حجاب فوبیا مسلم خواتین کے خلاف ایک قسم کا مذہبی اور ثقافتی امتیاز ہے۔[1] یہ عام طور پر عوامی مقامات، دفاتر اور اسکولوں میں برتا جاتا ہے۔

حجاب فوبیا کی ایک پینٹنگ؛ جس میں ایک مسلم بچی سے حجاب کھینچا جا رہا ہے۔

تفصیل

ترمیم

حجاب فوبیا ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم اسلامی حجاب، نقاب، برقع یا چادر زیب تن کرنے والی خواتین کے خلاف امتیازی سلوک برتنا ہے۔[2][3][1] اس کو اسلام کے خلاف دھمکی اور حجاب کے خلاف دشمنی سمجھا جاتا ہے۔[1] یہ اصطلاح مسلم خواتین کی نمائندگی پر مبنی مباحثوں اور اکیڈمیوں میں عام ہے۔

گزٹ اخبار کے مطابق 1989ء میں حجاب معاملہ (فرانسیسی:l'affaire du foulard) کے بعد فرانس میں حجاب فوبیا ایک قومی رجحان بن گیا ہے۔[4] ایوان کایا کے مطابق، فرانس میں اسلاموفوبیا حجاب فوبیا کے ساتھ مل گیا ہے۔[5]

سیاسی دانشور ونسنٹ گیزر کا خیال ہے کہ نائن الیون حملے کے بعد حجاب فوبیا زیادہ عام ہوا اور یہ ان ضوابط کی تعداد سے صاف واضح ہو جاتا ہے جو عوامی مقامات اور سرکاری دفاتر میں پردے پر پابندی سے متعلق بنائے گئے ہیں۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ لندن میں مسلمان لڑکیوں کو تب امتیازی سلوک کا احساس ہوا جب وہ اپنی برادری اور سماج سے باہر حجاب پہنتی تھیں، انھیں حجاب نہ پہننے کے لیے معاشرتی دباؤ محسوس ہوتا تھا۔[6][7]

واقعات

ترمیم

یورپی عدالت

ترمیم

14 مارچ 2017ء کو، یورپی عدالت نے اداروں کو یہ حق دیا کہ وہ ملازمین کو مذہبی علامتیں پہننے سے روکیں، جس میں حجاب بھی شامل تھا۔[8] اس فیصلہ کو مسلمانوں نے حجاب اور اسکارف پہننے والی خواتین کے خلاف براہ راست حملہ قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں، فرانس اور بیلجیم سے دو خواتین کو حجاب ہٹانے سے انکار کرنے پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔[8] اسی طرح عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں بیلجیم کی ایک خاتون سمیرا اشبیتا کو ان کی کمپنی (جی 4 ایس) سے برطرف کر دیا گیا۔ ہفنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ فیصلہ بظاہر غیر جانبدار اور مالکوں کی خواہش پر مبنی تھا، لیکن اس سے حجاب فوبیا کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔[9] الجزیرہ نے اس فیصلہ کو حجاب پہننے والی مسلمان خواتین کو کام سے روکنے کا پیش خیمہ اور آغاز قرار دیا تھا۔[10]

عوامی مقامات

ترمیم

بہت سے ممالک میں، عوامی مقامات اور جگہوں پر اسلامی لباس پہننا قانونا ممنوع ہے۔ سنہ 2010ء میں اسپین میں اسلامی برقع پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی، پھر 2013ء میں اسپین کی عدالت عظمی نے اس قانون کو کالعدم اور منسوخ کر دیا۔[11] اسی طرح سنہ 2016 میں فرانس کی عدالت عظمی نے بھی برقعینی پر عائد پابندی کو اسلام مخالف قرار دیکر کالعدم کر دیا۔[12] فیفا نے 2011 سے 2014 تک سر ڈھانکنے کی پابندی لگائی تھی جو حجاب فوبیا کی مثال ہے۔[2] 2018 میں آسٹریا نے چہرہ ڈھانکنے پر پابندی لگائی، اس میں پولیس نے ایک وضاحت کی تھی کہ یہ پابندی ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو تمباکو نوشی یا ماسک کا استعمال کرتے ہیں۔ فرانس اور بلجیم نے سنہ 2011ء سے اس طرح کی پابندی عائد کر چکے ہیں۔ 2015ء میں نیدرلینڈز نے اس طرح کی جزوی پابندی لگائی تھی۔ اسی طرح جرمنی پارلیمنٹ نے بھی 2017ء میں چہرہ ڈھانکنے پر پابندی کا قانون بنایا تھا۔[13]

