جناح کے چودہ نکات
ہندو مسلم مسئلے کے حل کے لیے محمد علی جناح نے جنہیں موجودہ پاکستان میں قائد اعظم کے لقب سے جانا جاتا ہے، 28 مارچ 1929ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں نہرو رپورٹ کے جواب چودہ نکات میں پیش کیے جو تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں
چودہ نکات
ترمیممحمد علی جناح کے چودہ نکات درج ذیل ہیں:
- ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی نوعیت کا ہو گا۔اور با اختیار ہو گا
- تمام صوبوں خاص طور پر بلوچستان کو مساوی سطح پر مساوی خود مختاری ہوگی۔
- ملک کی تمام مجالس قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبہ میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبہ میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تسلیم نہ کیا جائے۔
- مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔
- ہر فرقہ کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔
- صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی سکیم عمل میں نہ لائی جائے جس کے ذریعے صوبہ سرحد، بلوچستان اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔
- ہر قوم و ملت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔
- مجالس قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔
- سندھ کو بمبئی سے علاحدہ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنا دیا جائے۔
- صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔
- سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔
- آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔
- کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔
- ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
تبصرہ
ترمیممحمد علی جناح کے نقاط کو گرچہ کانگریس نے تسلیم نہیں کیا لیکن مبصرین کی رائے میں انھوں نے مسلمانانِ ہند کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے مفادات و حقوق کو مدلل انداز میں پیش کر کے برطانوی حکومت کو یہ بات باور کروانے کی کوشش کی کہ کانگریس محض ہندوؤں اور ان کی اکثریت ہی کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتی ہے جبکہ ہندوستان کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ان کے حقوق و مفادات کے حوالے سے کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ یہ چودہ بنیادی نکات تھے جو صحیح معنوں میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کا موجب بن سکتے تھے۔ اور ان نقاط کا تمام طبقہ ہائے فکر نے مناسب طریقے سے خیر مقدم کیا۔ جب یہ چودہ نکات منظرعام پر آئے تو جناح کو گول میز کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔[حوالہ درکار]