"جمال عبد الناصر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 3:
[[فائل:NASSER3.jpg|تصغیر|250px|جمال عبدالناصر]]
 
'''جمال عبدالناصرعبد الناصر''' (پیدائش: [[15 جنوری]] [[1918ء]]، وفات: [[28 ستمبر]] [[1970ء]]) [[1954ء]] سے [[1970ء]] میں اپنی وفات تک [[مصر]] کے صدر رہے۔ وہ [[عرب]] قوم پرستی اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف اپنی پالیسی کے باعث مشہور ہوئے۔ عرب قوم پرستی انہی کے نام پر ناصر ازم کہلاتی ہے۔ ناصر اب بھی عرب دنیا میں عربوں کی عظمت اور آزادی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
 
== ابتدائی زندگی ==
سطر 19:
جمال 23 جون 1956ء کو مصر کے صدر بنے۔ ان کے دور صدارت کے کارناموں میں [[نہر سوئز]] سے برطانوی افواج کا انخلا اور [[اسوان ڈیم]] کی تعمیر ہیں۔
 
صدر ناصر شروع شروع میں ایک ایسی پالیسی پر عمل پیرا تھے جو مغربی ملکوں کے خلاف نہیں تھی لیکن [[1954ء]] کے بعد وہ [[روس]] اور اشتراکی ممالک کی طرف زیادہ جھکنے لگے اور اس طرح مصر اور مغربی ممالک کے درمیان براہ راست کشمکش شروع ہوگئیہو گئی جس کا پہلا بڑا اظہار [[اسوان بند]] کی تعمیر کے سلسلے میں ہوا۔
 
مصر کی خوشحالی کا تمام تر انحصار [[دریائے نیل]] پر ہے، جس کی وجہ سے مصر کو تحفۂ نیل کہا جاتا ہے۔ نیل کی پانی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے ليے مصری حکومت نے اسوان کے مقام پر پرانے بند کی جگہ ایک نیا اور زیادہ بڑا بند تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا تاکہ مصر میں مزید زمین زیر کاشت آسکے اور پن بجلی بڑی مقدار میں حاصل ہو سکے۔ [[امریکہ]]، [[برطانیہ]] اور [[عالمی بینک]] نے اس منصوبے کے لیے قرضہ فراہم کرنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا لیکن ان ملکوں نے جب دیکھا کہ مصر روس اور اشتراکی ممالک کی طرف مائل ہورہاہو رہا ہے اور ایک ایسی پالیسی پر چل رہا ہے جو ان کے مفاد کے خلاف ہے تو انہوں نے جولائی 1956ء میں قرضہ دینے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
 
== سوئز بحران ==
 
اسوان بند کی تعمیر مصری معیشت کے ليے بنیادی اہمیت رکھتی تھی اس ليے مصر میں امریکہامریکا اور برطانیہ کے فیصلے کے خلاف شدید ردعملرد عمل ہوا صدر ناصر نے [[فرانس]] اور [[برطانیہ]] کی زیر ملکیت [[نہر سوئز]] کو قومی ملکیت میں لے لیا اور اعلان کیا کہ اسوان بند نہر سوئز کی آمدنی سے تعمیر کیا جائے گا۔
 
برطانیہ اور فرانس نے مصر کے اس فیصلے کے خلاف اسرائیل کے ساتھ مل کر سازش کے تحت [[29 اکتوبر]] [[1956ء]] کو اسرائیل کے ذریعے مصر پر حملہ کرادیا جس کے دوران اسرائیل نے [[جزیرہ نمائے سینا]] پر قبضہ کر لیا۔ اگلے ہفتے برطانیہ اور فرانس نے بھی نہر سوئز کے علاقے میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ برطانیہ اور فرانس کی اس جارحانہ کارورائی کا دنیا بھر میں شدید رد عمل ہوا، امریکہامریکا نے بھی پرزور مذمت کی اور روس نے مصر کو کھل کر امداد دینے کا اعلان کیا۔ رائے عامہ کے اس دباؤ کے تحت برطانیہ اور فرانس کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں اور اسرائیل نے بھی جزیرہ نمائے سینا خالی کر دیا۔ اس کے بعد [[اقوام متحدہ]] کے دستے مصر اور اسرائیل کی سرحد پر متعین کردیئےکر دیے گئے تاکہ طرفین ایک دوسرے کے خلاف جنگی کارروائی نہ کرسکیں۔
 
