"سورہ الاعلیٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏زمانۂ نزول: clean up, replaced: ابتدائ ← ابتدائی using AWB
←‏زمانۂ نزول: درستی املا, replaced: ابتدائییی ← ابتدائی using AWB
سطر 27:
== زمانۂ نزول ==
 
اس کے مضمون سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائیییابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، اور آیت نمبر 6 کے یہ الفاظ بھی کہ {{اقتباس|ہم تمہیں پڑھوا دیں گے، پھر تم نہیں بھولو گے}} یہ بتاتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ {{درود}} کو ابھی [[وحی]] اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق نہیں ہوئی تھی اور نزول وحی کے وقت آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں میں اس کے الفاظ بھول نہ جاؤں۔ اس آیت کے ساتھ اگر [[طٰہٰ|سورۂ طٰہٰ]] کی آیت 114 اور [[القیامہ|سورۂ قیامہ]] کی آیات 16 – 19 کو ملا کر دیکھا جائے، اور تینوں آیتوں کے اندازِ بیاں اور موقع و محل پر بھی غور کیا جائے تو واقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اس سورت میں حضور {{درود}} کو اطمینان دلایا گیا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم یہ کلام آپ کو پڑھوا دیں گے اور آپ اسے نہ بھولیں گے۔ پھر ایک مدت کے بعد، دوسرے موقع پر جب سورۂ قیامہ نازل ہو رہی تھی، حضور بے اختیار الفاظِ وحی کو دہرانے لگے۔ اس وقت فرمایا گیا "اے نبی، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرات کو غور سے سنتے رہے، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔" آخری مرتبہ سورۂ طٰہ کے نزول کے موقع پر حضور کو پھر بتقاضائے بشریت اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ 113 آیتیں جو متواتر نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی چیز میرے حافظے سے نہ نکل جائے اور آپ ان کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس پر فرمایا گیا "اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے" اس کے بعد پھر کبھی اس کی نوبت نہیں ہوئی کہ حضور {{درود}} کو ایسا کوئی خطرہ لاحق ہوتا، کیونکہ ان تین مقامات کے سوا کوئی چوتھا مقام قرآن میں ایسا نہیں ہے جہاں اس معاملے کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہو۔
 
== موضوع اور مضمون ==