جھوٹ
جھوٹ یا کذب (عربی) یا دروغ(فارسی) کسی شخص یا گروہ کا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق قصداً کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا ہے۔[1] جھوٹ مختلف وجوہات کی بنا پرکوئی فائدہ پانے یا نقصان سے بچنے کے بولا جاتا ہے۔ معاشرے میں اس کو عام طور پر ایک برا فعل گردانا جاتا ہے اور بچنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ حکومتیں اس بارے کئی قسم کے قوانین بناتی ہیں اور بعض صورتوں میں اس پر سزا مقرر ہے۔ مذاہب میں بھی اس کی سخت مذمت کی جاتی اور مرنے کے بعد سزا سے خوف دلایا جاتا ہے۔
ویکی اقتباس میں جھوٹ سے متعلق اقتباسات موجود ہیں۔ |
دُنیا میں جھوٹ کا آغاز
ترمیمدُنیا میں جھوٹ کا آغاز کب ہوا اور کون سا پہلا انسان تھا جس نے جھوٹ بولا اِس سلسلے میں تاریخ بالکل خاموش ہے بعض لوگوں کا نکتہ نظر ہے کہ جب شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو اور اماں حوا کو بہکایا کہ تم فلاں درخت کا پھل کھا لو گے تو تمھاری آنکھیں روشن ہو جائیں گی تو اور تم سب چیزوں کو دیکھ سکو گے تو شیطان کا بس حضرت آدم علیہ السلام پر تو نہ چلا لیکن اُس نے اماں حوا کے دِل میں وسوسہ ڈالا کہ اس درخت (جس کے قریب بھی جانے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا) کے پھل کے کھانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ تم دونوں کی آنکھیں کُھل جائیں گئیں اور تم دونوں سب کچھ دیکھ سکو گے۔ شیطان کی اِس بات کو سن کر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ اِس درخت کے پھل کھانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ہماری آنکھیں کُھل جائیں گی اور ہم سب کچھ دیکھ سکیں گے۔ دراصل اماں حوا نے اللہ تعالیٰ کے اِس حکم کو نظر انداز کر دیا کہ درخت کے قریب نہ جانا اور اُس کا پھل نہ کھانا ورنہ گمراہ ہوجائو گے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام سے غلط بیانی سے کام لیا اور ان کے خیال میں یہ بات جھوٹ کے زمرے میں شمار ہوتی ہے لیکن کچھ لوگوں کی رائے مختلف ہے اُن کی رائے کے مطابق اماں حوا اُس وقت اللہ کے حکم کو بھول گئیں اور انھوں نے شیطان کی بات کو سچ سمجھا اوراُس کی بات حضرت آدم علیہ السلام کو بیان کردی اُن افراد کی رائے کے مطابق یہ جھوٹ نہیں تھا یہ ترک اولیٰ تھا یعنی غلطی تھی اور اور یہ ترکِ اولیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے بھی سرزد ہوا جس کی انھوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اللہ نے انھیں معاف فرما دیا۔ اللہ کی آخری کتاب ہدایت قرآن کے مطابق شیطان نے دونوں کو براہ راست بہکایا نہ کہ اماں حوا کو اور انھوں نے آدم علیہ اسلام کو۔
دونوں نکتۂِ نظر قارئین کے سامنے ہیں وہ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سا نکتہ نظر صحیح ہے اور کونسا غلط۔ تاہم پہلا جھوٹ کب بولا گیا تاریخ اِس سلسلے میں بالکل خاموش ہے۔
جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے
ترمیملوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں اس کی کچھ وجوہات ہیں مثلا جھوٹ بعض اوقات لوگ اپنے کسی غلط کام کو چھپانے کے لیے بولتے ہیں کیونکہ اُن کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر اُن کا غلط کام ظاہر ہو گیا اور غلط کام کی سچائی سامنے آگئی تو اِس صورت میں لوگوں میں اُن کی عزت نہیں رہے گی۔ بعض اوقات لوگ اپنی شان و شوکت قائم رکھنے کے لیے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور مثال کے طور پر اُن کے پاس دولت نہیں ہوتی، گاڑی نہیں ہوتی، بنگلہ نہیں ہوتا اور بنک بیلنس نہیں ہوتا لیکن لوگ اپنے دوستوں، یاروں اور اپنی گرل فرینڈ کو متاثر کرنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ اُن کے پاس دولت، گاڑی، بنگلہ اور بنک بیلنس سب کچھ موجود ہے۔ بعض اوقات لوگ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور وہ جھوٹ بولتے ہیں اِس قسم کے جھوٹ کی لوگوں کوعادت پڑ جاتی ہے اور بے اختیار اِس قسم کا جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر جھوٹ بولتے ہیں۔ اس قسم کا جھوٹ اکثر ٹی وی ٹاک شوز میں بولا جاتا ہے جیسا کہ سیاسی جلسوں میں حاضرین کی تعداد کو کم یا زیادہ کرکے بتایا جاتا ہے۔ اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سب سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے لیکن کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ کوئی کپھلے لفظوں میں کہے کہ اللہ کے بندوں جھوٹ نہ بولو۔ جھوٹ کی اور بھی بے شمار قسمیں ہیں جتنا سوچتے جائیں اتنا ہی جھوٹ ملتا جائے گا۔
جھوٹ اور اسلام
ترمیماللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اسلام لانا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بہت سی برائیاں ہیں جنہیں میں چھوڑ نہیں سکتا آپ مجھے فرمائیے کہ میں کوئی ایک برائی چھوڑ دوں تو وہ میں چھوڑ دوں گا آپ نے اُس شخص سے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو اُس شخص نے وعدہ کر لیا اور جھوٹ بولنا چھوڑدیا تو اِس کے جھوٹ بولنے کے چھوڑنے کے سبب اُس کی تمام برائیاں چُھٹ گئیں۔ اِس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جھوٹ بولنا کتنی بڑی برائی ہے۔ اللہ جل وعلا نے
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Freitas-Magalhães, A. (2013). The Face of Lies. Porto: FEELab Science Books. ISBN 978-989-98524-0-2.