یہ واقعہ "[[سوئز بحران]]" کہلاتا ہے۔ غیر ملکی افواج کے کامیاب انخلا سے ناصر عرب دنیا میں ہیرو اور فاتح کی حیثیت سے ابھرے۔
سطر 37:
[[فائل:Gamal-002.jpg|تصغیر|300px|ناصر اور خروشیف]]
 
9 سے 26 مئی 1964ء تک مصر کے دورے کے دوران سوویت وزیراعظموزیر اعظم [[نکیتا خروشیف]] نے ناصر کو "ہیرو آف سوویت یونین"، آرڈر آف لینن" اور "سوویت گولڈن اسٹار" کے اعزازات سے نوازا۔
 
اسوان بند کی تعمیر کی ذمہ داری بھی روس نے قبول کرلی اور وسیع پیمانے پر اسلحہ بھی مصر کو فراہم کرنا شروع کر دیا۔ مصر نے یہ پالیسی اگرچہ مغربی اثرات سے آزاد رہ کر قومی مقاصد کو اپنی مرضی کے مطابق پورے کرنے کے لیے اختیار کی تھی لیکن مغرب سے پوری طرح کٹ جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مصر کی غیر جانبدارانہ پالیسی ختم ہوگئیہو گئی اور مصر نہ صرف اپنی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل بلکہ اپنی بقا کے ليے بھی روس کا محتاج ہو گیا۔ مصر کی حالت تقریباً اس قسم کی ہوگئیہو گئی تھی جو [[سوئیکارنو]] کے آخری دور میں [[انڈونیشیا]] کی تھی۔ ناصر نے اگرچہ انقلاب کے آغاز میں ہی کمیونسٹ پارٹی کو خلاف قانون قرار دے دیا تھا لیکن اس کے باوجود اشتراکی نظریات پہلے سے زیادہ شدت سے مصر میں عام ہونا شروع ہوگئےہو گئے اور صدر ناصر کے دور میں مصر میں جن سماجی اور اقتصادی نظریات کا غلبہ ہوا وہ روس کے اشتراکی نظریات سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔
 
[[نہر سوئز]] کو قومی ملکیت میں لے کر برطانیہ اور فرانس کے حملوں کا جرات کے ساتھ مقابلہ کرکے ناصر نے جس ہمت کا ثبوت دیا اس کی وجہ سے وہ عربوں میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم مصر کا وقار بڑھ گیا لیکن مصر کے وقار میں اس اضافے کے ساتھ ساتھ مصر پر روس کے اثرات میں اضافہ ہو گیا۔ اب تک مصر کے بیشتر ترقیاتی منصوبے امریکہامریکا اور مغربی ممالک کی امداد سے مکمل کئےکیے جاتے تھے لیکن ہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کے بعد مغربی ممالک سے مصر کے تعلقات ختم ہوگئے۔ہو گئے۔ اس طرح بیرونی امداد کے معاملے میں جو خلا پیدا ہوا اسے روس اور دیگر اشتراکی ممالک نے پر کرنے کی کوشش کی۔
 
صدر ناصر چونکہ عرب دنیا کی مقبول ترین شخصیت بن چکے تھے اس ليے انہوں نے اپنی اس حیثیت سے فائدہ اٹھاکر عرب اتحاد کے ليے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔کر دیں۔ اس مقصد کی تکمیل میں عرب ملکوں کے بادشاہی نظام اور غیر اشتراکی نظام سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ ناصر نے ان کو ختم کرنے کے ليے جمہوری طریقوں کےکی بجائے سازشوں کا طریقہ اختیار کیا اور عرب ملکوں میں براہ راست مداخلت شروع کردی۔ اس طریقہ کار نے عرب ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ناصر عرب اتحاد نہیں بلکہ اپنا اقتدار چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عرب ممالک کے اختلافات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے۔
 
