نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط کو کئی درجہ بندویوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر

حوالہ جاتی خطوط

ترمیم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط جو تاریخ میں حوالے کے لیے مشہور ہے وہ حضرت جعفر طیار کو دیا گیا تھا جو بنام نجاشی شاہ حبشہ کے نام لکھا گیا تھا۔

تبلیغی خطوط

ترمیم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکے اور عرب کے رہنے والوں کو ذاتی طور پر تبلیغ کرنے علاوہ ،دور دراز کے لوگوں کو خطوط کے ذریعے بھی تبلیغ کرتے تھے۔ مدینہ میں اپنے قدم جمانے کے اس سلسلے میں انھوں نے بہت سے بادشاہوں کو خط لکھے اُن میں سے بہت سے تاریخ میں کافی مشہور ہیں۔

شاہ بازنطین کے نام

ترمیم
 
شاہ بازنطین کے نام لکھے گئے خط کا عکس

بازنطین کے مسیحی شاہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا اس کا متن کچھ اس طرح سے تھا۔

من محمد بن عبد الله إلى هرقل عظيم الروم: سلام على من اتبع الهدى، أما بعد فإنى أدعوك بدعوة الإسلام . أسلم تسلم ويؤتك الله أجرك مرتين ، فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيِّين. و يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم ألا نعبد إلا الله ،ولا نشرك به شيئا،ولا يتخذ بعضنا بعضا آربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون


شاہ سکندریہ کے نام

ترمیم

سکندریہ کے بادشاہ کو بھی ایک خط لکھا جس میں انھیں اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔

شاہ ایران کے نام

ترمیم

شاہ ایران ،خسرو پرویز، کے نام انھوں نے جو خط لکھا تھا اسے شاہ ایران نے پھاڑ دیا تھا۔ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج پرویز نے اپنی سلطنت کے ٹکڑے کر دیے ہیں۔

شاہ حبشہ کے نام

ترمیم

شاہ حبشہ کے نام جو تبلیغی خط لکھا اس کا متن کچھ یوں تھا۔

شاہ حبشہ نیگس کو لکھا گیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خظ

كتاب رسول الإسلام إلى النجاشي

بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الإسلام إلى النجاشى ملك الحبشة: سلام عليك إنى أحمد الله إليك ،الله الذي لا إله إلا ہو الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن، وأشهد أن عيسى بن مريم روح الله وكلمته ألقاها إلى مريم البتول الطيبة الحصينة، فحملت بعيسى فخلقه الله من روحه كما خلق آدم بيده، وإنى أدعوك وجنودك إلى الله عز وجل، وقد بلغت ونصحت فاقبلوا نصحى، والسلام على من اتبع الهدى


گورنر بحرین کے نام

ترمیم
 
المنذر بن ساوي کے نام لکھا گیا خط

المنذر بن ساوي کے نام لکھے گئے خط کا متن کچھ اس طرح تھا۔

رساله محمد للمنذر بن ساوي التميمى

بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى المنذر بن ساوي، سلام عليك، فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا ہو، وأشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمداً عبده ورسوله. أما بعد: فإني أذكرك الله عز وجل، فإنه من ينصح فإنما ينصح لنفسه، ومن يطع رسلي ويتبع أمرهم فقد أطاعني، ومن ينصح لهم فقد نصح لي، وإنّ رسلي قد أثنوا عليك خيراً، وإني قد شفعتُكَ في قومكَ، فاتركْ للمسلمين ما أسلموا عليه، وعفوتُ عن أهل الذنوب فاقبل منهم، وإنك مهما تصلح، فلن نعزلكَ عن عملك، ومن أقام على يہودية أو مجوسية فعليه الجزية.


