مخدوم محی الدین

ساہتیہ اکادمی اعزاز یافتہ مصنف

مخدوم محی الدین اردو زبان کے مشہور شاعر ہونے کے ساتھ‍ ساتھ‍ بائیں بازو کے نامور رہنما بھی تھے۔

زندگی

ترمیم

مخدوم 4 فروری 1908ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک کٹر مذہبی خانوادے سے تھا۔ ان کے دادا حیدرآباد دکن کی تاریخی مکہ مسجد میں قاری تھے۔ والد غوث محی الدین بھی مذہبی ادارے سے وابستہ تھے اور ان کی رہائش بھی مسجد ہی میں تھی۔ پیدائشی طور پر ان کا گھرانہ بے حد غریب تھا، اپنے آس پاس غربت اور استحصال کا دور دورہ دیکھ‍ کر وہ بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہو گئے اور زندگی بھر جدوجہد میں رہے۔ اردو کے انقلابی شاعر مخدوم محی الدین(ابو سعید محمد مخدوم محی الدین قادری ) تلنگانہ کے ضلع میدک میں پیدا ہوئے۔ عمر کی بیسویں بہار میں مخدوم حیدرآباد آئے یہ وہ دور تھا جب فسطائیت کا دور دورہ تھا۔ اٹلی کی فسطائی حکومت کے ابی سینا ( موجودہ ایتھوپیا)پر حملہ سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے ،اور انھوں نے اپنی پہلی مخالف فسطائی نظم لکھی۔ 1930ء میں مخدوم ’کامریڈس ایسوسی ایشن‘ میں شامل ہوئے،جو ان کے مستقبل کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ 22 جون 1941ء کو سویت یونین پر ہٹلر کے حملے کے بعد مخدوم نے سٹی کالج حیدرآباد میں لیکچرر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ انھوں نے روی نارائین ریڈی ( جنہیں1952 کے پارلیمانی انتخابات میں کثیر تعداد میں ووٹ ملے تھے ،جو نہرو سے بھی زیادہ تھے) سی پی آئی کی حیدرآباد شاخ کا قیام عمل میں لایا۔ مخدوم نے ٹریڈ یونین میں بھی شمولیت اختیار کی تھی اور وزیر سلطان تمباکو کمپنی (چار مینار سگریٹ کمپنی) کے 1941ء کے تنازع میں کام گاروں کے نمائندہ منتخب کیے گئے۔ 1946ء میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس (AITUC) کی شاخ آل حیدرآباد ٹریڈ یونین کانگریس کے صدر بنے۔ 17 اکٹوبر 1946ء کو ’ظلم مخالف‘ دن منائے جانے کی وجہ سے سی پی آئی پر پابندی لگائی گئی۔ اور مخدوم کو شولاپور جانے کے لیے کہا گیا جہاں سے وہ ممبئی چلے گئے جہاں انھوں نے اپنی مشہور نظم ’تلنگانہ‘ اور اس کے فوری بعد ’یہ جنگ ہے جنگِ آزادی ‘ لکھی۔ مخدوم نے بمبئی میں منعقدہ (22 تا 25 مئی 1943) پروگریسیو رائٹرس اسوسی ایشن (PWA) کی چوتھی کانفرنس میں شرکت کی۔ؑ کسانوں کی مسلح جدوجہد برائے عظیم تلنگانہ (1946أ1950) کے وہ ایک اہم لیڈر تھے۔ 1951ء میں مخدوم کو گرفتار کیا گیا اس وقت انھوں نے ’قید‘ یہ نظم لکھی۔ 1952ء میں انھیں رہا کیا گیا اور پہلے عام انتخابات میں حیدرآباد سے لڑا جس میں انھیں شکست ہوئی، لیکن ضمنی انتخابات میں حضور نگر سے وہ کامیاب ہوئے۔ 1958ء میں سی پی آئی کی نیشنل کونسل کے لیے وہ منتخب ہوئے۔ آندھرا پردیش کی قانون ساز اسمبلی کے وہ سی پی آئی لیڈر تھے۔ مخدوم ہندوستان کی ادبی، علمی، سماجی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ فلمی دنیا اور تہذیبی میدان کے درمیان وہ ایک مشترک مقام حاصل کر گئے اور ہندوستانی فلمی دنیا میں انھوں نے اپنے اہم نقوش چھوڑے۔ انھوں نے فلموں، اسٹیج اور ڈراما کے لیے بے شمار گیت، نظمیں اور نغمے لکھے۔ ان کی تحریروں میں عوام کی قربانیوں، جانشانی، جدوجہد اور تکالیف کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ [1]

