شاہ میاں غلام محمد المعروف حضرت جی پشاوری نقشبندی سرہندیجو حضرت جی کلاں سے مشہور ہیں۔

شاہ غلام محمد
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1690ء (عمر 333–334 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت ترمیم

ان کی پیدائش 1101ھ 1690ء پشاور میں ہوئی۔

نام و نسب ترمیم

آپ کا نام غلام محمد، لقب قدوۃ الاولیاء اور مشہور ہیں حضرت جی کلاں آپ نسباً فاروقی ہیں اور پانچویں پشت میں محبوب سبحانی قطب ربانی، امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی سے جا ملتے ہیں۔ آپ غلام محمد معصوم کے صاحبزادے خلیفہ اور جانشین ہیں۔

علوم ظاہر و باطن ترمیم

سر ہند شریف علم و فضل، سلو ک و معرفت کا مرجع تھا۔ اور آپ کے والد گرامی مرتبت غلام محمد معصوم المعروف معصوم ثانی، صاحب علم و زہد و تقویٰ سے آراستہ و پیراستہ تھے، لہٰذا آپ کی تربیت بھی علما و فضلا کی گود میں ہوئی۔ علم حدیث میں خصوصاً اپنے وقت کے علما میں سب کے قافلہ سالار تھے۔ ہر ایک بات پر جو عادات سے ہوتی یا عبادات سے متعلق ہوتی حدیث بیان کرتے۔ علوم درسی سے فراغت حاصل کر کے اپنے والد محترم سے بیعت ہو کر کمالات باطنی کو درجہ کمال تک پہنچایا۔ علوم ظاہری اور کمال باطنی اپنے والد بزرگوار سے حاصل کیے اور ان کی خاص نسبتوں سے درجہ کمال تک پہنچے۔ اپنے والد کی حیات میں ہی مسند شیخیت پر متمکن ہوئے۔ والد محترم نے اپنے زندگی میں ہی خلافت عطا فرما کر مسند ارشاد پر جلوہ افروز کیا۔ اور اپنی تمام اولاد مریدین و مخلصین کو آپ کے سپرد کر دیا۔

سلسلہ نقشبندیہ کو فروغ ترمیم

آپ کے وجود مبارک سے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کو کمال عروج حاصل ہوا اور عالمگیر شہرت نصیب ہوئی۔ ہر چہار طرف سے علما، امرا، مشائخ اور فقراء آ آ کر مریدین کے حلقہ میں شامل ہونے لگے۔ آپ کے نواسہ عبد اللہ ایک دو ورقی پمفلٹ موسوم بہ ’’ حالات حضرت جی صاحب پشاور والا‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔

’’ آوردہ اند کہ درحلقہ صبحگاہی ایشاں زیادہ از دوازدہ ہزار مردم جمع می شدند‘‘ یعنی آپ کے صبح کے حلقہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے۔ مجدد الف ثانی کی اولاد بھی سرہند شریف چھوڑ کر دورو دراز شہروں میں چلی گئی۔ چنانچہ آپ نے ان درندہ صفت سکھوں کے ہاتھوں سے تنگ آکر پشاور میں قیام فرمایا۔ مجدد الف ثانی کی دیگر اولاد کچھ تو رامپور اور کچھ خراسان کی طرف ہجرت کر گئی۔

مریدین کی تربیت ترمیم

تمام مریدین کی تربیت فرمانے لگے۔ ان کی رشد و ہدایت کا شہرہ اطراف عالم میں پھیل گیا۔ دور دراز سے لوگ ان کی خدمت میں پہنچ کرطریقہ مجددیہ نقشبندیہ میں داخل ہونے لگے اور فیوض و برکات سمیٹنے لگے۔ اور بلا تفریق امیر و غریب دنیا کے گوشے گوشے میں خدمت دین میں مصروف ہو گئے۔ صبح شام مراقبہ میں شریک لوگوں کی تعداد 12 ہزار سے متجاوز ہوتی جبکہ جمعۃ المبارک میں یہ تعداد شمار سے باہر ہوتی۔[1]

