خدا بخش خان
مولوی خدابخش خان پٹنہ کے مشہور خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری کے بانی تھے جسے استنبول عوامی کتب خانہ (ترکی) کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے کتب خانے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آج یہ قومی اہمیت کے ادارے کے طور پر مان لیا گیا ہے کیونکہ 1969ء میں بھارت کے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کی رو سے اس کتب خانے کی نگرانی حکومت اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے۔ یہاں پر اردو، فارسی اور عربی کے ہزاروں دستاویزات موجود ہیں۔[1]
مولوی خدابخش خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2 اگست 1842 سیوان |
وفات | 3 اگست 1908 پٹنہ، برطانوی ہندوستان |
(عمر 66 سال)
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ پیرس پٹنہ کالج |
پیشہ | وکیل |
ملازمت | جامعہ بون |
وجہ شہرت | اپنے ہی نام سے عالمی شہرت یافتہ کتب خانے کے بانی |
درستی - ترمیم |
مختصر حالات زندگی
ترمیمخدابخش کی پیدائش 2 اگست 1842ء کو سیوان کے قریب "اُكھائی" گاؤں میں ہوئی تھی۔ ان کے آباواجداد مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی خدمت میں تھے۔ ان کے والد پٹنہ میں ایک مشہور وکیل تھے، لیکن وہ کمائی کا بڑا حصہ کتابیں خریدنے میں لگاتے تھے۔ انھوں نے ہی پٹنہ میں خدابخش کولایا تھا۔ خدابخش نے 1859ء میں پٹنہ ہائی اسکول سے بہت اچھے نشانات کے ساتھ میٹرک پاس کیا تھا۔ ان کے والد نے انھیں اعلی تعلیم کے لیے کولکتہ بھیج دیا، لیکن وہ نئے ماحول میں خود کو ہم آہنگ نہیں کر سکے اور وہ اکثر صحت کے مسائل سے پریشان رہے، بعد میں انھوں نے 1868ء میں اپنی قانون کی تعلیم مکمل کی اور پٹنہ میں پریکٹس شروع کر دیا، کم وقت میں ہی وہ ایک مشہور وکیل بن گئے۔
والد کا انتقال اور وصیت
ترمیم1876 ء میں خدابخش کے والد کا انتقال ہو گیا۔ مگر والد نے وصیت کی کہ ان کا بیٹا ان کے گراں قدر مجموعے میں شامل 1700 کے آس پاس کتابوں کو بڑھائے اور اسے ایک عوامی کتب خانہ کی شکل دینے کی کوشش کرے۔
اعزازات
ترمیم1877ء میں خدابخش پٹنہ میونسپل کارپوریشن کے نائب صدر بن گئے۔ انھیں 1891ء میں خان بہادر کے خطاب سے نوازا گیا۔ تعلیم اور ادب کے میدان میں ان کی شراکت کے لیے 1903ء میں انھیں اس وقت "سي آئ بی" کے خطاب کے ساتھ نوازا گیا۔
خدابخش کتب خانہ اور اس کا افتتاح
ترمیمخدابخش کتب خانے کا افتتاح 1891ء میں بنگال کے نائب گورنر سر چارلس ایلیٹ نے کیا۔ اس وقت اس لائبریری میں تقریباً 4000 قلمی مخطوطات تھے۔
حیدرآباد کے نظام کی ملازمت
ترمیم1895ء میں وہ ریاست حیدرآباد کے نظام کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر مقرر ہوئے۔ تین سال کے لیے یہاں رہنے کے بعد وہ پھر پٹنہ لوٹ آئے اور پٹنہ میں وکالت شروع کر دی، لیکن جلد ہی وہ فالج سے متاثر ہو گئے اور انھوں نے صرف کتب خانے تک ہی اپنی سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ 3 اگست 1908 کو ان کا انتقال ہو گیا۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 14 جولائی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2015
- ↑ "An Official Website of Siwan"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2015