جدوجہد

ترمیم

مخدوم خالصتا مزدور طبقہ کے شاعر اور ہمنوا تھے۔ عملی سیاست میں آنے کے بعد بھی انھوں نے اہل اقتدار سے لے کر رکشہ والے تک، ہر کسی سے تعلق رکھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن میں جاگیرداری نظام کے خلاف لڑتے ہوئے وہاں کے عام کسانوں کی قیادت کی اور باقاعدہ مسلح جدوجہد کی۔

وفات

ترمیم

25 اگست 1969ء کو جب وہ حیدرآباد سے ایک میٹنگ میں شرکت کرنے دہلی آئے ہوئے تھے، ان کا انتقال ہو گیا۔ انھیں حیدرآباد دکن میں قبرستان شاہ خموش میں دفن کیا گیا۔

ان کے لوح مزار پر یہ شعر کندہ ہے؛

بزم سے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا

سو گیا ساز پہ سر رکھ‍ کے سحر سے پہلے

شعری سفر

ترمیم

ان کا شعری سفر 35 سال کے عرصہ پر محیط ہے۔ مخدوم ایک زود گو شاعر نہیں تھے۔ تاہم مختلف وقفوں سے ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے۔ سرخ سویرا، گل تر اور بساط رقص۔ مخدوم نے زیادہ تر نظم کی صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی غزلوں کی کل تعداد محض 21 ہے۔

“آپ کی یاد آتی رہی رات بھر“ اور “عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ‍ رات ڈھلے“ ان کی نمائندہ غزلوں میں سے ہیں۔ نظم میں بلور، ملاقات، عورت، وقت، بے درد مسیحا اور خواہش چند مقبول نام ہیں۔

نمونہ کلام

ترمیم

فردیات

رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے

سانس کی طرح سے آپ آتے رہے، جاتے رہے

____

بربط نواز بزم الوہی! ادھر تو آ

اے داعئ پیام عبودی! ادھر تو آ


موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن

رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن


ان کی ایک نظم چارہ گر

ایک چمبیلی کے منڈ وے تلے

میکدہ سے ذرا دور اس موڑ پر

دو بدن

پیار کی آگ میں جل گئے

پیار حرف وفا

پیار ان کا خدا

پیار ان کی چتا

دو بدن

پیار کی آگ میں جل گئے

مسجدوں کے مناروں نے دیکھا انھیں

مندروں کے کواڑوں نے دیکھا انھیں

میکدوں کی دراڑوں نے دیکھا انھیں

از ازل تا ابد

یہ بتا چارہ گر

تیری زنبیل میں

نسخہ کیمائے محبت بھی ہے

کچھ علاج مدواے الفت بھی ہے

1948ء میں جب سی پی آئی پر پابندی لگی تو مخدوم جیل میں تھے۔ کسی لڑکی سے محبت کی پاداش میں جیل میں اسی وقت ان کے ساتھ جیل میں ایک نوجوان بھی تھا۔ لڑکی کی خاندان والوں نے اس کے خلاف سنگین الزامات لگائے تھے۔ مخدوم نے کچھ وقت اس نوجوان کے ساتھ بِتایا اور شاعری و سیاسیات پر اپنی نظموں سے روشناس کرایا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. www.insafbulletin.net/archives/