اسکول اور تعلیم گاہیں

ترمیم

اکتوبر 2018ء میں آسٹریا نے کنڈرگارٹن اور پرائمری کے بچوں پر حجاب کی پابندی عائد کی، تاکہ بچوں کو حجاب پہننے کے خاندانی دباؤ سے بچایا جا سکے۔[14] آسٹریا کے اساتذہ یونین نے اعلان کیا کہ طلبہ پر حجاب کی پابندی رہے گی جب تک وہ 14 سال کی عمر تک نہ پہنچ جائیں، 14 سال کی عمر مذہبی قانونی عمر ہوگی۔[14]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ Manal Hamzeh (2012)۔ Pedagogies of Deveiling: Muslim Girls and the Hijab Discourse (بزبان انگریزی)۔ IAP۔ ISBN 9781617357244۔ 11 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 ستمبر 2018 
  2. ^ ا ب Hamzaeh Manal (1 July 2017)۔ "FIFA's double hijabophobia: A colonialist and Islamist alliance racializing Muslim women soccer players"۔ Women's Studies International Forum (بزبان انگریزی)۔ 63: 11–16۔ ISSN 0277-5395۔ 11 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2018 
  3. Veronica MOHAMED-SALIH۔ "Stereotypes regarding Muslim men and Muslim women on the Romanian Internet: a qualitative comparative analysis for 2004-2009 and 2010-2015" (PDF)۔ Journal of Gender and Feminist Studies (4)۔ 22 اپریل 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 ستمبر 2018 
  4. Proceedings of the Fourth and Fifth Annual Symposia of the Institute of Islamic and Arabic Sciences in America (بزبان انگریزی)۔ IIASA۔ 1999۔ ISBN 9781569230220۔ 11 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2018 
  5. Ayhan Kaya (2012)۔ Islam, Migration and Integration: The Age of Securitization (بزبان انگریزی)۔ Palgrave Macmillan۔ ISBN 9781137030221۔ 15 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2018 
  6. Jocelyne Cesari (2014)۔ The Oxford Handbook of European Islam (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ ISBN 9780199607976۔ 11 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  7. Amanda Keddie (2017)۔ Supporting and Educating Young Muslim Women: Stories from Australia and the UK (بزبان انگریزی)۔ Taylor & Francis۔ ISBN 9781317308539۔ 11 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 ستمبر 2018 
  8. ^ ا ب "Employers allowed to ban the hijab: EU court"۔ www.aljazeera.com۔ 12 ستمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2018۔ Employers are entitled to ban staff from wearing visible religious symbols, the European Union's top law court ruled on Tuesday, a decision Muslims said was a direct attack on women wearing hijabs at work. 
  9. Shelina Janmohamed۔ "Hijab at work: EU court is authorising discrimination"۔ www.aljazeera.com۔ 31 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2018 
  10. Maxim Ferschtman، Cristina de la Serna (22 March 2013)۔ "Case Watch: Spanish Supreme Court Repeals City Burqa Ban"۔ Case Watch۔ Open Society Foundations۔ 1 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2018 
  11. Jim Bittermann، sheena McKenzie، Catherine E. Shoichet (26 August 2016)۔ "French court suspends burkini ban"۔ CNN۔ Turner Broadcasting System, Inc.۔ 12 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2018 
  12. Philip Oltermann (27 March 2018)۔ "Austrian full-face veil ban condemned as a failure by police"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ 17 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2018 
  13. ^ ا ب "Kopftuchverbot für Volksschüler: "Prüfen derzeit""۔ krone.at (بزبان جرمنی)۔ 2 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2018