== عرب اتحاد کا نعرہ ==
سطر 57:
<small>مکمل مضمون کے ليے دیکھیے [[6 روزہ جنگ]]</small>
 
صدر ناصر [[یمن]] کی فوجی امداد کے بعد اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئےہو گئے تھے کہ اب مصر دنیائے عرب کا سب سے طاقتور ملک بن گیا ہے وہ [[اسرائیل]] کے مقابلے میں [[روس]] پر مکمل بھروسا کر سکتا ہے چنانچہ ایک طرف تو انہوں نے طاقت کے مظاہرے کے لیے ہزاروں فوجی یمن بھیج دیئےدیے اور دوسری طرف اسرائیل کو دھمکیاں دینا اور مشتعل کرنا شروع کر دیا۔ [[اقوام متحدہ]] کی جو فوج 1956ء سے اسرائیل اور مصر کی سرحد پر تعینات تھی صدر ناصر نے اس کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور [[آبنائے عقبہ]] کو جہاز رانی کے لیے بند کرکے اسرائیل کی ناکہ بندی کردی۔ اسرائیل نے جو جنگ کے لیے پوری طرح تیار تھا اور جس کو امریکہامریکا کی امداد پر بجا طور پر بھروسا تھا مصر کی کمزوری کا اندازہ کرکے جون 1967ء کے پہلے ہفتے میں بغیر کسی اعلان جنگ کے اچانک مصر پر حملہ کر دیا اور مصر کا بیشتر فضائی بیڑا ایک ہی حملے میں تباہ کر دیا۔ مصر کی فوج کا بڑا حصہ یمن میں تھا جسے بروقت بلانا نا ممکن تھا نتیجہ یہ ہوا کہ 6 دن کی مختصر مدت میں اسرائیل نے نہ صرف باقی [[فلسطین]] سے مصر اور اردن کو نکال باہر کیا بلکہ شام میں [[جولان]] کے پہاڑی علاقے اور مصر کے پورے [[جزیرہ نمائے سینا]] پر بھی قبضہ کر لیا۔ ہزاروں مصری فوجی قیدی بنالئے گئے اور روسی اسلحہ اور ٹینک یا تو جنگ میں برباد ہوگئےہو گئے یا اسرائیلیوں کے قبضے میں چلے گئے۔ عربوں نے اپنی تاریخ میں کبھی اتنی ذلت آمیز شکست نہیں کھائی ہوگی اور اس کے اثرات سے ابھی تک عربوں کو نجات نہیں ملی۔ اسرائیل کے مقابلے میں اس ذلت آمیز شکست کے بعد صدر ناصر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ [[سعودی عرب]] اور [[اردن]] سے مفاہمت پیدا کی اور [[شاہ فیصل]] سے تصفیہ کے بعد جس کے تحت مصر نے یمن میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا، مصری فوجیں یمن سے واپس بلالی گئیں۔ مصر کی شکست کی سب سے بڑی وجہ مصری فوج کی نااہلی اور مصری فوجی نظام کے نقائص تھے لیکن مصری فوج اور اسلحہ کی بڑی تعداد کو یمن بھیجنا بھی شکست کی ایک بڑی وجہ تھی۔
 
