حضرت سخی شاہ موسیٰ رنیال

آپ ؒ  دربار عالیہ زیارت سخی موسیٰ رنیال (مزار) موضع ناڑہ (نڑاں والا)، تحصیل جنڈ، ضلع اٹک(کیمبل پور)  کے، قادریہ سہروردیہ سلسلہ کے  سب سے پہلے بزرگ و کامل ولی اللہ گذرے ہیں۔ آپ ؒ کا زمانہ  دسویں صدی ہجری کی  آخری دہائیوں یا پھرگیارہویں صدی ہجری کے شروع  کا ہے، آپ ؒ کھٹر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، سجرہ نسب حضرت عباس علمبردار کی اولاد میں مشہور بزرگ سید قطب شاہ سے ملتا ہے جبکہ سجرہ طریقت بلوٹ شریف کے جلالی سادات میں سے شاہ عیسیٰ قتال بن نوری شاہ عبد الرحمٰن بن شاہ عبد الوہاب المعروف عیسیٰ بابن پیر سے جڑا ہے جو جلال الدین سرخ پوش اوچی کی اولاد سے ہیں، سلسلہ قادریہ سہروردیہ  کی بیعت و خلافت عطا ہوئی اور آپ ؒ نے عرصہ بیس سال اپنے پیر کی خدمت میں اچ بلوٹ گزارا۔آپ ؒ کا قد مبارک قدرے چھوٹا اور چہرہ مبارک نورانی تھا  اور آپ ؒ رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔[1]

آپ ؒ کے والد کا نام سید احمد خان ہے جو دسویں صدی میں گذرے ہیں،سید احمد خان حضرت علی المرتضیٰؓ  کی غیر فاطمی اولاد سے ہیں ۔ آپ ؒ کا سجرہ مبارک یوں ہے: موسی رنیالؒ بن سید احمد خانؒ بن محمد ناجو خان بن محمد فرمان خان بن بہورامان خان بن اخلاص خان بن مٹھا خان بن حیات خان بن راجا خان بن جنگی خان بن محمد دین خان بن بلاول خان بن عبد الرحمن المعروف رانا خان بن عبد اللہ خان المعروف کھٹڑ خان بن کیری خان بن بویق خان بن حتسان خان بن امیر حتف خان بن جہان شاہ عرف در یتیمؒ بن حضرت قطب شاہ ؒ بن قاسم علی ؒبن حمزہ ثانیؒ بن طیارؒ بن قاسم ؒبن علیؒ بن جعفرؒ بن حمزہ اولؒ بن حسنؒ بن عبد اللہ مدنی ؒبن حضرت عباس علمبردارؒ بن حضرت علی المرتضیٰؓ۔سید احمد خان کے دو بیٹوں کا ذکر سندا ملتا ہے، ایک سخی شاہ موسیٰ رنیال ؒ  (جنھوں نے بامر الہی شادی نہ فرمائی تھی)سکھوں اور مڑہٹوں کے خلاف جنگ کے دوران شہید ہوئے جبکہ دوسرے ملک بوڑھا خان کے نام سے مشہور ہیں جن کے مزار کے متعلق مشہور روایات میں یہ ملتا ہے کہ آپ ناڑہ سے موضع پڑی جانے والے رستے میں مدفون ہیں اور اس قبر پر آپ کے نام کا قتبہ بھی ہے۔فقیر فضل داد بہرام رنیالؒ انھی کی اولاد سے ہیں اور سجرہ نسب یوں ہے: فقیر فضل داد عرف بہرام خان  بن فتح خان بن مصری خان بن اللہ یار خان بن شیخ محمد خان بن خلاص خان بن عالم خان بن مصری خان بن لنگر خان بن ملک اسماعیل خان بن  ملک بوڑھا خان۔[2]

بچپن

ترمیم

شاہ موسیٰ رنیال ؒ کے بچپن کے متعلق کوئی مستند واقعہ نہیں ملتا، آپ ؒ کی زندگی کے روحانی سفر کے واقعات ہی ہم تک پہنچے ہیں۔ آپ ؒ کا تعلق بلوٹ شریف سے کیسے بنا اس کی کوئی روایت تو راقم تک نہیں پہنچی البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب نوری شاہ عبد الرحمٰن( المتوفیٰ 980 ھ) جو موسیٰ رنیال ؒ کے دادا پیر بنتے ہیں باغ نیلاب آئے تو انھوں نے کھٹڑ خاندانوں کو بیعت فرمایا، تو آپ کے خاندان کے اسی روحانی تعلق کی وجہ سے آپ ؒ بلوٹ شریف کے سادات سے رغبت رکھتے ہوں اوربلوٹ شریف حاضر ہوئے ہوں۔[1]

بیعت و خلافت

ترمیم

سخی شاہ موسیٰ رنیالؒ کو سلسلہ قادریہ سہروردیہ میں فیض حاصل تھا جس کے شواہد نثار جی حضور ؒ کے حکم سے مرتب کردہ شجرہ چشمہ فیض میں ملتے ہیں جبکہ سادات بخاریہ بلوٹ شریف کے بزرگان بھی حضرت سرخ پوش جلالی تک درجہ بدرجہ اپنے اجداد کے دست حق پرست پر بیعت تھے، سرخ پوش جلالی کی اولاد میں سید جنید برقع پوش کے پوتے زہد الانبیاء سید نوری شاہ عبد الوھاب  بلوٹ شریف کے سب سے مشہور بزرگ ہیں جو شاہ موسیٰ رنیال ؒ کے مرشد، شاہ عیسیٰ قتال کے دادا تھے اور صرف پچاس سال کی عمر میں 957ھ میں فوت ہوئے، جب انھوں نے نبی کریم ﷺ اور علی المرتضیؓ کی زیارت کی اور ان کی قیادت میں نماز ادا کی اس وقت شاہ عیسیٰ قتال صرف چند سال کے بچے تھے اور اس نماز میں پہلی صف میں کھڑے ہونے کی سعادت حاصل کی۔

یہ سجرہ طریقت اچ بخاریہ بہاول پور کے بانی اور پاکستان میں بخاری سادات کے جد اعلیٰ سرخ پوش جلالی ؒتک پہنچتاہے جو اپنے والد سید عبدالموئید بخاری سے فیض  یافتہ  تھے اور سید عبدالموئید اپنے دادا کے دست حق پرست پر بیعت تھے، اس کے علاوہ سرخ پوش بخاریؒ نے  برصغیر آمد پر سب سے پہلے بہاودین زکریہ ملتانی ؒ کی خدمت میں پہنچ کر خرقہ خلافت حاصل کیا۔ یوں یہ سلسلہ قادریہ سہروردیہ سخی شاہ موسیٰ رنیال ؒ تک پہنچا۔

