جکری، ”ذکری“ کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور مسلمانوں کے زمانے کی روحانی صنفِ شعر و موسیقی ہے۔ حافظ محمود خان شیرانی کہتے ہیں: ”جکری کا اطلاق ایسی نظموں پر ہوتا ہے جن میں اور مضامین کے علاوہ سلسلہ کا شجرہ اور مشائخ کی مدح ہوتی ہے۔“


جکری ایک صنف شعر ہے جس میں صوفیانہ اور مغربی مضامین بیان ہوتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ لفظ "ذکری" کی ایک شکل ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس لفظ کی اصل "ذکری" نہیں، بلکہ "جگری" ہے۔ بمعنی "جگر یا دل سے نکلی ہوئی بات"۔ جکری عام طور پر گائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ صنف گجرات سے منسوب ہے، لیکن شمالی ہند میں بھی بہت مقبول رہی ہے۔ جکری میں شاعر خدا، رسول یا اپنے مرشد کا ذکر کرتا ہے اور اپنے واردات باطنی و کوائف روحانی کو بیان کرتا ہے۔ بعض جکریوں میں عشق مجازی کا عنصر بھی نظر آتا ہے۔ لیکن صوفیانہ شاعری میں عام طور پر عشق مجازی اور عشق حقیقی کے درمیان تفریق نہیں کی جاتی اور عموماً عشق مجازی کے مضمون پر مبنی کسی شعر یا نظم کی تعبیر عشق حقیقی کے نقطہ نظر سے بھی ہو سکتی ہے۔ جکری کی زبان سادہ اور موسیقی کے لیے مناسب ہوتی ہے۔ شیخ بہاء الدین باجن کی جکریاں خاص طور پر مشہور ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس صنف کو "زبان ہندی" میں جکری کہتے ہیں۔ چونکہ قدیم زمانہ میں کاف عربی اور کاف فارسی کی لکھائی میں فرق نہ کرتے تھے، لہذا ممکن ہے کہ شیخ نے "جگری" ((مع کاف فارسی)) لکھا ہو۔