جون 1967ء کی جنگ کے نتیجے میں غزہ (فلسطین)، اور جزیرہ نمائے سینا کا 24 ہزار مربع میل (ایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر) کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آ گیا، [[نہر سوئز]] بند ہوگئیہو گئی اور مصر [[جزیرہ نمائے سینا]] کے تیل کے چشموں سے محروم ہو گیا۔ صدر ناصر نے شکست کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے فورا استعفی دے دیا لیکن ایک آمرانہ نظام میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ آمر کی جگہ لینے والا آسانی سے نہیں ملتا۔ مصر میں بھی یہی ہوا چونکہ کوئی متبادل رہنما سامنے نہیں آیا اس ليے 9 جون کو استعفی واپس لینے کے ليے قاہرہ میں مظاہرے کئےکیے گئے اور صدر ناصر نے استعفی واپس لے لیا۔ اس طرح صدر ناصر کا اقتدار تو قائم رہا لیکن 1967ء کی شکست کی وجہ سے مصری فوج کی عزت خاک میں مل گئی۔ لوگ فوجیوں کو دیکھ کر فقرے چست کرنے لگے جس کی وجہ سے فوجیوں کو عام اوقات میں وردی پہن کر سڑکوں پر نکلنے سے روک دیا گیا۔
 
1967ء کی جنگ نے مصر کی معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچایا۔ مصر کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ نہر سوئز تھی جس کی وجہ سے مصر کو ہر سال ساڑھے 9 کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ نہر کے مشرقی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہوجانے کے بعد نہر سوئز میں جہاز رانی بند ہوگئی۔ہو گئی۔ ایک ایسے موقع پر جبکہ مصر کو اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے ليے اور اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی نہر سوئز کی آمدنی کا بند ہونا بڑا تباہ کن ثابت ہوتا لیکن سعودی عرب، کویت اور لیبیا آڑے آئے اور تینوں نے مل کر ساڑھے 9 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد فراہم کرکے نہر سوئز کی بندش سے ہونے والے نقصان کی تلافی کردی۔
 
جولائی 1968ء میں صدر ناصر نے روس کا دورہ کیا جس کے بعد روس نے مصر کو از سر نو مسلح کرنا شروع کیا۔ روس نے پہلی مرتبہ زمین سے ہوا میں چلائے جانے والے کم فاصلے کے میزائل مصر کو دیئے۔دیے۔ آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا تیز چلنے والے جیٹ طیارے اور 500 ٹینک دینے کا وعدہ کیا۔ تین ہزار فوجی مشیر اور فنی ماہر بھی فراہم کئے۔کیے۔ عرب ملکوں میں [[سعودی عرب]]، [[کویت]] اور [[لیبیا]] نے وسیع پیمانے پر مالی امداد فراہم کی۔ روس اور عرب ملکوں کی اس امداد سے مصر کے فوجی نقصانات کی ایک حد تک تلافی بھی ہوگئیہو گئی اور اقتصادی حالت بھی سنبھل گئی۔ 1968ء کے آخر میں اسوان بند نے بھی کام شروع کر دیا۔
 
صدر نے اگرچہ 1968ء میں ایک استصواب رائے کے ذریعے عوام کا اعتماد بھی حاصل کر لیا تھا لیکن ان کی پالیسی کے خلاف اندرونی بے چینی میں برابر اضافہ ہورہاہو رہا تھا لیکن اس کا اظہار استبدادی نظام کی وجہ سے کھل کر نہیں ہو سکتا تھا لیکن جنوری 1968ء میں طلبہ نے پولیس راج کے خلاف جو مظاہرہ کیا اس سے اس بے چینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ روس کی پالیسی سے عوام غیر مطمئن تھے لیکن اب صدر ناصر کو بھی شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ روس صرف دفاع کی حد تک اسلحہ دینا چاہتا تھا اور وہ مصر کو اتنا مضبوط نہیں بنانا چاہتا تھا کہ اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے۔ اس کے بر خلاف امریکہامریکا نے اسرائیل کو اتنا مسلح کر دیا تھا کہ وہ اپنے پڑوس کے تمام عرب ملکوں کے خلاف بیک وقت جارحانہ کارروائی کر سکتا تھا۔ صدر ناصر کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ روس فوجی اور اقتصادی امداد کے ذریعے مصر میں کمیونزم کا فروغ چاہتا ہے اور فلسطین سے متعلق عربوں کی پالیسی کو اپنے مفاد کے تحت تشکیل دینا چاہتا ہے۔ آخر کار صدر ناصر نے طے کیا کہ اسلحہ اور اقتصادیات کے معاملے میں صرف ایک ملک پر انحصار مصر کے لیے مفید نہیں ہو سکتا اور 1969ء میں انہوں نے اس مقصد کے لیے مغرب خصوصاً فرانس کی طرف رخ کیا لیکن صدر ناصر کی یہ پالیسی ابھی واضح شکل بھی اختیار نہ کر پائی کہ 28 ستمبر 1970ء کو حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث ان کا اچانک انتقال ہو گیا۔
 
== ناصر اور اخوان ==
 
ناصر نے اپنے دور اقتدار میں [[13 جنوری]] [[1954ء]] کو [[اخوان المسلمون]] پر پابندی عائد کرکے اسے خلاف قانون قرار دے دیا اور [[حسن الہضیبی]] سمیت بہت سے اخوانی گرفتار کرلئے گئے۔ اخوان کی سرگرمیاں پابندی کے بعد بھی ختم نہیں ہوئیں۔ [[7 جولائی]] [[1954ء]] کو مصری حکومت نے جب [[انگریز|انگریزوں]] سے معاہدہ کیا تو اخوان نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور اس معاہدے کو [[مصر]] کو [[برطانیہ]] کے ہاتھوں فروخت کر دینے کے مترادف قرار دیا۔ اس معاہدے کی مخالفت کی وجہ سے حکومت نے روزنامہ اخوان المسلمون کو [[10 ستمبر]] [[1954ء]] کو بند کر دیا۔ [[26 اکتوبر]] کو ناصر پر قاتلانہ حملہ ہوا جس نے ناصر کو اخوان کے خلاف کارروائی کرنے کا موقع فراہم کر دیا اور اخوان کی تردید کے باوجود کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ مصر کے مشہور اخبار "المصری" کے ایڈیٹر احمد ابو الفتح کے مطابق چند ہفتوں کے اندر گرفتار ہونے والوں کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ گئی جن میں [[سید قطب]] اور [[عبدالقادر عودہ]] جیسے مفکر اور ادیب بھی شامل تھے۔ [[7 نومبر]] [[1954ء]] کو فوجی عدالت نے 6 ممتاز رہنماؤں کو صفائی کی سہولتیں فراہم کئےکیے بغیر سزائے موت سنادی۔ حسن ہضیبی کی سزائے موت بڑھاپے کی وجہ سے عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔
 
[[مارچ]] [[1964ء]] میں جب مصر میں ہنگامی حالت کا خاتمہ ہوا تو تمام سیاسی قیدی رہا کردیئےکر دیے گئے جن میں اخوان بھی تھے لیکن ایک سال بعد ہی اخوان ابتلا اور آزمائش میں مبتلا ہوگئے۔ہو گئے۔ [[جولائی]] [[1965ء]] میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں پکڑ دھکڑ کی نئی مہم شروع ہوگئیہو گئی جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 6 ہزار اخوان کر لیے گئے جبکہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق یہ تعداد 20 سے 50 ہزار تک بیان کی گئی ہے جن میں تقریبا 800 خواتین بھی شامل تھیں۔ حسن ہضیبی بھی دوبارہ گرفتار کر لیے گئے اور ان کو تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی جس کی تاب نہ لاکر وہ 8 نومبر 1965ءکو شہید ہوگئے۔ہو گئے۔
 