راقم کو جو تفصیل اپنے اجداد سے حاصل ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب سخی شاہ موسیٰ رنیال ؒ بیعت کی غرض سے اچ بلوٹ پہنچے تو شاہ عیسیٰ بابن پیرؒ نے از روئے امتحان، یتیم اور فقیر بچوں کے ساتھ لنگر کھانے کا حکم فرمایا۔ آپ ؒ چونکہ سردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے لہذا آپ ؒ کو پراگندہ حال و ناقص لباس میں ملبوس فقراء کے ساتھ کھانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی اور پھر اسی کو بنیاد بنا کر آپ ؒ کی روحانی  تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا۔ آپ ؒ عرصہ دس سال بلوٹ کے پہاڑ سے اترتے پانی کا مٹکا بھرتے اور سر پر رکھ کر خانقاہ تک پہنچاتے، چونکہ پہاڑ اتر کر دریا تک کا سفر کافی طویل تھا لہذا آپ ؒ نے پہاڑ کے دامن میں ہی کنواں کھودنا شروع کیا وہ کنواں بلوٹ شریف میں آج بھی مرجع خلائق اور آپ کی کرامت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دس سال کی ریاضت مکمل ہو جانے کے بعد دوبارہ کھانے پر دعوت ملی اور دوبارہ آپ ؒ کا امتحان لیا گیا، دوسری مرتبہ بھی جھجک کے کچھ آثار بقایا تھے لہذا پھر سے دس سالہ طویل ریاضت و مجاہدہ کا عمل شروع ہوا۔ صوفیا کرام کے اس طرح کے مجاہدات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذات کو مکمل فنا کر دے اور سوائے بندگی کے اس کی روح و بدن میں کچھ باقی نہ بچے، یہی وجہ ہے کہ کوئی ساری زندگی زاہد بنا بیٹھا رہے تو کچھ بھی حاصل نہ ہو گا جب تک کے وہ خدمت خلق نہ کر لے، جب تک کہ فرد پسندی کے جال سے خود کو باہر نہ نکال لے۔بالآخر یہ بیس سالہ روحانی سفر تکمیل کو پہنچا اور آپ کو ایک مرتبہ پھر فقراء اور پراگندہ حال بچوں کے ساتھ بٹھا دیا گیا، مگر اس مرتبہ تو اپنی ذات کو ایسا بھول بیٹھے تھے کی یہ حکم ملتے ہی حکم مرشد کی محبت میں بچوں کو گلے سے لگا لیا اور ان کو پیار کرنے لگے۔ یہاں آپ کی تربیت اختتام کو پہنچی اور آپؒ کو شاہ عیسیٰ بابن پیر ؒ نے بیعت و خلافت سے نوازا، خوب عبادات و مجاہدات کے بعد جب آپ ؒ باطنی طور پر درجہ کمال کو پہنچے تو آپ ؒ کو ناڑہ گاؤں میں ہی تبلیغ دین کے لیے جانے کا حکم ہوا۔چند روایات ایسی بھی ملتی ہیں کہ آپ کے مرشد کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ انھوں نے شاہ موسیٰ رنیال ؒ کی جائے عبادت ،  اس کے علاوہ ایک پتھر جس پر انبیا کے نام درج تھے اور کچھ زمین کا حصہ بھی بھجوا دیا، وہ پتھر جس پر آپ ؒ عبادت کیا کرتے تھے آج بھی آپ کے دربار کے پائنتی جانب ایک چھوٹی سی کوٹھری میں موجود ہے جس کو اہل علاقہ گٹی شریف کے نام سے جانتے ہیں۔ دوسرا پتھر جس پر اسماءانبیاءکنددہ تھے آپ کے دربار کے پرانے احاطہ سے باہر مغرب کی جانب موجود تھاوہ جگہ اب دربار کے احاطہ کے اندر موجود ہے اور اس کے بارے میں منقول ہے کہ اولیائے ناڑہ شریف فرمایا کرتے تھے جب یہ پتھر مکمل دفن ہو جائے گا تو قیامت کا آغاز بہت قریب ہو گا، طارق جی حضور ؒ فرماتے تھے کہ ’’وہ پتھر ایک ہجرہ جتنی جسامت کا تھا اور میں نے اس کا آخری حصہ بھی زمین میں دفن ہوتے دیکھا ہے‘‘، راقم کے دور میں اس کا مکمل نام و نشان مٹ چکا ہے۔[3]

وصال

ترمیم

حضرت سخی شاہ موسیٰ رنیال ؒ نے اپنی مکمل زندگی یاد الہی میں بسر کی رشتہ ازدواج سے منسلک نہ ہوئے، موجودہ خانوادہ آپ کے بھائی کے نسب سے ہے۔ آپ ؒ کی شہادت کا واقعہ غور طلب ہے، تقریبا گیارھویں صدی ہجری  میں  جب آپؒ کی زندگی میں ہی دریا پار سے  ناڑہ گاؤں پر سکھوں اور مرہٹوں نے حملہ کر دیا تو آپ تمام مسلمان مجاہدین کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔ بے شمار کفار کو جہنم واصل کرنے کے بعد آپ ؒ زخمی ہوئے اور فورا ہی آپ ؒ کا سر مبارک تلوار کی شدید ضرب لگنے سے تن سے جدا ہو گیا اور یہ جگہ جہاں آپ کا سر مبارک زمین پر گرا، ناڑہ گاؤں میں محلہ ٹیڑھا سے بنگلہ چوک کی جانب جاتے ہوئے کھجور کے درختوں کے دامن میں واقعہ ہے جہاں اب بھی دیے جلتے اور جھنڈے بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ شہادت کے اس موقع پر آپ ؒ کی ایک بہت بڑی کرامت ظہور پزیر ہوئی کہ آپؒ کا سر تو تن سے جدا ہو کر اس جگہ ہی رہ گیا مگر دھڑ مبارک بنا سر کے ہی کافی وقت لڑتا رہا، یہاں تک کہ آپ محلہ زیارت میں موجودہ دربار والی جگہ پہنچے جہاں پانی کا چشمہ ہوا کرتا تھا تو لوگوں کی نظر میں آ گئے اسی وقت تلوار ہاتھ سے گری اور آپ واصل بحق ہو گئے، یہی جگہ آپ کا مدفن بنی بعد میں آپ ؒ کا سر مبارک بھی یہاں لاکر ایک ہی جگہ پر آپ ؒ کا مزار بنا دیا گیا، اس دربار کے جنوب میں پرانہ قبرستان موجود ہے جس میں تمام جنگ کے شہدا دفن ہیں اور جنوب مغرب کی جانب آپ ؒ کے خلیفہ ’’ غریب گندوال ؒ   ‘‘کا دربار ہے جو موجودہ دور میں قاضی والی مسجد کے ساتھ ملحقہ چاردیواری کے اندر آ چکا ہے، سعد اللہ کلیم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ نثار احمد سرکارؒ باقاعدگی سے وہاں جاتے ، قاضی صاحب سے اجازت لے کر چار دیواری میں داخل ہوتے اوراس دربار پر حاضری دیا کرتے تھے، الحمد للہ ایک مرتبہ راقم بھی قاضی صاحب سے اجازت لے کر دربار پر حاضری دینے گیا، مزار کی جگہ باوا جی حضورؒ کے دور تک کھلی تھی مگر بعد میں قبضہ کر کے گھر کے اندر کر دیا گیا جس کی وجہ سے کوئی محب اس دربار تک نہیں پہنچ پاتا نتیجتا، راقم جب آج سے آٹھ ، دس سال پہلے حاضری دینے پہنچا تو کافی خستہ حالت دیکھ کر صفائی و دھلائی کی اور چادر چڑھائی، خدا سے دعا ہے کہ خدا اس دربار کو دوبارہ مرجع خلائق بنائے کیونکہ وہ واحد بزرگ ہیں جو شاہ موسیٰ رنیال ؒ سے خلافت یافتہ ہیں اور ان کی تربت پر قدیم قتبہ بھی نصب ہے ۔

آپ ؒ کا فرمان مبارک تھا کہ میری قبر کے قریب ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں اگر کھودا جائے  تو چشمہ پھوٹ پڑے گا جس کا پانی بیماریوں کے لیے شفا ہوگا۔ قرب و جوار میں قبریں ہونے کی وجہ سے چشمہ تو تلاش نہیں کیا گیا مگر قبرستان کے اختتام پر پانی کا نلکا لگا دیا گیا تھا جہاں سے تبرکا پانی لے جایا جاتا رہا، باوا جی حضور ؒ فرماتے کہ دربار کا پانی اور دیے کا تیل جلد کی اکثر بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔وہ چشمہ  جو شاہ موسیٰ رنیال ؒ کے دور تک موجود تھا ، وہ یہ والا چشمہ نہیں تھا بلکہ پانی کی سطح انتحائی قریب ہونے کی وجہ سے اہل علاقہ نے دربار بننے سے کافی مدت پہلے پانی بھرنے کے لیے اپنے استعمال میں لایا ہوا تھا، وہ  کافی مدت پہلے سوکھ گیا تھا جس جگہ بعد میں کنواں کھود دیا گیا جس کو باوا جی حضور ؒ کے دادا کے نام سے بابا مصری والا کنواں کہہ کر پکارا جاتا تھا۔اب وہ کنواں دفن کر کے اس جگہ کو ملحقہ مسجد کے صحن میں شامل کر دیا گیا ہے۔[2]

