حسن منظر

پاکستانی افسانہ و ناول نگار

ڈاکٹرحسن منظر (پیدائش: 4 مارچ، 1934ء) کا شمار پاکستان کے بڑے ماہرین نفسیات اور معروف افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

حسن منظر
پیدائش (1934-03-04) مارچ 4, 1934 (عمر 90 برس)ء
ہاپوڑ،اتر پردیش ، برطانوی ہندوستان
پیشہادب، طب
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمایم بی بی ایس
مادر علمیکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج۔ لاہور
یونیورسٹی اَوف ایڈمبرا
رائل کالج آف فزیشنزاینڈ سرجنز ایڈمبرا گلاسگو
اصنافطب ، افسانہ نگاری
نمایاں کامایک اور آدمی
بیرِ شیبا کی لڑکی
العاصفہ
پریم چند گھر میں۔شورانیدیوی (ہندی سے ترجمہ)
منگل سوتر ۔ پریم چندکا آخری اور ادھورا ناول (ہندی سے ترجمہ)
فائل:Kمhassan mnzr (cropped).jpg
حسن منظر

حالاتِ زندگی

ترمیم

حسن منظر 4 مارچ، 1934ء کو ہاپڑ ، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سیّد مظہر حسن تھا، وہ ریلوے میں ملازم تھے۔ شمالی اترپردیش کے مختلف علاقوں میں بچپن گذرا۔ ابتدائی تعلیم ہیوئٹ مسلم ہائی اسکول، مراد آباد سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں لاہور آئے۔ اور میٹرک اقبال ہائ اسکول، لاہور سے مکمل کیا۔ فارمین کرسچین کالج لاہور سے ایف۔ ایس سی کیا۔ بی ایس سی تھرڈ ائر اسلامیہ کالج، لاہور سے اور ایم بی بی ایس کی ڈگری کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے حاصل کی۔ ادبیات سے بھی گہرا شغف رہا۔ زمانۂ طالب علمی میں نظریاتی جھکاؤ ترقی پسند تحریک کی جانب رہا۔ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے اوریونیورسٹی آف ایڈمبرا سے ڈی پی ایم کی ڈگری پائ۔ رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز ایڈمبرا گلاسگو سے ڈی پی ایم( سائکیٹری) کی اعلیٰ اسناد پائیں۔ وطن واپس آ کر طب کے شعبے سے منسلک ہوئے۔[1] پاکستان آنے کے بعد ملازمت کے سلسلے میں کراچی رہائش اختیار کی۔ بعد ازاں وہ دوسرے ممالک میں بھی رہے۔ ان میں یونیورسٹی آف ملایا، ایڈمبرا، ویسٹ لودین اسکاٹ لینڈ،شمالی نائیجیریا،لیگوس،روئل ڈچ مرچنٹ نیوی اورسعودی عرب شامل ہیں۔ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر حسن منظر نے اپنی معاشی جدوجہد کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

425 روپے ماہ وار پر ماڑی پور کے سینٹرل ایکسائز اینڈ لینڈ کسٹم اسپتال سے منسلک ہوگئے۔ رائل ڈچ مرچنٹ نیوی میں وقت بیتا۔ لالوکھیت میں پریکٹس کی۔ پھر سعودی عرب کا رخ کیا۔ وہاں سے شمالی نائیجیریا کے شہر ’’کدونا‘‘ پہنچے گئے۔ گھنے جنگلات میں رہنے کا موقع ملا۔ وہاں، شہر ایڈہ میں بڑی بیٹی کی پیدایش ہوئی۔ نائیجیریا کے صدر مقام، لیگوسس میں اپنی بیگم ڈاکٹر طاہرہ کے ساتھ پبلک ہیلتھ کے شعبے میں کام کیا۔ طبی نفسیات میں مہارت حاصل کرنے کی خواہش یونیورسٹی آف ایڈنبرا، اسکاٹ لینڈ لے گئی۔ وہاں دیہی ماحول کو قریب سے دیکھا۔ کچھ عرصہ رائل ایڈنبرا اسپتال میں کام کیا۔ یونیورسٹی آف ملایا، کوالالمپور میں تدریسی ذمے داریاں نبھائیں۔ 73ء میں پاکستان لوٹ کر حیدرآباد میں سندھ سائیکاٹرک کلینک شروع کیا۔ 2012ء میں خاندان کراچی منتقل ہو گیا۔اور دو برس بعدکو خیرباد کہہ دیا[2]۔

