خستہ بریلوی
بھارتی شاعر
ای ایس فالس المتخلص بہ خستہ بریلوی (پیدائش: 22 فروری 1905ء - وفات: 4 جولائی 1974ء) مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے شاعر تھے۔
خستہ بریلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 22 فروری 1905ء بجنور ضلع ، برطانوی ہند |
وفات | 4 جولائی 1974ء (69 سال) بریلی ، بھارت |
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) بھارت (26 جنوری 1950–) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
مذہب | مسیحیت |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمثمر دہلوی 22 فروری 1905ء کو بجنور، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ای ایس فالس اور شاعری میں خستہ تخلص تھا۔ عمر کا بیشتر حصہ بریلی میں گزارا۔ مراد آباد پارکر ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دورانِ تعلیم شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا اور اسکول کے مولوی صاحب حسین عاصی امروہوی سے اصلاح لینے لگے۔ بعد میں اصلاح لینا بند کر دی۔ ان کا کلام نعتیہ ہے جو حمدِ مسیح اور مذہبیات کے دائرے میں ہے۔ اوائل عمر میں آشوبِ چشم کے مرض میں مبتلا ہوئے اور آخر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ 4 جولائی 1974 میں بریلی میں وفات پا گئے۔[1]
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
آج دنیا کے لیے باعثِ افکار ہوں میں | بات اتنی ہے صداقت کا پرستار ہوں میں | |
یہ حقیقت ہے سیہ کار و خطا کار ہوں میں | میرے عیسٰی تیری رحمت کا طلبگار ہوں میں | |
مجھ سے وابستہ رہا گلشِ عالم کا نظام | آج حیرت ہے کہ گلشن کیلئے بار ہوں میں | |
عالمِ یاس میں پتھرا گئیں آنکھیں میری | رحم فرمائیے اب طالبِ دیدار ہوں میں | |
مجھ سے اے گردشِ دوراں نہ الجھ ہوش میں آ | آج پھر حق کے لئے برسرِ پیکار ہوں میں | |
اور کیا چاہیے انجامِ محبت خستہ | شکر صد شکر کہ رسوا سرِ بازار ہوں میں[2] |