گاؤں حطار [1]، تحصیل فتح جنگ[2] ، ضلع اٹک ، صوبہ پنجاب ، پاکستان کا ایک بڑا گاؤں ہے۔گاؤں حطار راول پنڈی سے کوہاٹ جانے والی قومی شاہراہ(N80) پر فتح جنگ شہر سے 10 کلومیٹر پہلے واقع ہے۔راول پنڈی شہر سے جنوب مغرب کی جانب واقع یہ گاؤں راول پنڈی سے 40 کلومیٹر ، اسلام آباد انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے 25 کلومیٹر اور موٹر وے (M2) فتح جنگ انٹر چینج سے 17 کلومیٹر کی دوری پر کالا چٹا پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔نالہ نندنا پانی کا واحد ذریعہ ہے جو گاؤں کی مغربی جانب سے گذر رہا ہے ۔ اس نالے کے پانی کو کالا چٹا پہاڑ کے دامن میں ذخیرہ کر کے شاہ پور ڈیم بنا دیا گیا ہے۔ پانی کے اس ذخیرے سے وافر مقدار میں مچھلی حاصل ہوتی ہے۔راول پنڈی - فتح جنگ روڈ پر نالہ نندنا پر بنے پل کے کنارے " فش پوائنٹ " کے نام سے ایک تفریحی مقام بھی موجود ہے جہاں اس ڈیم سے حاصل ہونے والی مچھلی کو پکا کر فروخت کیا جاتا ہے۔

آبادی و دیگر معلومات

ترمیم

2017 کی مردم شماری کے مطابق گاؤں حطار کی آبادی 8456 افراد[3] پر مشتمل ہے۔زیادہ لوگ کھیتی باڑی سے گذر بسر کرتے ہیں تاہم آبادی کا ایک تہائی حصہ ملازم یشہ افراد پر مشتمل ہے۔اہالیان حطار میں بھٹی راجپوت ،اعوان قطب شاہی ، ارائیں ، کشمیری مہاجر ، جاٹ اور دیگر قوموں کے لوگ شامل ہیں۔ سو فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور تمام لوگ سنی حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک درجن مساجد اور مستورات کے لیے 2 مدارس بھی گاؤں میں موجود ہیں ۔ بچوں اور بچیوں کے لیے ایک ایک گورنمنٹ ہائی اسکول موجود ہے جب کہ 3 پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں۔گورنمنٹ کی طرف سے بنایا گیا بنیادی مرکز صحت لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولیات مہیا کر رہا ہے۔ اس مرکز کے لیے بارہ کنال اراضی ملک تاج محمد خان مرحوم نے عطیہ کی تھی- نوجوانوں کی ایک فلاحی تنظیم ٹیک ویلفیئر آرگنائزیشن بھی گاؤں کے غریب و نادار لوگوں کو پندرہ روزہ میڈیکل کیمپ کے ذریعے صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔[4]نوجوانوں کو ادبی سطح پر متحرک کرنے کے لیے گاؤں میں 22 جنوری 2022ء کو ادبی تنظیم ’’دیپ‘‘ وجود میں آئی۔دیپ کے سرپرست اعلی معروف شاعر کرنل (ر) خالد مصطفی ہیں جن کے شعری مجموعے اور تحقیقی کام شایع ہو چکا ہے - اس تنظیم کا پہلا اجلاس 22 جنوری 2022ء کو دارالکتب حطار میں ہوا جس میں اس کا نام ’’بزم ضیاء‘‘ تجویز ہوا مگر بعد ازاں اس کا نام تبدیل کر کے’’دیپ‘‘ رکھ دیا گیا۔[5] اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے پہلی تنقیدی نشست کا اہتمام مئی 2023ء کے پہلے ہفتے میں کیا گیا جس کی صدارت ڈپٹی ڈائریکٹر اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد اختر رضا سلیمی نے کی جو معروف شاعر و ناول نگار ہیں۔ [6]

گورنمنٹ ہائی اسکول (مردانہ)