جنوں کے نام خط

ترمیم
فائل:محمد(ص) کا خط، جنوں کے نام.jpg
خضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط مبارک، جنوں کے نام کی ایک تصویر

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط، جنوں کے نام وہ خط ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی سے جنوں کے نام لکھوایا تھا ــ[1] ’’کتاب الذکر، باب حرز أبی دجانۃ (1660) (3/426۔428) میں اور علامہ علی بن محمد الکنانی نے ’’تنزیھۃ الشریعۃ المرفوعۃ (2/324، 325)‘‘ میں ذکر کی ہے۔ یہ روایت دو طرق سے مروی ہے۔ ابن جوزی کی سند میں موسیٰ انصاری کا ذکر ہے، جس کے بارے میں خود ان کا کہنا ہے : ’’ ھٰذَا حَدِیْثٌ مَوْضُوْعٌ بِلَا شَکٍّ وَاِسْنَادُہُ مُنْقَطِعٌ وَلَیْسَ فِی الصَّحَابَۃِ مَنِ اسْمُہُ مُوْسٰٰی اَصْلًا وَاَکْثَرُ رِجَالِہِ مَجَاھِیْلُ لَا یُعْرَفُوْنَ ‘‘ ’’یہ روایت بلاشک و شبہ من گھڑت ہے اور اس کی سند بھی منقطع ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں اصلاً موسیٰ نام کا کوئی شخص نہیں، پھر روایت کے اکثر راوی مجہول و غیر معروف ہیں۔‘‘ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ وَقَدْ رُوِیَ فِیْ حِرْزِ اَبِیْ دُجَانَۃَ حَدِیْثٌ طَوِیْلٌ وَھُوَ مَوْضُوْعٌ لَا تَحِلُّ رِوَایَتُہُ ‘‘ ’’ابو دجانہ کی جنات سے بچائو کے متعلق بیان کردہ طویل روایت من گھڑت ہے، اس کی روایت درست نہیں۔‘‘ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ترتیب الموضوعات میں کہا ہے: ’’ فِیْ اِسْنَادِہِ مَجَاھِیْلُ وَمَا فِی الصَّحَابَۃِ مُوْسٰی ‘‘ ’’اس کی سند میں کئی راوی مجہول ہیں اور موسیٰ نامی کوئی شخص صحابی نہیں۔‘‘ امام بیہقی نے اس کی دوسری سند ذکر کی ہے، جس کے متعلق امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: ’’ وَاِسْنَادُ حَدِیْثِہِ فِی الْحِرْزِ الْمَنْسُوْبِ اِلَیْہِ ضَعِیْفٌ ‘‘ [الاستیعاب (1056) (2/212)] ’’ابو دجانہ کی طرف منسوب حرز والی روایت کی سند ضعیف ہے۔‘‘ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے اس قول پر تعاقب کرتے ہوئے تنزیہہ الشریعہ کے معلق نے لکھا ہے: ’’ بَلْ رِوَایَۃُ الْبَیْھَقِیِّ مَوْضُوْعَۃٌ اَیْضًا قَطْعًا ‘‘ ’’بلکہ بیہقی کی روایت بھی یقینی طور پر من گھڑت ہے۔‘‘ علامہ صنعانی حنفی لکھتے ہیں : ’’ وَالْحِرْزُ الْمَنْسُوْبُ لِاَبِیْ دُجَانَۃَ الْاَنْصَارِیِّ، وَاسْمُہُ سِمَاکُ بْنُ حَرْشَۃَ، مَوْضُوْعَۃٌ ‘‘ ’’سیدنا ابو دجانہ انصاری رضی اللہ عنہ، جن کا نام سماک بن حرشہ ہے، ان کی طرف منسوب حرز من گھڑت ہے۔‘‘ [موضوعات الصنعانی (ص 39، رقم13)] مزید دیکھیے تحذیر المسلمین من الاحادیث الموضوعہ علی سید المرسلین (ص 73)، تذکرۃ الموضوعات از علامہ محمد طاہر پٹنی (ص 211، 212)، موسوعۃ الاحادیث والآثار الضعیفہ والموضوعہ (5/369، 370، رقم 12716) اور الوضع فی الحدیث (3/26)۔ اس مختصر توضیح سے معلوم ہوا کہ یہ روایت من گھڑت ہے، سو اس خط کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط قرار دینا درست نہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط، جنوں کے نام