سجادہ نشینی

ترمیم

خواجہ فضل داد بہرام ؒ سلاسل اربعہ سے فیض یافتہ تھے۔آپؒ نے سلسلہ چشتیہ میں سید آل رسول علی خانؒ سے اور سلسلہ نقشبندیہ میں پیر سید احمد عرف شامی بواسطہ،   سید محبوب شاہ ،سے   خرقہ خلافت حاصل کیا جن کی تفصیل بعد میں آئے گی، سلسلہ  قادریہ سہروردیہ کے متعلق برملہ فرمایا کرتے تھے کہ شاہ موسیٰ رنیال ؒ کو رخصت کرتے ہوئے ان کے مرشد نے دعا دی تھی میں اسی دعا کا ثمر ہوں، مجھے جو بھی ملا اس صاحب مزار کے صدقے ہی ملا اس کے علاوہ روحانی فیض و نسبت کے واقعات و اقوال سے متعلق تفصیل شجرہ میں ذکر کر دی گئی تھی۔ آپ نے زندگی بھر اپنے ساتھ چشتیہ ، قادریہ ، نقشبندیہ اور سہروردیہ کی چاروں سلاسل کی نسبت ذکر فرمائی جس کے شواہد آپ ؒ کے مکتوبات، رائٹنگ پیڈ و دیگر ذرئعے سے مل جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپؒ کے دربار کے جملہ سجادگان خود کو چاروں سلاسل کی نسبت سے ہی منسوب ذکر کرتے۔

شہنشاہ فقرحضرت خواجہ فقیر فضل داد ؒ

ترمیم

فقیر فضل داد بہرام رنیال ؒ سخی شاہ موسیٰ رنیال ؒ کے برادر حقیقی کی اولاد سے ہیں سجرہ نسب گذشتہ سطروں میں درج کر دیا گیا ہے۔ آپ ؒ دراز قامت اور فربہ جسم کے مالک تھے چہرہ انور سرخی مائل سفید تھا اور جسم مبارک سے خشبو آیا کرتی تھی، آپ کے جسم مبارک سے مس ہوئی اشیا سے آج  بھی خوشبو آتی ہے۔ آپ ؒ طبعا جاہ و جلال والے تھے اور یہ خصوصیت آپؒ کو اپنے والد محترم سے حاصل ہوئی تھی۔ آپ کے والدین نے آپ کا نام مبارک بہرام خان رکھا تھا، بعد میں آپؒ کو جب رب تعالیٰ کی جانب سے فضل داد کا اسم عطا ہوا تو آپ ؒ نے اسی نام سے خود کو منسوب فرما لیا یہی وجہ ہے کہ آج جتنے بھی مکتوبات محفوظ ہیں تقریبا تمام میں آپؒ نے خود کو  ’’آپ کا فقیر فضل یا فقیر فضلداد عرف بہرام لکھا ہے۔شہنشاہ فقر کا لقب بھی آپؒ کو بعد میں ملا جس کی وجہ آپ کا مقام فقر و درویشی تھا اس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔ رنیال کی نسبت آپ ؒ کو اپنے جد محترم شاہ موسیٰ رنیال کی نسبت سے عطا ہوئی، جبکہ شاہ موسیٰ رنیالؒ کو یہ نسبت اپنے خاندان (رنیالی کھٹڑ) کی نسبت سے ملی جو عبد الرحمن عرف رانا خان کی وجہ سے ہے۔

اولاد خواجہ فضل

ترمیم

باوا جی حضور ؒ کو اللہ کریم نے صرف بیٹوں سے نوازا تھا جن کے اسما گرامی یہ ہیں؛  محمد مظفر خاں، نیاز احمد خان، نثار احمد خان، غلام صابر، ناصر محمود خاں، طارق مسعود خان، ان کی تفصیل کے لیے دیکھیں’’ احوال و آثار خواجہ فضل دادؒ مرتبہ؛ سعد اللہ خان کلیم‘‘۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Muneeb Masoud (2021-12-01)۔ سخی شاہ موسی رنیال ناڑہ شریف 
  2. ^ ا ب منیب مسعود (۲۰۲۱)۔ سخی شاہ موسی رنیال۔ اٹک: رنیال پبلک لائبریری ناڑہ۔ صفحہ: ۱۔۱۱ 
  3. Shakhi Shah Mosa Raniyal۔ 04 مارچ 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مارچ 2022