شجر ممنوعہ حضرت آدم اور ان کی بی بی حضرت حوا نے ابلیس کے بہکاوے اور فریب میں آکر اس ممنوعہ شجر کے پھل کو کھالیا۔ اور اس کام کو قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھ کر گذرے
یہ درخت جنت کے درختوں میں سے کوئی معروف و متعین درخت تھا، حضرت آدم بھی اس سے واقف تھے، لہٰذا اس کی تعیین کے درپے ہونے سے کوئی فائدہ نہیں، جس کو اللہ نے مبہم رکھا، اس کو مبہم ہی رکھنا بہتر ہے محقق امام ابن جزری کا موقف بھی خاموشی اور سکوت کا ہے ہماری بعض تفسیروں میں مادی درختوں میں سے گندم، خرما، کافور، انجیر، حنظل وغیرہ، سے لے کر شجرہ محبت اور شجرہ علم وغیرہ معنوی درختوں تک بہت نام شمار کرائے گئے ہیں۔[1] اہل تاویل کا اس درخت کی تعیین میں اختلاف ہے جس کے کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ حضرات ابن مسعود، ابن عباس، شعبہ بن جبیر، جعدہ بن ہبیرہ کہا : یہ انگور کی بیل تھی، اسی وجہ سے شراب ہم پر حرام کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس، ابو مالک اور قتادہ نے فرمایا : یہ سنبل کا درخت تھا اور اس کا دانہ گائے کے گردے کی طرح ہوتا ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا اور مکھن سے زیادہ سفید ہوتا ہے۔ وہب بن منبہ کا یہی قول ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول فرمائی تو اسے حضرت آدم کی اولاد کے لیے غذ ابنا دیا۔ ابن جریج نے کہا : بعض صحابہ سے مروی ہے کہ یہ انجیر کا درخت تھا ۔ بعض علما نے کہا : حضرت آدم نے وہ درخت بھول کر کھایا تھا اور یہ ممکن ہے کہ وہ دونوں وعید کو بھول گئے ہوں۔ میں کہتا ہوں : یہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حتمی اور قطعی طور پر بتایا : ولقد عھدنا الی ادم من قبل فنسی ولم نجد لہ عزماً۔ (طہٰ)[2] اور ظاہر ہے کہ بھول کر اگر کوئی کام خلاف حکم سرزد ہوجائے تو اس کو لغزش اور خطائے اجتہادی کہتے ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر جلالین،جلال الدین سیوطی ،البقرہ،آیت35
  2. تفسیر قرطبی ،البقرہ،آیت35