طائفون، طافون، تایفون، تافون یا تایفوس (Typhon) یونانی اساطیر میں ایک دَرِندَہ تھا جس نے تیتانی دیوتاؤں کے خلاف جنگ میں زیوس سے مُقابلہ کیا۔ جنگ کے آخری مراحل میں جب تیتانی دیوتا ناکام ہوتے نظر آئے تو کرونس نے ایک آخری وار کے طور پر طرطروس کی گہرایوں سے اِس دَرِندَے کو طلب کیا۔ اِس خوفناک دَرِندَے کا طیش اور قَہَر دیکھ کر تیتانی دیوتاؤں سے لڑنے والے اولمپوی جَنگ جُو ارتداد میں بھاگ گئے۔ آخر میں طائفون کے مدِمقابل صرف زیوس ہی کھڑا رہا۔ زیوس نے آسمانی بجلی کی مدد سے اِس دَرِندَے کو بِل آخِر شکست دے ڈالی اور یونانی دیوتاؤں کا بادشاہ ہونے کا اعزاز پایا۔

دیگر اساطیری ماخذ سے حاصل کردہ طائفون کی ایک تصویر کَشی۔

ماہرِ اساطیر کا ماننا ہے کہ قدیم اساطیری مُصنفین نے طائفون کے کردار کے ذریعہ شدید موسمی تبدیلیوں کو قلم بند کرنے کی کوشش کی تھی۔ دراصل، فارسی زبان سے لیا گیا اُردُو کا لفظ ”طوفان“ اِسی دَرِندَے کے نام سے اخذ کیا جاتا ہے۔

شکل و صورت ترمیم

طائفون ایک جن قامت دَرِندَہ تھا۔ اساطیر کے مطابق، جب طائفون سیدھا کھڑا ہوتا تھا تو یہ آسمانوں تک پہنچ جاتا تھا۔ اِس کے 100 سَر تھے اور ہر سَر اژدہا نُما تھا؛ ہر سَر پر دو آنکھیں تھیں اور ہر آنکھ آگ کے شولوں سے دَمَکتی تھی۔ اِس کے جسم بھر پر انگِنت پَنکھ تھے جس کی مدد سے یہ اُڑتا تھا اور دھڑ کا نچلا حصّہ سانپ کی مانند اُسطوانی تھا۔ اِس کی دُم کی لمبائی اِس کے جسم کی قامت سے بھی فائق تھی۔

آج کل، ایسے کسی درندے کا تصّور کرنا شاید مشکل ہو لیکن اساطیری مصنفین نے طائفون کا کشف طوفانی بگولوں سے حاصل کیا تھا۔ بگولوں کا ڈول بھی کُچھ یوں ہی ہوتا ہے – سانپ کی طرح اُسطوانہ دھڑ اور آسمان کو چھُوتا ہوا سَر۔ چنانچہ، یہ عین مُمکن ہے کہ اساطیری مصنفین نے طوفانی بگولوں کی عکس بینی طائفون کے کردار اور شکل و صورت میں کی ہو۔