ترمیم

اسکول ہذا کا قیام اپریل 1914 ء کو پرائمری اسکول کے طور پر عمل میں آیا۔قیام پاکستان تک اسکول ہذا میں بھگوان داس صاحب (مرحوم) نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔قیام پاکستان کے بعد گاؤں حطار کے مقامی استاد غلام مصطفٰی صاحب (مرحوم) نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ باقاعدہ عمارت نہ ہونے کی وجہ سے اسکول گاؤں کی مختلف عمارات میں منتقل ہوتا رہا۔اسکول ہذا کی ابتدائی تعمیر علاقے کی معروف روحانی شخسیت بابا سائیں نور خان (مرحوم) کی مرہوں منت ہے۔آپ کی ذاتی دلچسبی اور اہل دیہہ کی کوششوں سے کیپٹن فضل خان مرحوم کی زیر نگرانی دو کمروں پر مشتمل عمارت کے لیے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا۔ بابا سائیں نورخان (مرحوم) کے ایک مرید (گل بناستی گھی) کے مالک نے ان دو کمروں پر پختہ چھت کے لیے سریہ کی رقم مہیا کی۔ ساڑھے تین کنال جگہ خدابخش بھٹی مرحوم سے خریدی گئی اور پانچ مرلے جگہ انھوں نے عطیہ کی۔اب اسکول ہذا کی عمارت چار کنال رقبے پر مشتمل ہے۔شروع میں دو کمروں پر مشتمل عمارت تعمیر ہوئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں توسیع کا عمل جاری رہا۔اس عمارت کی تعمیر میں اہل دیہہ نے اپنی بساط کے مطابق مالی اعانت کی اور اس وقت تعینات مدرسین حاجی محمد اکبر صاحب (مرحوم) ، حاجی عبد الخالق صاحب (مرحوم )اور ملک مظفر خان صاحب (مرحوم) نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کی۔[7] ڈپٹی کمشنر ضلع اٹک جناب خالد محمود کی سفارش پر 16 اپریل 1971 ء کو اسکول ہذا کو مڈل کا درجہ دیا گیا۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر الطاف فتیانہ نے اسکول کی توسیع ہونے پر یکم مئی 1986 کو اسے ہائی اسکول کا درجہ دے دیا۔ہائی درجہ کے حصول کے لیے اہل دیہہ نے ایک مرتبہ پھر اپنی مدد آپ کے تحت اسکول ہذا کی توسیع کی ۔ ہائی اسکول کا درجہ ملنے میں گاؤں حطار کے ماہر تعلیم ملک فیروز خان صاحب کا کردار نمایاں رہا۔[8]

گورنمنٹ ہائی اسکول (زنانہ)

گورنمنٹ ہائی اسکول (زنانہ) کا قیام 1962ء میں ایک پرائمری اسکول کے طور پر عمل میں آیا۔ ۔ 1967ء میں جب مردانہ مڈل اسکول کی عمارت کا افتتاح ہوا، اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اٹک (ضلع اٹک جو اس وقت کیمبل پور کہلاتا تھا) نے لڑکیوں کے اسکول کے لیے عمارت کی تعمیر کے واسطے 5000 روپے گرانٹ دینے کا اعلان کیا۔ عمارت نہ ہونے کے باعث، اس اسکول کی کلاسیں مختلف نجی حویلیوں میں جاری رکھی گئیں، جن میں ملک بنارس خان کی بیٹھک اور رسالدار نور حسین کی حویلی شامل ہیں۔ڈپٹی کمشنر کی جانب سے اعلان کردہ گرانٹ کے بعد، بابا سائیں نور خان نے مردانہ اسکول کے چندے سے بچی ہوئی رقم کو اس اسکول کی عمارت کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا تجویز کیا جس کی نگرانی کیپٹن (ر) ملک فضل خان نے کی۔ اس کے علاوہ، نمبردار ملک نواب (ملک اسلم نمبردار کے والد) کی کوششوں سے مقربی خاندان نے  دو کنال زمین عطیہ کی۔ 1975ء میں اسکول کو ایلیمنٹری کا درجہ دیا گیا، اور 1986ء میں اسے ہائی اسکول کا درجہ مل گیا۔یہ اسکول دو کیمپس پر مشتمل ہے: پرائمری اور سیکنڈری حصہ۔ 1986ء میں سیکنڈری حصہ موضع کی شاملات پر تعمیر کیا گیا، جس کا رقبہ 3 کنال اور 9 مرلہ ہے۔ اس اسکول نے 2021-2024 کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ مقابلے میں  انٹرنیشنل اسکول ایوارڈ  بھی جیتا، جو اس کی اعلیٰ تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں شاندار کارکردگی کا ثبوت ہے۔

آغاز جلوس میلاد النبی

ترمیم

حطار میں میلاد النبی کے سالانہ جلوس کا باقاعدہ آغاز 1974ء میں ہوا۔ قاضی خضر الزمان ضیا کی کاوشوں سے جلوس کو منظم رکھنے کے لیے حاجی عبد الخالق صاحب کی سربراہی میں مرکزی سیرت کمیٹی کی تشکیل ہوئی ۔ حطار محلہ شرقی کے رہائشی بابو اورنگزیب مرحوم ( متوفی 1999) کی ڈائری سے 1984 سے 1998 تک کے جلوس کی روداد ملتی ہے ان کی ڈائری کے مندرجات کے مطابق موضع حطار میں میلاد النبی کے جلوس سال 1984 تا 1998 درج ذیل تواریخ کو منعقد ہوئے

