خواجہ محبوب عالم

ولادت

ترمیم

خواجہ محبوب عالم کی ولادت 1266ھ / 1850ء میں پاکستانی پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے گاؤں ’’سیدا‘‘ کے ایک اہلِ طریقت علمی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کا نسب عون محمد عرف قطب شاہ بغدادی کے واسطہ سے عباس علمدار بن حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ سے ملتا ہے۔[1] آپؒ کا خاندان 656ھ 1258/ء میں ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوطِ بغداد کے نتیجہ میں ہجرت کر کے دہلی میں آباد ہوا۔ آپؒ کے جد امجد فیض عالم نقشبندی (متوفی 1277ھ 1860/ء) اس خاندان کے پہلے فرد ہیں جو سیدا شریف میں آباد ہوئے۔

تعلیم

ترمیم

آپؒ نے ابتدائییی تعلیم اپنے جد امجد سے حاصل کی۔ دس برس کے ہوئے تو فیض عالم خالقِ حقیقی سے جا واصل ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد مختلف اساتذہ سے صرف و نحو، شرح جامی اور موقوف علیہ کی اکثر کتب پڑھ لیں۔محرم الحرام 1283ھ/ مئی 1866ء میں دار العلوم دیوبند کا آغاز ہوا تو آپؒ نے اس میں داخلہ لے لیا اور تقریبًا آٹھ سال تک یہاں تعلیم حاصل کی جہاں آپ شیخ محمد یعقوب چشتی نانوتوی (متوفی 1302ھ / 1884ء) کے شاگردِ خاص تھے۔ قیامِ دار العلوم دیوبند کے عرصہ میں (شیخ الہند) مولانا محمود حسن (متوفی 19 ربیع الاول 1339ھ / 30 نومبر 1920ء)، خواجہ محبوب عالم ؒ کے ہم استاد اور ہمدرس (کلاس فیلو) تھے۔

1289ھ/ 1872ء میں بائیس سال کی عمر میں دار العلوم دیوبند سے امتیاز کے ساتھ فارغ التحصیل ہونے کے بعد شیخ رشید احمد گنگوہی (متوفی 9 جمادی الثانی 1323ھ / 11 اگست 1905ء) سے ایک سال میں حدیث نبویؐ کی دوسری سند اور اسماء الرجال میں خصوصی دسترس حاصل کی۔ 1290ھ / 1873ء میں رامپور کے مشہورِ زمانہ مدرسہ عالیہ نواب فیض اللہ خان میں ایک سال تک علوم عقلیہ، منطق، فلسفہ، ریاضی، ہیئت، نجوم اور خصوصًا فقہ حنفی کی بڑی کتب پڑھیں اور فتویٰ نویسی میں تخصص (specialization) حاصل کیا۔ ان علوم کے حصول کے بعد ریاست رامپور میں ہی ڈپٹی چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف رامپور سٹیٹ تعینات ہو گئے۔ اس وقت آپ کی عمر چوبیس یا پچیس برس تھی۔ آپ تقریبًا دس برس اس منصب پر متمکن رہے۔ حضرت خواجہ محبوب عالم نقشبندیؒ نے جو اسنادِ حدیث حاصل کیں ان میں سے دو دار العلوم دیوبند سے، ایک بطریق شیخ طاہر کُردی اور دوسری بطریق الشیخ محمد افضلؒ سیالکوٹی بواسطہ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمدؒ سرہندی جبکہ تیسری شیخ عبد الرشید گنگوہی سے اور چند ایک علمائِ بغداد سے بھی عطا ہوئیں۔ [اسنادِ حدیث کی تفصیل ’’پروارِ محبوب‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔]