ادبی زندگی

ترمیم

1981 میں سید حسن منظر کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”رہائی“ کے نام سے شائع ہوا جس میں موجود تمام افسانے نئے تھے۔ اگلے سال 1982ء میں ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ”ندیدی“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ حسن منظر نے لکھنے کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا تھا۔ اس زمانے میں انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں افسانے پیش کیے اور ان کا افسانہ ” لاسہ“ سننے کے بعد سعادت حسن منٹو نے بھی داد دی۔ اس کے بعد وہ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہو گئے اور لکھنے کا یہ سلسلہ رُک گیا۔ ایک لمبے وقفے کے بعد لگ بھگ پچاس سال کی عمر میں ان کا نیا افسانوی مجموعہ شائع ہوا۔ اپنی ابتدائی دونوں کتابیں چونکہ انھوں نے خود شائع کی تھیں اس لیے یہ زیادہ لوگوں تک نہ پہنچ سکیں۔ چونکہ حسن منظر صاحب ملک واپسی کے باوجود ادبی گروہوں اور اسلام آباد، لاہور یا کراچی جیسے ادبی مراکز سے دور رہے اس لیے بھی ان کا چرچہ اس طرح سننے کو نہیں ملا جیسا ہونا چاہیے تھا۔ تاہم انھوں نے اپنے متنوع موضوعات، بدلتے منظر ناموں، دھیمے مزاج اور سادہ اسلوب کی بنا پر اردو افسانے میں اپنا نام پیدا کیا۔ بیسویں صدی میں جہاں افسانہ اپنے عروج پر تھا وہیں اکیسویں صدی میں ناول نے لکھنے والوں کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کیا۔ 2006 میں حسن منظر صاحب کا پہلا ناول ”العاصفہ“ شائع ہواجو تیل کی دریافت سے قبل کے عرب معاشرے، وہاں کے رہن سہن، رسم و رواج، عادات اور غربت کی بہت عمدہ منظر کشی کرتا ہے۔ علامت نگاری، دیہی اور شہری زندگی کے درمیان پایا جانے والا تفاوت اور تیل کی دریافت سے پہلے کے عرب معاشرے کی جھلک نے العاصفہ کو اردو ناول میں ایک اہم اضافہ بنایا۔ العاصفہ کے دو سال بعد 2008ء میں ”دھنی بخش کے بیٹے“ شائع ہوا۔ یہ ناول اپنے وسیع کینوس، موضوعاتی تنوع، جدید وقت کے مسائل سے آگاہی دیتا، پستے طبقوں کی آواز بنتا اور بڑھتی تہذیبی کشمکش کو عیاں کرتا مصنف کا نمائندہ ناول ہے۔

تصانیف

ترمیم

افسانوی مجموعے

ترمیم
  1. رہائی
  2. ندیدی
  3. انسان کا دیش
  4. سوئی بھوک
  5. ایک اور آدمی
  6. خاک کا رتبہ
  7. طویل کہانی
  8. فرفر اور رنگو
  9. منگل سوتر۔ پریم چندکا آخری اور ادھورا ناول (ہندی سے ترجمہ) اورمقدمہ
  10. پریم چند گھر میں۔ شورانیدیوی (ہندی سے ترجمہ) اور مقدمہ
  11. جھجک
  12. اے فلکِ ناانصاف

بچوں کے لیے کتب

ترمیم
  1. سمند ر میں جنگ
  2. جان کے دشمن

ناول

ترمیم
  1. ماں بیٹی
  2. بیرِ شیبا کی لڑکی
  3. العاصفہ
  4. وبا
  5. دھنی بخش کے بیٹے
  6. انسان اے انسان

انگریزی تصانیف

ترمیم


S.No (PHILOSOPHY)/فلسفہ
1 A Requiem For The EARTH: OUP, KARACHI
2 The End of Human History : Katha, Delhi (Translations of Hassan Manzar Stories)
3 ROCKING CHAIR, Royal Book Company , Karachi

تجزیئے

ترمیم
  1. موجودہ معاشرہ اور برہنہ فلمیں (کتابچہ)[3]

حوالہ جات

ترمیم