85119-68-7۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Tracy Pintchman (2005)۔ Guests at God's Wedding: Celebrating Kartik among the Women of Benares۔ SUNY Press۔ ISBN:978-0-7914-8256-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Kenneth Pletcher (2010)۔ The Geography of India: Sacred and Historic Places۔ The Rosen Publishing Group۔ ISBN:978-1-61530-142-3۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Satya Prakash (1981)۔ Cultural Contours of India: Dr. Satya Prakash Felicitation Volume۔ Abhinav Publications۔ ISBN:978-0-391-02358-1۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Satyajit Ray (2003)۔ Adventures of Feluda : Mystery of the El۔ Penguin Books India۔ ISBN:978-0-14-333574-0۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Karen Schreitmüller (2012)۔ Baedeker India۔ Baedeker۔ ISBN:978-3-8297-6622-7۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Myra Shackley (2001)۔ Managing Sacred Sites: Service Provision and Visitor Experience۔ Cengage Learning EMEA۔ ISBN:978-1-84480-107-7۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Urmila Sharma؛ S.K. Sharma (2001)۔ Indian Political Thought۔ Atlantic Publishers & Dist۔ ISBN:978-81-7156-678-5۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Virendra Nath Sharma (1995)۔ Sawai Jai Singh And His Astronomy۔ Motilal Banarsidass Publ.۔ ISBN:978-81-208-1256-7۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Ram Bali Singh (1975)۔ Rajput Clan-settlements in Varanasi District۔ National Geographical Society of India۔ OCLC:4702795
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Rana Singh (2 اکتوبر 2009)۔ Banaras: Making of India’s Heritage City۔ Cambridge Scholars Publishing۔ ISBN:978-1-4438-1579-6۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Singh؛ Pravin S. Rana (2002)۔ Banaras region: a spiritual & cultural guide۔ Indica Books۔ ISBN:9788186569245
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Sarina Singh (2009)۔ India۔ Lonely Planet۔ ISBN:978-1-74179-151-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - The Small Hands of Slavery: Bonded Child Labor in India۔ نگہبان حقوق انسانی۔ 1996۔ ISBN:978-1-56432-172-5۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- Reena Tiwari (2010)۔ Space-Body-Ritual: Performativity in the City۔ Lexington Books۔ ISBN:978-0-7391-2857-2۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Mark Twain (1897)۔ "L"۔ Following the Equator: A journey around the world۔ Hartford, Connecticut, American Pub. Co.۔ ISBN:0-404-01577-8۔ OCLC:577051۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
:
میں بیرونی روابط (معاونت)، الوسيط غير المعروف|chapterurl=
|chapterurl=
تم تجاهله يقترح استخدام|مسار الفصل=
(معاونت)، وپیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Zak Vera (2010)۔ Invisible River: Sir Richard's Last Mission۔ AuthorHouse۔ ISBN:978-1-4389-0020-9۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Annelies Wilder-Smith؛ Marc Shaw؛ Eli Schwartz (2012)۔ Travel Medicine: Tales Behind the Science۔ Routledge۔ ISBN:978-0-08-045359-0۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Kuber Nath Sukul (1974)۔ Varanasi Down The Ages۔ Kameshwar Nath Sukul۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-30
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - K. Warikoo (1 نومبر 2010)۔ Religion and Security in South and Central Asia۔ Routledge۔ ISBN:978-1-136-89020-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Jolie M.F. Wood (2011)۔ "Contentious politics and civil society in Varanasi"۔ در Ajay Gudavarthy (مدیر)۔ Re-framing Democracy and Agency at India: Interrogating Political Society۔ Anthem Press۔ ISBN:978-0-85728-350-4
{{حوالہ موسوعہ}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Dr Ilan Vit-Suzan (28 مارچ 2014)۔ Architectural Heritage Revisited: A Holistic Engagement of its Tangible and Intangible Constituents۔ Ashgate Publishing, Ltd.۔ ISBN:978-1-4724-2064-0۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت)
مزید پڑھیے
ترمیم- Marcus Banks؛ Howard Morphy (1999)۔ Rethinking Visual Anthropology۔ Yale University Press۔ ISBN:978-0-300-07854-1۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- Siddharth Kara (2010)۔ Sex Trafficking: Inside the Business of Modern Slavery۔ Columbia University Press۔ ISBN:978-0-231-13961-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- Neela Mukherjee (2002)۔ Alternative Perspectives on Livelihood, Agriculture and Air Pollution۔ Concept Publishing Company۔ ISBN:978-81-7022-986-5۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- Christopher Hugh Partridge (2005)۔ Introduction to World Religions۔ Fortress Press۔ ISBN:978-0-8006-3714-9۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- Rekha Shetty (1 مئی 2014)۔ Innovation Sutra: The Secret of Good Business and a Good Life۔ Penguin Books Limited۔ ISBN:978-93-5118-696-0۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Singh (2007)۔ Longman Panorama History 7۔ Pearson Education India۔ ISBN:978-81-317-1175-0۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
- Richard Trayler (2010)۔ Life Is Short.۔۔Compared to Eternity۔ Xulon Press۔ ISBN:978-1-61215-343-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-11
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر وارانسی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
ویڈیو
ترمیم- وارانسی - گنگا اشنان
- وارانسی دستاویزی فلم
- دستاویزی فلم- وارانسی تاریخ سے پرانا شہر
- وارانسی
- وارانسی مقدس نگری
- وارانسی بازار، سڑکیں اور گلیاں
- وارانسی بازار
- وارانسی میں چلتے ہوئے
- کاشی یاترا
دیگر
ترمیم- وارانسی ضلع کی سرکاری ویب گاہ
- کرلی (ڈی موز پر مبنی) پر وارانسی
- ریاستی حکومت سیاحت ویب گاہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ up-tourism.com (Error: unknown archive URL)