دس برس کی عمر میں گھر سے رخصت ہو کر حصولِ علم کا مقصد پانے میں متواتر پندرہ سال گزارنے کے بعد صفر 1292ھ / مارچ 1875ء میں سیدا شریف آئے۔ 1302ھ/ 1884ء میں طلبِ حق کی آگ بھڑکی تو ڈپٹی چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف رامپور سٹیٹ کے عہدہ سے مستعفی ہو کر شیخ کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے۔ انبالہ شریف کے ایک بزرگ حضرت خواجہ توکل شاہؒ کی ولایت کا شہرہ سنا تو ربیع الثانی 1305ھ/ دسمبر 1887ء میں ان سے بیعت ہو گئے اور باطنی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ جب طریقت و حقیقت میں اپنے شیخِ طریقت حضرت خواجہ توکل شاہ کی توقع کے موافق مرتبہ پا چکے تو شیخ نے 1313ھ / 1895ء میں اپنی زندگی میں ہی مسندِ ارشاد پر فائز فرما دیا۔ علمِ شریعت کے متوازی معرفتِ الٰہی کا جو مقام آپ کو نصیب ہوا وہ صدیوں میں کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ اپنے شیخِ طریقت کے وصال 4 ربیع الاول1315ھ / 4 اگست 1897ء تک تقریباً گیارہ برس اپنے مرشد کی خدمت میں بسر کیے۔ اس دوران توکلی خانقاہ پر مدرسہ علومِ عالیہ اسلامیہ توکلیہ جاری کیا۔ اپنے گیارہ سالہ قیامِ انبالہ شریف کے دوران سرکاری طور پر شہر انبالہ کے مفتی اعظم اور وہاں کی مرکزی جامع مسجد ’’مسلم مسجد‘‘ کے خطیب بھی رہے۔ اپنے پیر کی رہنمائی میں وہ سنتِ خیر الانام ﷺ کا کامل نمونہ بن گئے۔

پیشوائے گرامی کے وصال کے بعد آپؒ نے بلادِ اسلامیہ کی سیاحت کی۔ آپؒ بغداد شریف حاضر ہوئے اور سید عبد القادر جیلانی المعروف غوث اعظم کے ہاں دو سال قیام کیا جہاں سید عبد القادر جیلانی (متوفی 11 ربیع الثانی 561ھ / 14 فروری 1166ء) کی درگاہ کے سجادہ نشین سید عبد الرحمن الجیلانیؒ (ولادت: 1841ء / 1257ھ؛ وصال: 1927ء / 1346ھ) کے دور میں بغداد شریف حاضر ہوئے۔ سید عبد الرحمن الجیلانی نے سید عبد القادر جیلانی کے ارشاد پر سلسلۂ قادریہ کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ (سیّد عبد الرحمن الجیلانیؒ 11 نومبر 1920ء سے 20 نومبر 1922ء تک عراق کے پہلے وزیرِ اعظم رہے۔) علاوہ ازیں بغداد کے مشائخ سے وہاں کے سلاسلِ طریقت قادریہ اور شاذلیہ وغیرہ کی اجازتیں لیں اور بغداد کے ممتاز علما سے اسنادِ حدیث بھی حاصل کیں۔ قیامِ بغداد کے دوران وہاں کے علما سے محی الدین ابن عربی کی کتب کا مطالعہ کر کے مشاہدہ کے متوازی علمی طور پر بھی نظریات وجود و شہود کی تحقیق فرمائی۔ بغداد سے واپس آ کر سیدا شریف میں مدرسہ علوم عالیہ اسلامیہ اور دارالافتاء قائم کیا۔ [راقم الحروف کے پاس حضرت خواجہ محبوب عالم کا ایک فتویٰ موجود ہے جو ’’پروارِ محبوب‘‘ میں شائع کیا جا چکا ہے۔] متوسلینِ سلسلہ عالیہ کی تربیت کے لیے خانقاہ بھی قائم کی۔

