خلاصۃ التواریخ مغلیہ سلطنت میں ہندو مؤرخ سجان رائے کھتری کی تصنیف ہے جو ویدک ہندوستان کی مختصر تاریخ سے لے کر مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر تک تاریخی روزنامچہ ہے۔ یہ تاریخ فارسی زبان میں لکھی گئی عہدِ مغلیہ کی مستند ترین کتب میں شمار ہوتی ہے۔

خلاصۃ التواریخ
مصنفسجان رائے کھتری
ملکمغلیہ سلطنت
زبانفارسی
موضوعتاریخ ہندوستان
صنفتاریخ
اشاعت1695ء (مخطوطہ فارسی زبان میں)،
1918ء (مطبوعہ)

مصنف

ترمیم

خلاصۃ التواریخ کے مصنف سجان رائے کھتری کے متعلق معلومات تاریخ میں موجود نہیں، صرف اِتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پٹیالہ کا رہنے والا تھا۔ بقول سجان رائے کھتری کے‘ وہ اپنی جوانی اور اُس کے بعد سے بلند پایہ سرکاری افسران کا منشی رہا۔[1] منشی سجان رائے کھتری کو فارسی، ہندی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ [2] اُس کی وجہ شہرت صرف یہی کتاب یعنی خلاصۃ التواریخ ہے جو اُس کے تاریخ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے عہد میں مرتب کردہ ویدک ہندوستان کی مختصر مگر طولانی تاریخ سے لے کر مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات تک ایک تاریخی روزنامچہ ہے۔

خلاصۃ التواریخ کی ابتدا رامائن کی ایک طویل فہرست سے شروع ہوتی ہے اور یہ سبھی فہرستیں مصنف نے تاریخ بہادر شاہی سے اخذ کی ہیں۔ اِس کے بعد اِسی بنیاد پر مصنف نے خود کتاب کو مرتب کیا ہے۔ منشی سجان رائے نے لکھا ہے کہ: چونکہ اِس کتاب میں اورنگزیب عالمگیر تک کے بادشاہوں کا تذکرہ ہے، اِسی لیے میں نے اِس کتاب کا نام خلاصات رکھا ہے۔ کتاب کے نصف حصہ میں صوبہ جات اور اُن ہندو اور مسلمان بادشاہوں کا ذِکر ہے جو مغلوں سے پہلے ہندوستان میں حکمران رہے ہیں۔ ہندوؤں کے سلسلہ میں وہ کنبھ میلہ کا بھی ذِکر کرتا ہے جو ہر بارہویں سال ہری دوار شہر میں منعقد ہوتا ہے۔ مغل شہزادہ خسرو کے قتل میں شاہ جہاں کا ملوث ہونا اُس کے نزدیک مشتبہ ہے۔ جہانگیر کی حکومت کا احوال بھی مختصر لکھا ہے۔ شاہ جہاں کی حکومت کی تفصیل کے لیے وہ محمد وارث کے شاہ جہاں نامہ کا حوال بھی دیتا ہے۔ شاہ جہاں کی معزولی کے وقت جنگِ تخت نشینی میں جسونت سنگھ کا میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا اُس کے نزدیک جسونت سنگھ کے ساتھیوں بالخسوص راجا رائے سنگھ یسودیا اور راجا سجان سنگھ چندراوَت کی وجہ سے ہوا تھا۔ دارا شکوہ کے متعلق اُس کی رائے تھی کہ وہ خلیل اللہ خان کی رائے سے ہاتھی پر سے نہیں اُترا تھا (میدانِ جنگ میں)۔ دارا شکوہ کے سندھ سے گجرات فرار ہونے پر یہ کتاب ختم ہوجاتی ہے۔ یہ کتاب اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں دارا شکوہ کے حالات پر ختم ہوتی ہے مگر مصنف بے ربطی سے اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے متعلق بھی لکھتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منشی سجان رائے کھتری دربارِ عالمگیری کی تاریخ سے نابلد تھا اور محض ایک خبر کی بنیاد پر کتاب کے آخر پر مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کی خبر دیتا ہے۔[3] شواہد کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب 1695ء تک مکمل ہو چکی تھی۔[4]

  • مصنف نے خلاصۃ التواریخ کے لیے 27 کتب کی مدد لی ہے جو یہ ہیں:

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Muzaffar Alam؛ Sanjay Subrahmanyam (2011)۔ Writing the Mughal World: Studies on Culture and Politics۔ Columbia University Press۔ ص 414–419۔ ISBN:978-0-231-52790-3
  2. "Khulasat-ut-Tawarikh"۔ Indian History - Vol 7, No. 540۔ ص 12–14
  3. بنارسی پرشاد سکسینہ: تاریخ شاہ جہاں، صفحہ 25، مطبوعہ دہلی، 2010ء
  4. M. Zafar Hasan، المحرر (1918)۔ Khulasatu-t-Tawarikh۔ VT J. & Sons۔ ص i–iii