معمولات رہائش ترمیم

ان کے معمولات میں یہ بات تھی کہ چھ مہینہ لاہور اور چھ مہینہ پشاور قیام کرتے۔ جس طرح بادشاہوں کے قافلہ ہوتا اسی طرح سفر کرتے۔ یعنی اولاد، بھائی، متعلقین اور تمام ساز و سامان کے ساتھ آمد و رفت کرتے۔ نیز موسم گرما اور موسم سرما میں ایک سو کے قریب اونٹ، گھوڑے، کجاوے، پالکیاں آپ کے ہمراہ ہوتیں۔ راستے میں لوگ سراپا انتظار ہوتے ۔

پشاور میں قیام ترمیم

پشاور شہر میں آپ نے باقاعدہ باغ اسد اللہ خان میں خانقاہ قائم کی۔ یہ باغ بہت بڑا تھا۔ اس کی تمام آمدن خانقاہ کے اخراجات پر صرف ہوتی۔ اسد اللہ خان درانیوں سے تھا اور آپ کا انتہائی مخلص معتقد تھا۔ اس باغ کے ساتھ زرعی زمین بھی تھی اور سب آپ کی وفات کے بعد سکھوں کے دور تک اس باغ اور زمین کی آمدن آپ کی درگاہ پر خرچ ہوتی۔ آپ کی وفات کے بعد ایک بہت بڑی مسجد، مسافروں کے لیے حجرے تعمیر کیے گئے۔ یہ تمام عمارتیں سکھوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگئیں۔ اب صرف تقریباً ایک جریب زمین ہے، جس پر ایک خستہ سی مسجد اور آپ کا مزار ہے۔ آپ کی اولاد کابل، قندھار اور سندھ میں آباد ہے۔ آپ کی اولاد میں سب کے سب عالم وفاضل اور اولیاء کاملین تھے۔ اس وقت بھی صاحبان علم اور فضل و مجاہدہ ہیں۔ نقشبندی حضرات اب بھی آپ کے مزار پر انوار پر مراقبات و ختم شریف کرتے ہیں۔ زائرین برائے ایصال و فاتحہ حاضر ہوتے ہیں۔

خدمت حدیث ترمیم

پوری عمر خدمت دین میں گذری ہر عمل میں حدیث سے دلیل سے سند لیتے ۔

مزار اقدس ترمیم

عید الفطر کے دن اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ شہر سے باہر اسد خان کے باغ میں مدفون ہوئے جو آپ کے مریدین میں سے تھا۔ آپ کا مزار بڑا خوبصورت بنایا گیا لیکن سکھوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا ایک مسجد حضرت بابا جی کے نام سے موضع شحبہ پشاور کے احاطہ میں مشہور ہے۔ اسی احاطہ میں آپ کے خلیفہ شاہ غلام حسن کا مزار بھی ہے۔[2]

وفات ترمیم

آپ کا وصال یکم شوال 1178ھ یا 1175ھ 1761ء کو ہو ا ان کا مزار باغ اسدُاللہ خان ریلوے روڈ پشاور، پاکستان میں ہے۔[3][4] پشاور کے اسی باغ اسد اللہ خان میں بجوڑی دروازے کے باہر شعبہ میں دفن کیے گئے۔ آپ کی قبر کے ساتھ آپ کے فرزند شاہ غلام حسن المتوفی 1204ھ کی قبر ہے۔ آپ بھی عالم وفاضل اور اپنے والد محترم کے خلیفہ تھے۔ والد گرامی کی زندگی میں ہی ارشاد و ہدایت میں مشغول ہوئے۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں کمالات کو پہنچے اور ہزارہا مخلوق خدا کو ہدایت نصیب فرمائی۔ آپ کے خلیفہ جناب محمد صدیق کی قبر بھی اسی قبرستان میں واقع ہے۔[5]

حوالہ جات ترمیم

  1. عمد ۃ المقامات ،صفحہ 423
  2. حافظ محمد عرفان قادری (1413ھ). تذکرہ مشائخ سیفیہ۔ لاہور: بہار اسلام پبلیکیشنز لاہور۔ pp. 155.
  3. http://sirhindi.com/udescendants.html
  4. تاریخ اولیاء المعروف بالہامات غیبیہ فی سلاسل سیفیہ،صفحہ 121،علی محمد بلخی نورانی کتب خانہ قصہ خوانی بازار پشاور پاکستان۔
  5. تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 101 تا 103،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور