"ابو رہم غفاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Abualsarmad نے صفحہ ابو رہم غفاریؓ کو ابو رہم غفاری کی جانب منتقل کیا
درستی کے لیے
سطر 116:
طائف کے محاصرہ میں بھی شریک تھے،واپسی کے وقت یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ جب آنحضرتﷺ طائف سے واپسی کے بعد جعرانہ کی طرف چلے تو ابورہمؓ کی اونٹنی آپ کی اونٹنی سے بھڑگئی اوران کے جوتے کا کنارہ ر ان مبارک سے رگڑ کھاگیا، آنحضرتﷺ کو اس کی خراش سے تکلیف ہوئی،آپ نے ان کے پاؤں کو کوڑے سے کونچ کر فرمایا :پاؤں ہٹاؤ،میری ران میں خراش آگئی، ابورہم بہت خوفزدہ ہوئے کہ مباداوحی کے ذریعہ اس گستاخی کی تنبیہ نہ ہو،صبح کو قافلہ جعرانہ پہنچ کر خیمہ زن ہوا تو ابو رہم حسبِ معمول اونٹ چرانے نکل گئے، مگر دل میں یہ خطرہ لگارہا، اس لیے واپس آتے ہی لوگوں سے دریافت کیا تو بظاہر اس خطرہ کی صحت کے آثار نظر آئے، معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ نے یاد فرمایا تھا؛چنانچہ یہ ڈرتے ڈرتے حاضر خدمت ہوئے ؛لیکن یہ قیصر وکسریٰ کی شہنشاہی نہ تھی،جس میں ادنی گستاخی بھی سخت ترین پاداش کا مستحق بنادیتی ہے؛بلکہ رحمۃ ا للعلمین کے لطف وکرم کا دربار تھا، جس میں آقا غلام،مالک اورمملوک کا کوئی امتیاز نہیں اورجس کی تعزیرات میں غیظ و غضب ،سزا اورانتقام سے زیادہ لطف وترحم کی دفعات ہیں؛چنانچہ جب یہ پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھ کو تکلیف پہنچائی تھی، اس کے بدلہ میں میں نے تمہارے پیر کو کوڑے سے ہٹایاتھا،اب اس کے عوض میں یہ بکریاں انعام میں لو، حضرت ابورہمؓ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی اس وقت کی رضامندی میرے لیے دنیا ومافیہا سے بہتر تھی۔
<ref>(ابن سعد ،جزو4،قسم1:180)</ref>
غزوۂ[[غزوہ تبوک]] میں بھی شریک ہوئے اوراپنے ساتھ اپنے اوربہت سے قبیلہ والوں کو شریک کیا، اس غزوہ میں عرب میں ایساقحط اورایسی شدت کی گرمی تھی کہ لوگوں کا گھروں سے نکلنا دشوارتھااورمنافقین مسلمانوں کو شرکتِ جنگ سے منع کرتے تھے،اس لیے آنحضرتﷺ کو اس کے لیے خاص اہتمام کی ضرورت پیش آئی؛چنانچہ جب ابورہمؓ نے حسبِ معمول دوسرے غزوات کی طرح اس میں بھی شرکت کے لیے تیاریاں شروع کیں تو آنحضرتﷺ نے فرمایا ،تم جاکر اپنے قبیلہ والوں کو جنگ پرآمادہ کرو،اس ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے قبیلہ غفار کے بہت سے لوگوں کو شرکت پر آمادہ کردیااوران کی معتدبہ تعداد اس غزوہ میں شریک ہوئی۔
<ref>(ابن سعد،جزو4،ق1،:180)</ref>
اتفاق سے اس مرتبہ بھی واپسی میں ان کی سواری آنحضرتﷺ کی سواری کے پہلو میں تھی،رات کا وقت تھا، باربار غنودگی طاری ہوجاتی تھی،اس لیے آنحضرتﷺ کی سواری سے بھڑجانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا تھا،اس لیے جہاں ایسا موقع آتا وہ فوراً اپنی سواری ہٹالیتے۔