حدیث چین یا حدیث الصِین مشہور احادیث میں سے ایک ہے جس پر علمائے اسلام اور محدثین کی مختلف آراء ہیں۔ اِس حدیث کے متعلق محدثین کا اختلاف ہے کہ اِس کی سند ضعیف ہے اور چونکہ عہد رسالت میں چین کا سفر اختیار کرنا سخت دشوار تھا تو اِس حدیث میں علم حاصل کرنے سے مراد آیا کونسا علم ہے؟۔ علمائے کرام اور فقہا نے اِس کے متعلق مختلف بیانات پیش کیے ہیں اور بعض علما نے سکوت اختیار کیا ہے۔ یہ حدیث اپنی سند کے ضعیف ہونے کے باوجود مشہور احادیث میں شمار ہوتی ہے۔

عربی متن حدیث:

ترمیم

اخبرنا ابو عبد اللہ الحافظ، اخبرنا ابو الحسن علی بن محمد بن عقبہ الشیبانی، حدثنا محمد بن علی بن عفان، و اخبرنا ابو محمد الاصبھانی، اخبرنا ابو سعید بن زیاد، حدثنا جعفر بن عامر العسکری، قالا:  حدثنا الحسن بن عطیۃ،  عن ابی عاتکۃ،  و فی روایۃ ابی عبد اللہ ۔ حدثنا ابو عاتکہ عن انس بن مالک، قال:  قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:   ’’ اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَو بِالصِّینِ،  فَاِن طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃ ٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمِِ۔‘‘   ھذا حدیث متنہ مشہور،  واسنادہ ضعیف و قد روی من اوجہ،  کلھا ضعیف۔[1][2][3]

ترجمہ:

ترمیم

ابوعاتکہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’علم حاصل کرو اگرچہ تمھیں چین جانا پڑے، بے شک علم حاصل کرنا فرض ہے ہر مسلمان پر۔‘‘ اِس حدیث کا متن مشہور ہے اور اِس کی سند ضعیف ہے، یہ روایت جتنی وجوہ سے بھی روایت کی گئی ہے، سب ضعیف ہیں۔

علمائے دین کی آراء اور اقوال

ترمیم
  • امام مناوی کا قول ہے کہ: حدیث ’’اطلبوا العلم‘‘ میں علم شرعی مراد ہے کیونکہ اُس کو حاصل کرنا مشروع قرار دِیا گیا ہے، اگرچہ وہ چین میں ملے، یہ چین کا لفظ بیان کرنے کا مقصد بعد کے مبالغے کو بیان کرنا ہے کہ (اگرچہ تم کو چین جتنا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے)۔[4]
  • امام شمس الدین سخاوی (متوفی 902ھ) کا قول ہے کہ: ’’علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین جانا پڑے، بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ ابی مطیع معاویہ بن یحییٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اپنے نعلین اور اپنا عصا لوہے کا بنوا لو اور تب تک علم حاصل کرو جب تک کہ نعلین گِھس نہ جائیں اور عصا ٹوٹ نہ جائے۔ فضل بن غانم رضی اللہ عنہ نے بعض احادیث میں کہا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی قسم ! اگر تم کو حصولِ علم کے لیے بحرین کا بھی سفر کرو تو کم ہے۔ اِس حدیث میں بظاہر خطاب حضرت داؤد علیہ السلام کو ہے مگر مراد اُن کی اُمت ہے۔ اب آپ بتائیں کہ اُن کی کہاں علم حاصل کرنے کہاں گئی تھی؟ کیا وہ علم شریعت تھا یا کوئی اور علم تھا؟۔[5][6]

احمد حسن الزیات پاشا کا مفصل قول

ترمیم

احمد حسن الزیات پاشا (متوفی 1388ھ) کا قول ہے کہ:

اِس حدیث کے بعد متقدمین علمائے کرام کی آرا اور اُن کا اختلاف اِن آرا میں نقل کیا جاتا ہے کہ اُس علم سے مراد کونسا علم ہے جس کی تحصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار دِی ہے اور اِس کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اِس مسئلہ میں علمائے کرام کا بڑا مضبوط اختلاف ہے کہ وہ کونسا علم ہے؟

  • قولِ اول: کچھ علمائے کرام کی رائے ہے کہ اِس سے مراد علم الاخلاص ہے اور آفاتِ نفس کی معرفت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’کہ اور انھیں حکم دِیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت مخلص ہوکر کریں‘‘۔
  • دوسرا قول: کچھ علما نے کہا ہے کہ اِس سے مراد دِل میں آنے والے خطرات اور اُن کی تفصیل کا علم ہے اور اِس لیے کہ یہ خطرات ہی فعل کا مبداء اور اصل ہیں۔ جب تک دِل میں خطرات نہ آئیں تب تک کوئی بھی فعل رونما نہیں ہوتا۔
  • تیسرا قول: ایک فریق اِس بات کی طرف مائل ہے کہ اِس سے مراد علم الوقت یعنی زمانے کا علم ہے۔
  • چوتھا قول: سہل بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اِس سے مراد علم الحال ہے یعنی اُس حال کا علم کہ جو بندے اور اُس کے ربِ تعالیٰ کے مابین ہے اور دنیا و آخرت میں۔
  • پانچواں قول: ایک جماعت کی رائے ہے کہ اِس سے مراد حلال و حرام کا علم ہے یا باطن کا علم جو اصحابِ زہد علمائے کرام اور صوفیائے کرام کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔
  • چھٹا قول: ایک جماعت کی رائے ہے کہ اِس سے مراد خرید و فروخت اور نکاح و طلاق کا علم ہے یا اِس سے مراد علم التوحید ہے۔
  • ساتواں قول: شیخ ابو طالب مکی کا قول ہے کہ اِس سے مراد اَرکانِ اسلام کا علم ہے جن پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
  • آٹھواں قول: شیخ ابوحفص شہاب الدین سہروردی کا فرمان ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں جو علم مقصود ہے، وہ ’’اَمر و نَہی‘‘ کا علم ہے۔ مامور وہ علم ہے جس کے کرنے پر ثواب ہو اور اُس کے ترک پر عذاب ہو۔ اور اِس علم میں نہی وہ ہے جس کے کرنے پر عذاب ہو اور اُس کے ترک پر ثواب ہو۔[7]

یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ملتی ہے: "اطلبوا العلم ولو بالصین". یعنی "علم حاصل کرو اگرچہ تمھیں چین جانا پڑے". اور اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے "شعب الایمان" میں اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے "کتاب الرحلۃ" میں اپنی سندوں کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ذکر کیا ہے، لیکن اکابر محدثین نے ان سندوں کو ضعیف قرار دیا ہے، چنانچہ امام ابن حبان نے اس کو باطل قرار دیا اور امام ابن جوزی رحمہما اللہ نے موضوع روایات سے متعلق اپنی کتاب میں اس روایت کو بھی ذکر کیا ہے، اس لیے محدثین کے بیان کردہ قواعد کی روشنی میں اس حدیث کو بیان کرنا درست نہیں. یاد رہے کہ بعض اہلِ علم نے تاریخی واقعات وقرائن سے اس روایت کی تائید پیش کرکے اسے حدیث ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن محدثین کے ہاں جب سندا روایت کا ثبوت نہ ہو تو خارجی قرائن سے وہ ثابت قرار نہیں پاتی. مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: المقاصد الحسنۃ للسخاوی کشف الخفاء للعجلونی الموضوعات لابن الجوزی وغیرہ، واللہ اعلم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. امام بیہقی: شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 193۔
  2. ابوبکر البزار: البحر الزخار، جلد 1، صفحہ 164۔
  3. امام بیہقی: المدخل الی السنن الکبریٰ، جلد 1، صفحہ 124۔
  4. العواصم والقواصم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم:  جلد 1،  صفحہ 61۔
  5. امام المناوی: فیض القدیر،  جلد 1، صفحہ  542۔
  6. العراقی:  فتح المغیث بشرح الفقیہ الحدیث،   جلد 3،  صفحہ  277۔
  7. مجلۃ الرسالۃ لاحمد حسن الزیات پاشا،  جلد 17،  صفحہ 28۔