سلوکِ مجددیؒ پرآپؒ کو اس قدر دسترس حاصل تھی کہ ہر کس و ناکس کو مجددی سلوک کے انوار وارد کر کے مقامات طے کرا دیتے۔ حلقہ میں دورانِ مراقبہ لطائف و حقائق اور ماوریٰ مقامات کی سیر اس سرعت سے کراتے کہ مبتدی تو مبتدی، منتہی بھی ساتھ نہ دے پاتے۔ طریقت میں آپ بہ یک وقت صاحبِ مجاہدہ اور صاحبِ مشاہدہ تھے۔ حضرت کے سلسلہ میں میاں عبد الرشید عرف ’’نوٹاں والی سرکار‘‘ جیسے باکرامت مجذوب، سید حبیب اﷲ شاہ جیسے سیف زبان، سید رحمت علی شاہ جیسے کامل سالک، سید اصغر علی خان جیسے معرفت و حقیقت کے جرنیل، صوفی اﷲ رکھا جیسے درویش، حافظ عبداﷲ جیسے گمنام شاہباز، خواجہ عین الدین جیسے مجذوب سالک، حضرت امین الدین مہمی جیسے باہوش مردِ قلندر اور میاں جمال جیسے راسخ نومسلم بکثرت ملتے ہیں۔ (اﷲ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمت کا نزول فرمائے۔) آپ نے انسانوں میں تقریبًا اسی (80) خلفاء یادگار چھوڑے۔ غالب گمان ہے کہ جنات میں بھی آپ کے خلفاء موجود ہوں گے۔ میرے اس گمان کی پہلی بنیاد ’’ذکرِ محبوب‘‘ میںاس بات کا مفصل تذکرہ ہے کہ جنات نے آپ سے بکثرت کسبِ فیض کیا۔ دوسری اساس میرے ایف۔ ایس۔ سی۔ (1975ء تا 1976ء) کے دور میں حضرت کے مرید چار جنات کی زیارت ہے جو سیدا شریف کی مسجد کے سامنے باباصلابت مرحوم کے کمرے میں رہائش پزیر تھے۔ یہ جنات خانقاہ اور یہاں کے مہمانوں کی بہت خدمت کیا کرتے تھے۔

معرفت و حقیقت میں آپؒ کا ایک عجیب قول بیان ہوا ہے کہ ’’درویش کو سات بادشاہوں کی عقل درکار ہوتی ہے۔‘‘ آپ نے اس اہلیت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں درخواست پیش کی کہ مجذوبوں کے دورِ حکومت میں دین پریشانی سے دوچار ہو گیا ہے۔ (یاد رہے کہ اس وقت ہندوستان کی تکوینی خدمات مجذوبوں کے سپرد تھیں۔) نبیٔ مختار ﷺ کی عدالت سے آپ اس مقدمہ کا فیصلہ سالکوں کے حق میں کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فیصلے کی روشنی میں آپ نے مندرجہ ذیل پیشین گوئیاں فرمائیں:

(1)برصغیر میں مسلمان، پاکستان کے نام سے ایک الگ وطن حاصل کر لیں گے۔

(2)کشمیر متنازع علاقہ ہو جائے گا۔

(3)پاکستان بننے کے ساتھ ہی دیگر اسلامی ممالک بھی آزاد ہونا شروع ہو جائیں گے۔

(4)پاکستان اور بھارت میں وسیع پیمانے پر جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کو فتح ہو گی اور بھارت اس کا ایک حصہ بن جائے گا۔

پہلی اور چوتھی پیشین گوئیوںکے راوی آپ کے خلفاء سید حبیب اﷲ شاہ (متوفی 24ربیع الثانی 1381ھ / 5 اکتوبر1961ء) اور سید رحمت علی شاہ (متوفی 21 شعبان المعظم 1374ھ / 5 اپریل 1956ء بروز جمعرات) ہیں جبکہ دوسری اور تیسری کے راوی اول الذکر ہیں۔ یاد رہے کہ حضرت خواجہ محبوب عالمؒ کا وصال جولائی 1917ء میں ہوا یوں آپ کی رحلت کے تیس برس بعد قیامِ پاکستان کی پیشین گوئی پوری ہوئی۔ ابھی تک تین پیشین گوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور آخری کی تکمیل کا انتظار ہے۔

آپ علمِ ظاہری اور سنتِ مطہرہ پر عمل کو طریقت کی بنیاد سمجھتے تھے جس کا اندازہ آپ کے ان اقوال سے ہوتا ہے:

