عبداللہ بن بسر

حمص (شام) میں وفات پانے والے آخری صحابی

عبد اللہ بن بسر (وفات: 707ء) صحابی رسول تھے۔ آپ بلاد الشام میں وفات پانے والے آخری صحابی تھے۔

عبداللہ بن بسر
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 707ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حمص   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

خاندان ترمیم

آپ کے خاندان میں سے سبھی افراد نے یعنی آپ کے والدین، بھائی اور بہن نے بیک وقت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر قبولیتِ اسلام کی سعادت حاصل کی تھی اور شرفِ صحابیت حاصل کیا۔ اہل سِیَر و تاریخ نے اِس خاندان نے قبولِ اسلام کا زمانہ متعین نہیں کیا لیکن علامہ ابن اثیر الجزری (متوفی 630ھ) کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن بسر نے بیت المقدس اور کعبۃ اللہ، دونوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے۔ جمہور محدثین اور مؤرخین کا بیان ہے کہ تحویل قبلہ رجب میں ہوا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن بسر تحویل قبلہ یعنی رجب سے قبل ہی مسلمان ہو چکے تھے۔[1] علامہ ابن اثیر الجزری نے اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں لکھا ہے کہ قبولِ اسلام کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک عبد اللہ بن بسر (رضی اللہ عنہ) کے سر پر پھیرا اور اِن کے لیے دعا کی۔ اِن کے والد بُسر بن ابی بسر، والدہ، عطیہ (بھائی) اور صماء (بہن) بھی اِن کے ساتھ ہی اسلام لائے۔ حضرت صماء رضی اللہ عنہا کا شمار مشہور صحابیات میں ہوتا ہے۔ عطیہ بن بسر (بھائی) کا شمار اُن صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنھوں نے بلاد الشام میں سکونت اِختیار کرلی تھی۔[2]

نام و نسب ترمیم

حضرت عبد اللہ بن بُسر کا تعلق قبیلہ مازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان سے تھا۔ آپ کی کنیت ابو بُسر اور بقول بعض محدثین کے ابوصفوان تھی۔ حافظ ابن ماکولا (متوفی 475ھ) کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن بسر کا تعلق بنو سُلَیم سے تھا جو بنو مازن کی ایک شاخ ہے۔ حافظ ابن مندہ (متوفی 470ھ) نے آپ کو سُلَیمی اور مازنی دونوں ہی لکھا ہے لیکن علامہ ابن اثیر الجزری نے اِس بات کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ سُلَیم مازن کے بھائی تھے اور بنو سُلَیم اور بنو مازن دونوں الگ الگ قبیلے تھے۔[3]

پیدائش ترمیم

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ سالِ ہجرت کے ابتدا سے 6 سال قبل آپ کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی۔

وفات ترمیم

حضرت عبد اللہ بن بسر کی وفات 88ھ مطابق 707ء میں حمص میں ہوئی۔ اُس وقت آپ کی عمر 94 سال تھی اور بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ آپ کی وفات 96ھ میں سلیمان بن عبدالملک کے زمانہ حکومت میں ہوئی اور اُس وقت اُن کی عمر 100 سال کی تھی۔ بلاد الشام میں سب صحابہ کرام کے اخیر میں انھیں کی وفات ہوئی۔ [4]

حوالہ جات ترمیم

  1. طالب الہاشمی: آسمان ہدایت کے ستر ستارے، صفحہ 281، مطبوعہ لاہور، 1993ء
  2. طالب الہاشمی: آسمان ہدایت کے ستر ستارے، صفحہ 282، مطبوعہ لاہور، 1993ء
  3. طالب الہاشمی: آسمان ہدایت کے ستر ستارے، صفحہ 282، مطبوعہ لاہور، 1993ء
  4. طالب الہاشمی: آسمان ہدایت کے ستر ستارے، صفحہ 285، مطبوعہ لاہور، 1993ء