"اسلامی قانون وراثت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی
(ٹیگ: دستی ردِّ ترمیم)
سطر 186:
* اگر ایک شخص کے وارثوں میں صرف ایک بیٹی اور ماں موجود ہوں تو بیٹی کا حصہ آدھا اور ماں کا حصہ چھٹا ہونا چاہیے۔ لیکن اس طرح ایک تہائی حصہ بچ جاتا ہے جس کا بظاہر کوئی وارث نہیں۔ ایسی صورت میں "رد" کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ بچا ہوا حصہ بیٹی اور ماں میں اس طرح تقسیم ہوتا ہے کہ بیٹی کا حصہ 50 فیصد سے بڑھ کر 75 فیصد اور ماں کا حصہ تقریباً 17 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بیٹی ایک کی بجائے دو ہوتیں تو ہر بیٹی کا حصہ 33 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد اور ماں کا حصہ تقریباً 17 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جاتا۔
* اگر ایک شخص کے وارثوں میں صرف ایک بیٹی اور باپ موجود ہوں تو بیٹی کا حصہ آدھا اور باپ کا حصہ چھٹا ہونا چاہیے مگر اسلامی قوانین کے تحت مرد ہونے کی وجہ سے باپ کو بچا ہوا سب کچھ بھی مل جاتا ہے یعنی کُل ورثے کا نصف بیٹی کو ملتا ہے اور باقی نصف باپ کو۔ اسی طرح اگر بیٹی ایک کی بجائے دو ہوتیں تو ہر بیٹی کو ایک تہائی اور باپ کو بھی ایک تہائی ملتا۔
* اگر ایک ایسی عورت مر جائے جس کے نہ باپ ماں زندہ ہوں نہ کوئی اولاد۔ اور وارثوں میں صرف شوہر اور دو بہنیں موجود ہوں تو اسلامی قانون کے مطابق شوہر کا حصہ آدھا اور دونوں بہنوں کا حصہ دو تہائی ہونا چاہئیے۔ لیکن یہ مجموعہ کل ورثے سے لگ بھگ 16 فیصد زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر وارث کا حصہ ایک ہی نسبت سے کم کر دیا جاتا ہے۔ اب شوہر کو 50 فیصد کی بجائے 42.86 فیصد اور ہر بہن کو ایک تہائی کی بجائے 28.57 فیصد ملتا ہے۔
 
== حقائق ==