"لات (قدیم عرب بت)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
م ←‏top: clean up, replaced: ← using AWB
(ٹیگ: القاب)
سطر 9:
بنو ثقیف اس کے بڑے معتقد تھے۔ جب ابرہہ کا لشکر کعبے کو گرانے کے قصد سے مکہ جاتے ہوئے طائف سے گزرا، تو انہوں ے اسے رہبر مہیا کیے اور دیگر سہولتیں بہم پہنچائیں تاکہ وہ ان کے معبود لات کے استھان منہدم نہ کردے۔<br />
لات کے ماخذ کے بارے میں علماء کے متعدد اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک "تا" اس کا حرف اصلی ہے۔ اس کے اصل حروف "ل۔ ی۔ ت "یا "ل۔ و۔ ت" ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا صل لویٰ یلوی ہے جس کا معنی جھکنا اور مڑنا ہے، کیونکہ اس کے پرستار اس کے ارد گرد چکر لگایا کرتے اور جھک جھک کر اس کو سجدے کیا کرتے، آداب بجالایا کرتے، اس لیے اس کو لات کہا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ لت یلت سے ماخوذ ہے جس کا معنی ستو میں گڑ وغیرہ ڈال کر لتھیڑنا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص حجاج کے لیے ستو اسی طرح تیار کیا کرتا تھا۔ اس کے مرجانے کے بعد جس چٹان پر بیٹھ کر وہ یہ کام کیا کرتا تھا، اس کی پرستش شروع ہوگئی کہتے ہیں یہ شخص طائف کا رہنے والا تھا۔<br />
اگرچہ ان بتوں کے مخصوص مندر مختلف مقامات پر تھے جس طرح آپ پڑھ آئے ہیں، لیکن ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ انہی ناموں کے بت کعبے میں بھی رکھے ہوئے تھے اور دوسرے بتوں کے ساتھ ان کی وہاں بھی پوجا پاٹ کی جاتی تھی۔ علامہ ابوحیات اندلسی نے 'بحر محیط' میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ احد کے میدان میں ابو سفیان نے بڑے فخروناز سے کہا تھا لنا العزی ولا عزی لکم کہ ہمارے لیے تو عزی دیوی ہے اور تمہارے پاس کوئی عزی نہیں نیز افرایتم میں خطاب کی ضمیر کا مرجع قریش مکہ ہیں"۔<ref>تفسیر ضیاء القرآن محمد کرم شاہ سورۃ النجم19</ref>
== حوالہ ==