7 دسمر 1984ء

بابو اورنگزیب صاحب لکھتے ہیں: "آج عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس نکالا گیا، جس میں ہماری پانچ میلاد پارٹیاں اور دو دیگر علاقائی پارٹیاں شامل ہوئیں۔ گاؤں کی طرف سے مہمان پارٹیوں کو چائے اور کھانا پیش کیا گیا۔

جلوس کے مہمان خصوصی چیئرمین غلام سرور خان صاحب تھے،اور قائد جلوس نوجوان عالم دین مولانا خضر الزماں ضیاء صاحب تھے۔انہی محترم استاد نے جمعہ کے خطبے میں اللہ تعالیٰ کی توحید، نبی اعظم ﷺ کے اوصاف حمیدہ اور امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ کا ذکرِ خیر کیا۔ خطبے کے دوران انہوں نے امام احمد رضا بریلوی کی سادات سے عقیدت کے دو واقعات بھی بیان کیے-''

29 نومبر 1985ء

29/11/1985 بروز جمعہ : آج عید میلاد النبی کے سلسلے میں جلوس نکالا گیا اپنی میلاد کمیٹیاں مندرجہ ذیل تھیں :

مدنی میلاد کمیٹی,غلام مصطفی سیرت کمیٹی,عاشقانِ رسول سیرت کمیٹی ،پاک سیرت کمیٹی ، یادگار سیرت کمیٹی ،غلامان رسول سیرت کمیٹی

علاوہ تین مندرجہ ذیل علاقائی سیرت کمیٹیاں بھی مدعو کی گئیں :

کنیال سیرت کمیٹی ،فتح جنگ سیرت کمیٹی اور لوسر سیرت کمیٹی

گاؤں کی مخصوص گلیاں حسب توفیق سجائی گئی-جلوس کی گزرگاہ پر در و دیوار مختلف کلمات کی لکھائی سے مزین کیے گئےکئی ایک مقام پر سٹیج آراستہ کیے گئے جہاں جلوس پارٹیاں بارگاہ رسالت میں ہدیہ نعت پیش کرتی اور انعامات دیے جاتےآخر ہمارے اسٹیج( محلہ مسجد ملک نواب خان ) پر بھی جلوس پہنچ کر باری باری ہدیہ نعت سرور کون و مکان کی بارگاہ میں پیش کیا گیا اور انعامات تقسیم کیے گئے نوٹ: برخوردار محمد سعادت نے مبلغ ایک سو روپے اپنی میلاد پارٹی کو پیش کیے بعد ازاں مولانا خضر الزمان صاحب نے حضور کی پیدائش یعنی دنیا میں امد کے سلسلے میں وعظ فرمایا جس میں انہوں نے بہترین انداز میں حضور کی امد کے واقعہ کو بیان کیا اخر میں دعا ہوئی اور جلوس اختتام پذیر ہوا اور ہر ایک نے گھر کی راہ لی۔"

21 نومبر 1986ء

6 نومبر 1987ء
28 نومبر 1988ء
20 اکتوبر 1989ء
5 اکتوبر 1990ء
27 ستمبر 1991ء
11 ستمبر 1992ء
3 ستمبر 1993ء
26 اگست 1994ء
18 اگست 1995ء
2 اگست 1996ء
25 جولائی 1997ء
10 جولائی 1998ء

22 ستمبر 2024 کو پچاسویں جلوس کا انعقاد ہوا جسے گولڈن جوبلی جلوس کا نام دیا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Hattar"۔ Hattar 
  2. "Imperial Gazetteer2 of India, Volume 12, page 74 -- Imperial Gazetteer of India -- Digital South Asia Library"۔ dsal.uchicago.edu 
  3. http://www.pbs.gov.pk/sites/default/files/bwpsr/punjab/ATTOCK_BLOCKWISE.pdf
  4. معلومات از شہباز کیانی
  5. روزنامہ پاکستان اسلام آباد 4 مئی 2023ادبی صفحہ
  6. روزنامہ اوصاف اسلام آباد 11 مئی 2023
  7. معلومات از حاجی عبدالخاق سابق مدرس اسکول ہذا
  8. معلومات از عرفان طارق مدرس اسکول ہذا