(1) غوثِ اعظم ہمیشہ قطبِ مدار ہوتا ہے۔ قطبِ مدار کے ظاہر علامات یہ ہیں کہ وہ شریعتِ رسول اﷲ ﷺ کا حامل یعنی علمِ ظاہری میں کامل بلکہ اکمل ہو گا۔

(2) سالک کو چاہیے کہ دل میں عشق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آگ روشن کرے اور اتباعِ سنت پر ہر دم ہر لحظہ نظر رکھے۔ ایک زرّہ برابر سنت کے خلاف نہ ہونے پائے۔ اگر کوئییی خفیف حرکت بھی خلافِ سنت ہو جائے تو فورًا استغفار پڑھے۔

(3) تمام امور میں خواہ تمھارے ذاتی ہوں یا خانگی، بیاہ شادی ہو یا غمی، ہر وقت و ہر معاملہ میں پابندیٔ شریعت اور اتباعِ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مد نظر رکھو، اس کے خلاف زرّہ برابر نہ کرو۔ اگر تمھارے کنبہ یا برادری والے خلافِ سنت عمل پر اڑے رہیں تو تم اس معاملہ میں ان سے الگ ہو جائو تا کہ تم بھی اس وبال میں نہ آجائو کیونکہ خلافِ سنت عمل میں شریک ہونے سے تمھاری ترقی رک جائے گی بلکہ تنزلی ہو جائے گی۔

آپؒ حصول بالمجاہدہ کو بے محنت حصول پر، فکر (یعنی مراقبہ) کو ذکر پر، صحو کو سکر پر، عالمِ دین درویش کو بے علم صوفی پر اور بتدریج نعمتِ باطنی ملنے کو یک لخت حصول پر ترجیح دیتے تھے۔ آپ نے سیدا شریف میں 1321ھ 1903/ء سے اپنے وصال تک چودہ سال تدریس، تبلیغ، تربیت اور تصنیف کے میدان میں ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ کثیر خلقت نے آپؒ کے توسل سے طریقت کی دولت حاصل کی۔ آپ نے 21 رمضان المبارک 1335ھ/ 12 جولائی 1917ء بروز جمعرات بوقتِ سحری وصال فرمایا۔

1962ء میں مشہور شاعر حفیظ جالندھری مرحوم (متوفی 5 ربیع الاول 1403ھ / 21 دسمبر 1982ء) کے مشورہ پر مزار کو اونچا کرنے کی غرض سے صاحبِ سجادہ حضرت صاحبزادہ صدیق احمدؒ کو آپؒ کی قبر شریف کی ڈاٹ کھولنا پڑی جس دوران قبر شریف کا قدمین والا حصہ کھل گیا جہاں سے تیز خوشبو آنے لگی۔ راقم کی والدہ نے اور لوگوں کے بعد دیکھا کہ کفن مکمل طور پر بے داغ تھا۔ انھوں نے  ایک عصا آپؒ کے جسم مبارک پر لگایا جس کی کیفیت میں نے بارہا آپ کی زبان سے سنی۔ فرماتی تھیں کہ جسم نرم تھا۔

