شاہ اسماعیل دہلوی

فرقہ ناجیہ "اہل حدیث" کے بانی

شاہ اسماعیل دہلوی، شاہ ولی اللہ کے پوتے اور حضرت شاہ عبد الغنی کے بیٹے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کے چچا شاہ عبدالعزیز کے زیر سایہ ہوئی۔ سید احمد بریلوی نے سکھوں کے خلاف جو جہاد کیا تھا شاہ اسماعیل اس میں اُن کے دست راست رہے اور بالاخر بالاکوٹ ضلع ہزارہ میں شہید ہوئے۔ بالاکوٹ میں ہی سید احمد بریلوی کے ساتھ مدفون ہیں۔ ان کی مشہور کتاب تقویۃ الایمان ہے اس کے علاوہ اصول فقہ، منصب امامت، عبقات، مثنوی سلک نور اور تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین بھی اس کی تصانیف ہیں۔

شاہ اسماعیل دہلوی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 29 اپریل 1779ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مظفر نگر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 مئی 1831ء (52 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بالاکوٹ ،  سکھ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص سید نذیر حسین دہلوی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں تقویۃ الایمان   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شاہ اسماعیل دہلوی کی آخری آرام گاہ، بالاکوٹ

آپ نامور محدث ومجاہد، حضرت شاہ عبد الغنی دہلویؒ کے فرزند، حضرت شاہ عبد العزیزدہلویؒ، حضرت شاہ رفیع الدین دہلویؒ اور شاہ عبد القادر دہلویؒ کے بھتیجے اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے پوتے اور حضرت شاہ عبد الرحیم دہلویؒ کے پرپوتے تھے۔

ولادت

ترمیم

شاہ اسماعیل کی ولادت صحیح اور مستند روایت کے مطابق 12 ربیع الاول 1193ھ بمطابق 29 اپریل 1779ء کو دہلی میں ہوئی۔ آپ کی والدہ کا نام بی بی فاطمہ تھا۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

شاہ اسماعیل دہلوی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی، آٹھ سال کی عمر میں تکمیلِ حفظِ قرآن مجید فرمایا۔ جب آپ کی عمر دس برس کی ہوئی، تو والدماجد کا انتقال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے بعد درسی کتابیں حضرت شاہ عبد القادر دہلویؒ سے پڑھیں اور سندِ حدیث حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ سے لی۔ پندرہ سال کی عمر میں تحصیلِ علم سے فارغ ہوئے۔

راہِ سلوک

ترمیم

تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ نے حضرت سید احمد شہید رائے بریلویؒ کی خدمت میں رہ کر طریقِ سلوک طے کیا۔ آپ حضرت رائے بریلویؒ سے سات سال بڑے تھے۔

آپ کا علمی و اصلاحی کارنامہ

ترمیم

آپ جہاں بہت بڑے عالم ومجاہد اور واعظ ومبلغ تھے وہیں بہترین مصنف بھی تھے۔ آپ کے علمی کارناموں میں تقویۃ الایمان، منصبِ امامت اورصراطِ مستقیم وغیرہ آپ کے علم و فضل کا شاہ کارہیں۔ آپ نے اس وقت کے رسم و رواج، بدعات وخرافات کی بذریعہ تقریر وتحریر دھجّیاں بکھیر دیں جو آپ کا زبردست اصلاحی کارنامہ ہے۔

آپ میدانِ جہاد میں

ترمیم

آپ 1241ھ میں اپنے پیر و مرشد (حضرت سید احمد شہیدؒ) کے ارشاد پر سکھوں کے خلاف جہاد کے لیے نکلے۔ چند سال مسلسل معرکہ ہائے جہاد وقتال میں شرکت ورہنمائی کے بعد 1246ھ مطابق 1831ء میں بمقام بالاکوٹ کفار سے جنگ کرتے ہوئے شہیدہوگئے، اس وقت آپ کی عمر 53؍ سال کی تھی۔[3][4]

عمومی رائے

ترمیم

مولینا مولوی غلام رسول مہر محدث اپنی کتاب ’’ اسماعیل شہید‘‘ کے صفحہ 281 جلد دوم میں لکھتے ہیں۔
شاہ اسماعیل کے مجموعہ مکاتیب میں دو مکتوب ایسے ہیں جو پشاور کے دس علما ء کے نام بھیجے گئے۔ پہلا 9ربیع الثانی 1244ھ(20اکتوبر 1829ء) کو دوسرا 17 شوال 1245ھ(11 اپریل 1830ء) کو۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان علما کی طرف سے سید صاحب اور آپ کے رفقا ء کئی الزام لگائے گئے تھے۔ مثلاً

1۔ سید صاحب اور آپ کے رفقا الحاد و زندقہ میں مبتلا ہیں۔ ان کا کوئی مذہب و مسلک نہیں ہے۔ نفسانیت کے پیرو ہیں اور لذات جسمانی کے جویا۔

2۔ وہ ظلم اور تعدی کے خوگر ہیں۔

3۔ بلاوجہ شرعی، مسلمانوں کے اموال و نفوس پر دست درازی کرتے ہیں۔

4۔ سید صاحب انگریزی رسالہ میں ملازم تھے۔ مولینا اسماعیل اور بعض دوسرے لوگوں نے انھیں مہدی موعود قرار دیا۔ انگریزوں نے ان کو ملک سے نکال دیا۔

5۔ وہ مکہ معظمہ پہنچے وہاں سے براہ مسقط و بلوچستان قندھار گئے۔

6۔ خادی خان کو ملا عبد الغفور (اخون صاحب سوات) کے ذریعہ صلح کے بہانے بلایا اور قتل کرا دیا۔[5]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/149230 — بنام: Muḥammad Ismāʻīl — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. https://www.rekhta.org/authors/shah-ismail-shaheed
  3. فقہائے پاک و ہند 3؍187، تذکرۂ محدثین ص207، تاریخ دعوت وعزیمت 5/377، آثار الصنادید ص 81
  4. تذکرہ اکابر، تالیف مولانا نظام الدین صاحب قاسمیؔ استاذ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا، صفحہ 44 http://www.elmedeen.com/read-book-4994&&page=49#page-44&viewer-text[مردہ ربط]
  5. ’’ اسماعیل شہید‘‘ غلام رسول مہر۔ صفحہ 281 جلد دوم