اس مرتبہ کو جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سب سے ممتاز شخصیت [[سید قطب]] ([[1906ء]] تا [[1966ء]]) کی تھی جو نہ صرف اخوان کے حلقے بلکہ اپنے زمانے میں مصر کے سب سے بڑے مفکر اور ادیب تھے۔ انہیں [[13 جولائی]] [[1955ء]] کو عوامی عدالت کی طرف سے 15 سید قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ تاہم ان کی علمی عظمت سے واقفیت کے بعد ناصر نے انہیں ایک سال بعد معافی کی شرط پر رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن سید قطب نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ انہیں وزارت تعلیم کی بھی پیشکش کی گئی جو انہوں نے ٹھکرادی۔ حکومتی پیشکشیں قبول نہ کرنے پر سید قطب کی رہائی عمل میں نہ آسکی۔ مارچ [[1964ء]] میں ہنگامی حالت کے خاتمے کے بعد رہا ہونے والے سیاسی قیدیوں میں وہ بھی شامل تھے لیکن ایک سال بعد اخوان کے تیسرے دور ابتلاءابتلا و آزمائش میں وہ پھر گرفتار کرلئے گئے۔ اس مرتبہ ان کے بھائی [[محمد قطب]] اور دو بہنیں [[حمیدہ قطب]] اور [[امینہ قطب]] بھی گرفتار ہوئیں۔ [[25 اگست]] [[1966ء]] کو حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں سید قطب اور ان کے ساتھیوں پر بند کمرے میں مقدمہ چلایا گیا۔ ملزمان کی طرف سے پیروی کرنے والا کوئی وکیل نہ تھا، باہر کے لوگوں نے پیروی کرنا چاہی لیکن انہیں اس کی اجازت نہ دی گئی۔ بالآخر 25 اگست 1966ء کو سید قطب کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح وہ حق کی خاطر جان لٹانے والے شہداء کے قافلے کے ہم سفر بن گئے۔
 
== شخصیت ==
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ [[نہر سوئز]] کو قومی ملکیت میں لینا، زرعی و صنعتی اصلاحات اور مغرب کی سامراجی قوتوں کے مقابلے میں جرات مندانہ اقدامات صدر ناصر کے ایسے کارنامے ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کے روشن کارناموں کو ان کے استبدادی مزاج اور مخالف عناصر پر ہولناک مظالم نے داغدار کر دیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ تاریخ میں صدر ناصر کا نام اسلامی تحریک کو کچلنے، اسلامی اقدار اور پیغام کو دبانے اور غیر اسلامی اقدار کو فروغ دینے والوں میں سر فہرست ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے شخص کے دور میں ہوا جس نے مصر سے باہر [[افریقا]] میں اسلام کی تبلیغ کے ليے قابل قدر کوششیں کیں۔ ناصر کی طبیعت کا یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ [[اسلام]] سے زیادہ ان کو اپنا اقتدار عزیز تھا۔ تاریخ میں ایسی ہی ایک مثال ہمیں [[حجاج بن یوسف]] کی ملتی ہے جس کے اسلامی کارناموں سے انکار نہیں کیا جاسکتا جن کی وجہ سے بہت سے سادہ لوح عوام اس کے گرویدہ ہوگئےہو گئے تھے لیکن دنیا اس کو ہمیشہ ایک بد ترین جابر اور ظالم کے نام سے یاد رکھے گی
 
== انتقال ==
سطر 85:
ناصر [[28 ستمبر]] [[1970ء]] کو [[قاہرہ]] میں عرب ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
 
ناصر نے زندگی میں ایک شادی کی جن سے ان کے تین بیٹے خالد، عبدالحکیمعبد الحکیم اور عبدالحمیدعبد الحمید اور دو بیٹیاں ہدی اور مونا پیدا ہوئیں۔
 
== کتب ==
 
جمال عبدالناصرعبد الناصر نے مندرجہ ذیل کتب لکھیں:
* ''1948ء جنگ فلسطین پر جمال عبدالناصرعبد الناصر کی یادیں'' (1955ء)
* ''آزادی کی جانب'' (1959ء)
* ''مصر کی آزادی، فلسفۂ انقلاب'' (1955ء)
سطر 99:
* ''جیل کے چند سال''، علی جرشہ، مصری ریاستی کونسل کے رکن، 1965ء تا 1971ء قید رہے
* ''خاموش رہنے والے مہرت سکوت توڑتے ہیں''، اس کتاب میں ناصر کے دور کے دو وزراء سمیت مختلف افراد نے مظالم کی داستانیں بیان کی ہیں
* ''مصیبت کے سال'': سابق مصری اٹارنی جنرل عبدالسلامعبد السلام
 
== متعلقہ مضامین ==