شہید حسن ناصر، پاکستان کے بائیں بازو کے نامور انقلابی اور کالعدم کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری تھے۔

ابتدائی سیاسی زندگی ترمیم

ان کا تعلق بھارتی ریاست حیدر آباد دکن سے تھا۔ اپنی ابتدائی زندگی میں انھوں نے دکن میں معروف انقلابی رہنما و شاعر مخدوم محی الدین کے ساتھ مل کر تیلانگنا بغاوت میں کسانوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا، جو 1946ء سے 1951ء کے عرصے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے زیر قیادت عمل میں آئی تھی۔

 

قیام پاکستان کے بعد ترمیم

حسن ناصر معروف رئیس، نواب محسن الملک کے نواسے تھے۔قیام پاکستان کے بعد حسن ناصر دکن میں موجود اپنی تمام جائداد بے زمین ہاریوں میں تقسیم کر کے پاکستان آ گئے اور پاکستان میں انقلاب کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ وہ جلد ہی پاکستانی ریاست کے نوزائیدہ حکمران طبقہ کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن گئے، لہٰذا 1960میں ایوب خان کے دور حکومت میں انھیں گرفتار کر کے شاہی قلعہ لاہور کی جیل میں طرح طرح کی اذیتیں دے کر شہید کر دیا گیا۔

شہادت کے بعد ترمیم

قلعہ لاہور کا عقوبت خانہ انگریز راج کے زمانے سے انقلابیوں اور حریت پسندوں کے لیے حکومت کی پسندیدہ ترین جگہ رہا ہے۔ شہید بھگت سنگھ بھی اپنی گرفتاری کے بعد اسی عقوبت خانے میں قید رہا تھا۔ حسن ناصر کی لاش چونکہ دوران قید دی جانے والی اذیتوں کی وجہ سے انتہائی ناقابل دید حالت میں تھی لہذا ایوب پولیس نے جلدی میں اسے دفنانے کا بندوبست کر دیا تاکہ لاش عوام کو واپس کر دینے کی صورت میں پاکستانی محنت کش طبقے کی طرف سے شدید ترین رد عمل کا اندیشہ تھا۔ دوسرے یہ کہ حکومت نے حسن ناصر کی اذیتناک موت کو خودکشی ثابت کرنے کے لیے جو غلط بیانیاں کی تھیں، لاش کے واپس ہونے کی صورت میں ان حکومتی جھوٹوں کا پول کھلتا تھا۔

حسن ناصر کی آخری رسوم کے موقع پر ان کی والدہ جو بھارت سے آئی تھیں، پاکستانی محنت کشوں اور انقلابیوں کے سامنے ولولہ انگیز تقریر کی؛ میں جانتی ہوں کہ میرے ایسے بے شمار بیٹے ہیں جو اس جنگ کو جاری رکھیں گے جس کے لیے حسن ناصر نے اپنی جان دی ہے۔۔

حسن ناصر ایک انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے لیکن ان کے انقلابی کلام کا بیشتر حصہ ملکی خفیہ ایجنسیوں نے تلف کر دیا ہے۔

مطبوعات ترمیم

حسن ناصر کی شھادت کے بعد بہت سے لوگوں نے ان کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں یاد داشتیں اور تذکرے لکھے ہیں ان میں سے معروف تر مطبوعات یہ ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم