جلیل پاشا

آزاد بھارت میں اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے کوشاں شخصیت تھے۔ وہ ایک تنظیم اردو تعلیمی کمیٹی کے صدر اور سابقہ متحدہ آندھرا پردیش ریاست کی

محمد جلیل پاشا حیدرآباد، تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے اور آزاد بھارت میں اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے کوشاں شخصیت تھے۔ وہ ایک تنظیم اردو تعلیمی کمیٹی کے صدر اور سابقہ متحدہ آندھرا پردیش ریاست کی اردو اکیڈمی کے صدر بھی رہے۔

محمد جلیل پاشا

معلومات شخصیت
تاریخ وفات نومبر 26، 2018(2018-11-26)
عملی زندگی
وجہ شہرت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے قیام کی جد و جہد، 1969ء کے تلنگانہ احتجاج میں حصے داری۔ اردو تعلیم کے فروغ کی کوشش، اردو اکیڈمی، آندھرا پردیش کی صدارت

1969ء کا تلنگانہ احتجاج

ترمیم

1969ء کا تلنگانہ احتجاج متحدہ آندھرا پردیش سے تلنگانہ علاقے کو الگ ریاست بنانے کے لیے تھا۔ اس میں کئی نوجوانوں نے قربانی دی اور کئی افراد گرفتار بھی ہوئے۔ جلیل پاشا بھی اس تحریک کا حصہ رہے۔ یہ تحریک اگر چیکہ 1969ء میں نتیجہ خیز نہیں ہوئی، تاہم 2014ء میں الگ ریاست تلنگانہ وجود میں آیا۔ [1]

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی

ترمیم

جلیل پاشا سقوط حیدرآباد کے بعد جامعہ عثمانیہ کے انگریزی میڈیم میں تبدیل ہونے سے نالاں تھے اور مسلسل الگ اردو یونیورسٹی کے قیام کی جد و جہد میں لگے رہے۔ ان کی اور ان جیسے اہل فکر کی کوششوں کے سبب 1998ء میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی وجود میں آئی۔[1]

تعلیمی ادارے سے وابستگی

ترمیم

جلیل پاشا نامپلی ڈگری و پی جی کالج کے تعلیمی کامپلیکس (Educational Complex of Nampally Degree and PG College) کے صدر نشین بھی رہے۔ [1]

انتقال

ترمیم

وہ 26 نومبر 2018ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ [1]

خراج تحسین

ترمیم

جلیل پاشا اور اردو زبان کے کئی محبان کا حوالہ دیتے ہوئے عاتق شاہ کا قول ہے:

میں کن کن ناموں کو گناؤں۔ یہ اردو کے وہ مجاہدین ہیں جنھوں نے جلوس نکالے۔ فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر ہفتوں زنجیری بھوک ہڑتال کی۔ سڑکوں پر دھرنا دیا۔ میں انھیں سلام کرتا ہوں اور انھیں بھی سلام کے لیے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہوں جن کے نام میں بھول رہا ہوں۔ پتہ نہیں میرے حافظہ کو کیا ہو گیا ہے۔ لیکن یہ بھی وہ مجاہد ہیں جو بھوکے پیاسے گھروں سے نکل کر اردو کے قافلے میں شامل ہیں۔ اور قدم سے قدم ملا کر چلنے لگے۔ اضلاع میں۔۔۔ دیہا توں میں اور چھوٹے چھوٹے مواضعات میں !ً اب اردو کا نعرہ کھیتوں میں اگ رہا ہے اور کارخانوں کی چِمْنیوں سے نکلتے ہوئے سیاہ دھوئیں کے ساتھ آسمانوں میں پھیل رہا ہے۔[2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم