حرام : وہ کام جس کا ترک کرنا ضروری ہے ہو اور اس کو کرنا لازماً ممنوع ہو اس کا ثبوت بھی قطعی ہو اور اس کی ممانعت کے لزوم پر دلالت بھی قطعی ہو، اس کا انکار کفر ہو اور اس کام کو کرنے والا عذاب کا مستحق ہو خواہ وہ دائما اس کام کو کرے یا احیاناً اس کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے۔

شریعت اسلامی کی اصطلاح

ترمیم

اسلام میں حرام اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جس کی حرمت صاف الفاظ میں قرآنی حکم اور حدیث متواتر سے ثابت ہو، یعنی ایسی دلیل جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ جیسے مردار، خون، خنزیر کا کھانا اور ناحق قتل، بدکاری، سود، شراب نوشی، والدین کی نافرمانی، غیبت اور جھوٹ بولنا وغیرہ سب اسلام میں حرام ہیں اور ان سے بچنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔

اسلامی فقہ میں حرام کی اصطلاح فرض کے مقابل ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کی حرمت کا انکار کرے تو اس پر حکم کفر جاری کیا جاتا ہے۔ جبکہ بلا عذر شرعی اسے اپنانے والا فاسق اور سزا کا مستحق ہوتا ہے۔
اس کی مثال ہے یتیم کا مال ظلماً کھانا، اس کی ممانعت بھی قطعی ہے کیونکہ قرآن کریم میں اس کی ممانعت کا ثبوت ہے اور ممانعت کے لزوم پر دلالت بھی قطعی ہے کیونکہ اس کے مرتکب پر عذاب کی وعید ہے، قرآن مجید میں ہے۔
ان الذین یا کلون اموال لیتمی ظلماً انما یاکلون فی بطونھم ناراً وسیصلون سعیرا۔ (النسا : 10)
بیشک جو لوگ ظلماً یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں دوزخ کی آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب دوزخ میں داخل ہوں گے۔
اس کی دوسری مثال ہے زنا کرنا، اس کی ممانعت کا ثبوت قطعی ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
ولاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ وسآء سبیلاً (بنی اسرائیل/اسراء :32)
اور زنا کے قریب مت جائو کیونکہ یہ بے حیائی کا کام ہے اور برا راستہ ہے۔
اس کی ممانعت کے لزوم پر دلالت بھی قطعی ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مانۃ جدۃ (النور : 2)
زانیہ عورت اور زانی مرد ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور اگر شادی شدہ زنا کریں تو ان کو رجم (سنگسار) کر دیا جائے گا
یہ تواتر معنوی سے ثابت ہے اور تواتر بھی دلیل قطعی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم