جیوتی یادو

بھارتی صحافی

جیوتی یادو (انگریزی: Jyoti Yadav) بھارتی صحافی ہیں اور دی پرنٹ سے وابستہ ہیں۔وزارت ترقی نسواں و اطفال، حکومت ہند سے متعلق مسائل، سماجی و جنسی برابری اور سامپرادیک دھنگوں پر جیوتی نظر رکھتی ہےـ[1][2][3] [4]آپ دی پرنٹ پر ہندی میں ہفتہ وار کالم میری جان مجھے خبر ہے لکھتی ہیں۔معلومات کے دور میں بدلتے بھارت پر لکھنا جیوتی کا اہم مشغلہ ہے اور اس پر خوب لکھتی ہیں۔ہتھیار سے زیادہ خطرناک ہیں، بھڑکاؤ بھاشن [5]اور بھارت بن گیا وشو گرو، ٹرمپ کو لگادی جارج پنجم کی آنکھ [6] جیوتی کے قابلَ ذکر مضامین ہیں۔

جیوتی یادو
معلومات شخصیت
پیدائش (1994-12-17) 17 دسمبر 1994 (عمر 30 برس)
مہیندر گڑھ، ہریانہ
عملی زندگی
مادر علمی دہلی یونیورسٹی
پیشہ صحافی
پیشہ ورانہ زبان ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دور فعالیت ستمبر 2016–حال
تنظیم دی پرنٹ

پیدائش اور تعلیم

ترمیم

جیوتی یادو 17 دسمبر 1994 کو بھارت کے صوبہ ہریانہ کے علاقہ مہیندرگڑھ میں پیدا ہوئی۔تربیت اور ابتدائی تعلیم مہیندرگڑھ میں ہوئی۔ بارہویں جماعت میں امتیازی نمبرات ملنے کے سبب جیوتی یادو نے پورے ضلع اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کامیابی نے جیوتی کے لیے دہلی یونیورسٹی کے دروازے کھول دیے۔ جیوتی نے دہلی یونیورسٹی کے دولت رام کالج سے انگریزی ادب میں بی-اے اور ایم-اے کیا۔[3][4]

کیریر

ترمیم

جیوتی بھارت کی دہیاتی زندگی سے متعلق لکھنے میں شوق رکھتی ہیں۔آپ نے اپنی صحافی زندگی کا آغاز دی للنٹاپ سے ستمبر 2016 میں کیاـ۔ سوشل میڈیا پر بھارت کی دیہاتی زندگی سے متعلق جیوتی کے مضامین سے متاثر ہو کر ہی دی للنٹاپ نے آپ کو صدا دی تھی۔ اس کے بعد جیوتی نے نیوز 18 اور انشارٹس کے لیے لکھا اور مارچ 2019 میں دی پرنٹ سے وابستہ ہوئیں۔ جیوتی نے شمالی ہند میں سفر کر کے اجتماعی آبروریزی کے واقعات سے متعلق خبر سازی کی ہے۔ [7][8]وزارت ترقی نسواں و اطفال، حکومت ہند سماجی و جنسی برابری اور سامپرادیک دھنگوں کی خبر سازی کرنا جیوتی کا اہم مشغلہ ہے۔ جیوتی فی الحال دی پرنٹ سے وابستہ ہے۔

دی پرنٹ

ترمیم

جیوتی مارچ 2019 سے دی پرنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ دی پرنٹ پر موجودہ سیاسی حالات پر لکھتی ہیں۔اور ہندی میں ہفتہ وار کالم 'میری جان مجھے خبر ہے کے ذیل میں لکھتی ہیں۔[4][9]

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "JNU हॉस्टल फीस की तुलना एम्स के OPD फीस से करने लगी द प्रिंट की पत्रकार، लोग बोले बकलोल हो क्या ?"۔ thechhichhaledar.com۔ 19 نومبر 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-01
  2. "Journalist asks why do poor study obscure subjects at JNU, Twitter hits back"۔ Free Press Journal۔ 15 نومبر 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-01
  3. ^ ا ب "अगर दंगल का बापू हानिकारक है، तो सब बापू हानिकारक बनें: हरियाणा की एक लड़की"۔ The Lallantop۔ 26 دسمبر 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-01-28
  4. ^ ا ب پ "جرنسلٹ کام کے! آئیے، جیوتی یادو سے ملیے"۔ HindustanUrduTimes۔ 01 فروری 2020۔ 2020-11-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-01
  5. "हथियार से ज्यादा खतरनाक हैं भड़काऊ भाषण، ये काल्पनिक दुश्मन खड़ा कर देते हैं"۔ ThePrint۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-02
  6. "भारत बन गया विश्वगुरू، ट्रंप को लगा दी जॉर्ज पंचम की आंख"۔ ThePrint۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-02
  7. "महिला पत्रकार ज्योति यादव ने पैगंबर मोहम्मद और मुसलमा'नों को लेकर कही बड़ी बात، सोशल मीडिया पर हुआ वायरल". indianmuslimpro.com (الهندية میں). 22 اکتوبر 2019. Archived from the original on 2020-01-28. Retrieved 2020-01-28.
  8. "'They Don't Want Justice, They Want Riots': How The Murder Of A Child In Aligarh Turned Into A Communally Tense Issue"۔ News Central 24x7۔ 11 جون 2019۔ 2020-01-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-01-28
  9. "मेरी जां मुझे खबर है". ThePrint.in (الهندية میں). Retrieved 2020-01-28.