حجرہ نبوی
اسلامی پیغمبر محمد کی قبر کی جگہ
حجرہ نبوی سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رہنے کے لیے کمرہ، کوٹھڑی، گھر یا خلوت خانہ ہے۔جو تقریبا گیارہ مراحل سے گذر کر موجودہ صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے [1]
حجرہ زمین کا ایسا ٹکڑا جس کو چاروں طرف سے دیوار کھینچ کر بند کر دیا گیا ہو، اس کی جمع حُجُرات ہے۔ جیسے رسول اللہ ﷺ کی ازواج کے حجرات تھے۔ ہر زوجہ محترمہ کے لیے ایک حجرہ تھا۔[2] حضرت محمد کی وفات کے بعد تعلیمات نبوی کے مطابق آپ کو اسی حجرہ نبوی میں دفن کیا گیا جہاں آپ کا انتقال ہوا اور یہ حجرہ ام المومنین عائشہ صدیقہ کا تھا اور اب یہی گنبد خضرا کہلاتا ہے[3] ایک خواب کی تعبیر میں ابوبکر صدیق نے عائشہ صدیقہ کو فرمایا تھاکہ تیرے حجرے میں زمین کے افضل ترین لوگ دفن ہوں گے اس سے مراد رسول للہﷺ ابوبکر صدیق اور عمر فاروق تھے [4]
- ام المومنین عائشہ صدیقہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے حجرے میں تین چاند گرپڑے سو میں نے اس خواب کو ابوبکر صدیق سے بیان کیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ کے حجرہ میں دفن ہو چکے تھے ابوبکر نے کہا کہ ان تین چاندوں میں سے ایک چاند آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اور یہ تینوں چاندوں میں بہتر ہیں۔[5]
- ابن سعد نے بروایت عطاء خراسانی لکھا ہے کہ یہ حجرات کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے اور ان کے دروازوں پر موسیاہ اون کے پردے پڑے ہوئے تھے، امام بخاری نے الادب المفرد میں اور بیہقی نے داؤد بن قیس سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان حجروں کی زیارت کی ہے، میرا گمان یہ ہے کہ حجرے کے دروازے سے مسقف حصہ تک چھ یا سات ہاتھ اور کمرہ دس ہاتھ اور چھت کی اونچائی سات یا آٹھ ہاتھ ہوگی، امہات المومنین کے یہ حجرے ولید بن عبد الملک کے دور میں اسا کے حکم سے مسجد نبوی میں شامل کر دیے گئے، مدینہ منورہ میں اس روز گریہ و بکا کا سماں تھا۔[6]