عقائد: آپ ایک عظیم محقق تھے لہٰذا انھوں نے اپنے اساتذہ کی تعلیمات اور ان کے عقائد کو مقلدانہ طور پر اپنانے کی بجائے خود تحقیق فرمائی اور آپؒ کی تحقیق ماتریدی عقائد(1) کے درست ہونے پر پہنچی۔ لہٰذا آپؒ برصغیر کے جمہور اہلِ سنت کے مطابق ماتریدی عقائد رکھتے تھے۔ (حضرت مجدد الف ثانیؒ بھی اپنے آپ کو عقائد میں ماتریدی ہی کہتے ہیں۔) آپؒ کے عقائد برصغیر پاک و ہند کے جمہور اہل سنت و الجماعت کے مطابق تھے لہٰذا آپؒ فاتحہ، چالیسواں، عرس، میلاد النبیﷺ اور قیام فی المیلاد وغیرہ کے قائل تھے اور ان پر عمل کرتے تھے۔ بعد از وفات، حیاتِ انبیا علیہم السلام اور حیاتِ اولیاء اللہ اور ان کے توسل کے قائل تھے۔ آپؒ نے اپنے ان عقائد کا تذکرہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ذکر خیر‘‘ کے چوتھے اورپانچویں باب میں تفصیل سے کیا ہے۔ علاوہ ازیں صلوٰۃ و سلام (الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عِلَیْکَ یَارِسُوْلَ اللّٰہ) بھی پڑھا کرتے اور گیارہویں شریف کا ختم باقاعدگی سے دلاتے۔ ختمِ خواجگان قادریہ ہر روز کا معمول تھا جس میں شَیْأً لِلّٰہِ یَا شَیْخٌ عَبْدُ الْقَادِرْ جِیْلَانِیْ کے الفاظ پڑھے جاتے۔ صلوٰۃ و سلام اور  ختمِ خواجگان قادریہ کے یہ الفاظ آپ کی کتاب ’’ذکرِ کثیر‘‘ میں درج ہیں۔

تصانیف:

(1)ذکر خیر: حضرت کے شیخ توکل شاہ انبالوی کی سوانح عمری ہونے کے علاوہ تصوف کی مستقل کتاب ہے۔ یہ کتاب بغیر کسی پبلسٹی کے ابھی تک بیس ہزار کی تعداد میں شائع ہو چکی ہے۔

(2)خیر الخیر: نقشبندی اور مجددی سلوک پر اس سے بہتر کتاب ابھی تک میری نظر سے نہیں گذری۔

(3)ذکر کثیر: سالک کے لیے مختلف مقامات پر ضروری معمولات مندرج ہیں۔

(4)تنویر الابصار: فضائل و آدابِ ذکر پر خوبصورت اور نادر کتاب ہے۔

(5)شب حسین بر عرش بریں: واقعہ معراج پر مستند، سیر حاصل اور مکمل کتاب ہے۔

(6)حیٰوۃ الروح: یہ رسالہ صوفی محمد صادق الاسلام مرحوم نے ترتیب دیا جو حضرت کے اقوال پر مشتمل ہے۔ صاحبزادہ صدیق احمد نے طبع کرایا مگر بعد میں ’’ذکر ِمحبوب‘‘ میں ہی شامل کر دیا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. پروارِ محبوب

(1)ذکرِ محبوب از ابوالوفا حضرت صدیق احمد

(2)خواجہ محبوب عالم، احوال و آثار از پروفیسر سید محمد کبیر احمد مظہر (متوفی 29 ذیقعدہ 1430ھ / 17 نومبر2009ء)

(3)ذکرِ سعید از محمد افتخار حسین حبیبی (متوفی 7 ربیع الثانی 1431ھ / 24 مارچ 2010ء)

(4)حضرت خواجہ محبوب عالم کا سفرِ بغداد از پروفیسر سید محمد کبیر احمد مظہر

(5)وسیلہ نجات از میر سید یوسف علی

(6)مفصل وسیلہ نجات از پروفیسر سید محمد کبیر احمد مظہر

(7)حضرت خواجہ محبوب عالم، افکار و خدمات (تحقیقی مقالہ برائے ایم۔ اے۔ اسلامیات، پنجاب یونیورسٹی) از محترمہ نکہت نذیر شیخ

(8)تذکرہ مشائخِ نقشبندیہ از خواجہ نور بخش توکلی

(9)ذکرِ خیر از حضرت خواجہ محبوب عالم

(10)ذکرِ کثیر از حضرت خواجہ محبوب عالم

(11)تلخ یادیں (غیر مطبوع) از ابوالوفا حضرت صدیق احمد

(12)بنام الطاف و بلال (غیر مطبوع) از لیفٹینینٹ کرنل الطاف محمود ہاشمی(ر)

(13) تنویرالابصار از خواجہ محبوب عام تجدید الطاف الاذکار از لیفٹینینٹ کرنل الطاف محمود ہاشمی(ر)

  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