خلافت امویہ کے زوال کے اسباب

اموی خلافت کا زوال

اموی حکومت 661ء میں امیر معاویہ کے اعلان خلافت سے شروع ہوئی اور صرف نوے سال بعد 750ء میں جنگ زاب میں عباسیوں کے ہاتھوں شکست کے نتیجہ کے طور پر ختم ہو گئی۔ تاہم اس حکومت کے زوال کے بعض اسباب روز اول ہی سے موجود تھے اور بعض اس وقت پیدا ہوئے جب اموی اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ آخری خلیفہ مروان ثانی کاہل، سست اور نااہل حکمران نہ تھا لیکن بنو امیہ کے خلاف جو جذبات و محرکات پیدا ہو چکے تھے ان کو روکنا اس کے بس میں نہ تھا۔ اسباب زوال میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں

خلافت اسلامیہ کی ملوکیت میں تبدیلی

ترمیم

بنو امیہ کی خلافت، اسلامی خلافت کی بجائے شخصی اور موروثی بادشاہت تھی مگر مسلمان خلافت راشدہ کے نظام اور خلافائے راشدین کی طرز زندگی کو اپنے لیے نمونہ عمل سمجھتے تھے۔ لٰہذا ان کے دل خلافت کی بجائے ملوکیت کے قیام سے ناخوش تھے۔ انھوں نے بنو امیہ کے اس طرز عمل کو کبھی پسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھا تھا۔ دوسری طرف اموی خلافت میں شخصی حکومت کی تمام خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ اس تبدیلی کے خلاف عام مسلمانوں کے دلوں میں زبردست رد عمل موجود تھا۔ چنانچہ مخالف عناصر اسی رد عمل سے فائدہ اٹھا کر اکثر خفیہ یا علانیہ بغاوتیں کرتے رہتے جس سے حکومتی نظم و نسق میں ابتری اور کمزوری پیدا ہوئی۔ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر عباسیوں نے ان کا تختہ الٹ دیا۔

خلافت کی نوعیت میں تبدیلی کا بھرپور نوٹس حضرت حسین ابن علی نے لیا۔ انھوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا۔ اور اہل کوفہ کی مدد سے اس کی حکومت ختم کرنے کا پروگرام بنا کر کوفہ کی راہ لی۔ کوفیوں نے ان کی مدد کرنے کی بجائے اموی حکام کا ساتھ دیتے ہوئے انھیں شہید کر ڈالا۔ اس شہادت نے اموی حکومت کے ظالمانہ حیثیت کو بے نقاب کر دیا اور مخلص عوام کے اندر اس کے خلاف نفرت کے شدید جذبات پیدا کر دیے۔ اس کے بعد ہر وہ شخص یا گروہ جو بنو امیہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کی دعوت لے کر اٹھتا تھا قتل حسین کے انتقام کا نعرہ لگاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے اس نعرہ انتقام کے بغیر عباسی تحریک کو ہر جگہ معاونین کارکن نہیں مل سکتے تھے۔

اموی حکومت کی عمارت میں دراڑیں اس وقت پیدا ہوئیں جب اموی خلفاء نے ایک کی بجائے دو دو ولی عہد مقرر کرنے شروع کر دیے۔ اس کا آغاز بہ امر مجبوری مروان بن حکم نے کیا تھا۔ اس نے خالد بن یزید اور عمر بن سعید بن العاص کو اپنے بعد ولی عہد مقرر کیا۔ اس نے اس تدبیر سے اموی خاندان کو متحد کرکے مرج راہط کی لڑائی جیت لی، لیکن بعد میں دونوں کو اپنے راستے سے ہٹا کر اپنے بیٹے عبد الملک اور عبد العزیز کو یکے بعد دیگرے ولی عہد مقرر کیا۔ عبد الملک نے اپنے دونوں بیٹوں ولید اور سلیمان کو یکے بعد دیگرے ولی عہد مقرر کیا تو اموی خاندان کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ ہر خلیفہ اپنے بھائی کو ہٹا کر اپنے بیٹوں کو حکومت دلوانے کے لیے قبائلی سرداروں کو اپنے ساتھ ملاتا۔ اس طرح داخلی دھڑے بندیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو آخر کار امور حکومت کو بالکل کمزور کر گیا۔

قبائلی اور نسلی عصبیتوں کا ظہور

ترمیم

اسلام نے دور جاہلیت کی تمام قبائلی اور جاہلی عصبیتیں ختم کرکے عربوں کو ملت اسلامیہ کے رشتہ سے منسلک کر دیا تھا۔ خلافت راشدہ کے زمانہ تک یہ قبائلی تعصبات دبے رہے لیکن بنو امیہ کے دور میں یہ تعصبات پھر ابھر آئے۔ عرب قبائلی نسلی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم تھے۔ مضری (بنو عدنان) اور یمنی (بنو قحطان) جو حمیری کہلاتے تھے۔ ان دونوں قبائل کے درمیان زمانہ قدیم سے دشمنی چلی آ رہی تھی۔ تمام عرب باشندے جو سلطنت کے مختلف حصوں میں جگہ جگہ آباد ہو گئے تھے کسی نہ کسی قبیلہ کے ساتھ بدستور وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ شام میں یمنی عنصر کی اکثریت تھی۔ اس لیے اموی حکمرانوں کی اکثریت بالعموم یمنی (حمیری) قبائل کی طرفداری تھی۔ امیر معاویہ چونکہ سمجھ دار تھے اس لیے انھوں نے دونوں گروہوں کو اپنا مطیع بنائے رکھا لیکن مروان اول کے زمانہ میں یہ عداوت اور دشمنی دوبارہ جنم لے چکی تھی۔ بعد کے ادوار میں مختلف خلفاء نے اپنے مخصوص مقاصد اورعزائم کی تکمیل کے لیے ان قبائلی عصبیتوں کو ابھارا۔ یہ کشمکش بالآخر خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گئے اور فوج بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

مروان ثانی کے زمانے میں عربوں کی باہمی آویزش مملکت کے ہر حصہ میں خطرناک صورت اختیار کر چکی تھی۔ سپین، سندھ، شام، عراق اور خراسان سب جگہ عرب باہمی خانہ جنگی کا شکار تھے۔ ابومسلم خراسانی کی بغاوت کے وقت خراسان میں یمنی و مضری قبائل آپس میں لڑ رہے تھے اور اس نے ان باہمی رقابت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں کو ایک ایک کرکے ختم کر ڈالا اور اس کے ساتھ ہی اموی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

بنو ہاشم اور بنو امیہ کی قدیم آویزش

ترمیم

اسلام سے پہلے مکہ میں بنو ہاشم اور بنو امیہ اہم ترین قریشی قبائل تھے اور دونوں کے درمیان ایک طرح کی رقابت پائی جاتی تھی۔ نبی آخر الزمان کے بنو ہاشم میں پیدا ہونے کے سبب بنو امیہ میں سے ایک گروہ ان کی قیادت کو قبول کرنے میں حجاب رکھتا تھا اور بہت دیر تک مقابلہ پر ڈٹا رہا۔ فتح مکہ کے بعد تمام اموی خاندان مسلمان ہو گئے تو کشمکش ختم ہو گئی۔ لیکن شہادت عثمان کے بعد امیر معاویہ کی طرف سے حضرت علی کے خلاف جنگ نے ان جذبات کو دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قتل حسین کا انتقام لینے کے لیے نعرے پر چلنے والی تحریک جب بنو عباس کے ہاتھوں میں چلی گئی تو انھوں نے اس کو ہاشمی تحریک کا نام دیا۔ اس طرح قدیم تلخیاں پھر لوٹ آئیں۔ عباسی انقلاب کے بعد جس انداز میں بنو امیہ کا قتل عام ہوا اس میں قدیم قبائلی تعصب کا حصہ بہت نمایاں ہے۔

خوارج

ترمیم

بنو امیہ کا ایک مستقل دشمن خوارج تھے۔ خارجیوں کا ظہور جنگ صفین کے بعد ہوا۔ یہ لوگ خلافت کو ایک جمہوری اور انتخابی ادارہ قرار دیتے اور خلیفہ کی اطاعت اس وقت تک ضروری سمجھتے تھے جب تک وہ عدل اور اصلاح کے طریقہ پر قائم رہے اور جب وہ اس راہ سے ہٹ جائے تو اس سے جنگ کرنا معزول کرنا یا قتل کرنا ان کے نزدیک جائز تھا۔ یہ لوگ اپنے نظریات میں انتہائی متشدد تھے۔ حوصلہ جرات اور بہادری میں یہ لوگ اپنی مثال آپ تھے۔ تعداد کی کمی کے باوجود یہ لوگ بنو امیہ کے خلاف میدان عمل میں ڈٹے رہے۔ ان لوگوں نے جابجا بغاوتیں کیں اور ایک طویل مدت تک کشت و خون کا سلسلہ برپا کیے رکھا۔ ان کے حوصلہ اور جرات کی یہ حالت تھی کہ بعض دفعہ مٹھی بھر خوارج نے ہزاروں اموی سپاہیوں کو شکست دی۔ ان کی سرگرمیاں بنو امیہ کے زوال کا سبب بنیں۔

موالی کی ناراضی

ترمیم

موالی وہ غیر عرب تھے جنھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسلامی معاشرہ میں عرب اورغیر عرب کے درمیان کسی امتیاز کی گنجائش نہ تھی لیکن اموی حکومت کی ابتدا ہی سے ایک عرب حکومت کارنگ لیے ہوئے تھی۔ اس لیے ان لوگوں نے عرب اور غیر عرب میں تفریق پیدا کرکے نو مسلموں کوعربوں کے برابر حقوق نہ دیے۔ ان سے جزیہ بھی بدستور وصول کیا جاتا رہا حالانکہ شرعی نقطہ نظر سے یہ ناجائز تھا۔ اس لیے عجمیوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ عربوں نے ہمارے علاقے فتح کرکے ہمیں غلام بنا لیا ہے اور اسلام قبول کرنے کے باوجود انھیں عربوں کے مساوی درجہ دینے کے لیے تیار نہیں یہ لوگ اقتصادی بدحالی کا شکار بھی تھے۔ ان پر مختلف قسم کے ناجائز ٹیکس بھی لگائے جاتے تھے۔ اس جذبہ نے پے درپے بغاوتوں کے علاوہ عام بے چینی کو جنم دیا۔ حجاج نے ان پر سختیاں کیں اور ان اقدامات نے ان کے دلوں میں امویوں کے خلاف مزید دشمنی کے جذبات پیدا کیے۔ بالآخر اس طرز عمل نے عجم میں شعوبی تحریک کو جنم دیا اس کی وجہ سے ہی خراسان میں ابومسلم خراسانی کی تحریک کو نمایاں کامیابی نصیب ہوئی اور عباسی خلافت کے قیام کے لیے راہ ہموار ہوئی۔

ایرانیوں کی عرب دشمنی

ترمیم

عرب کی بالادستی کے بعد ایرانیوں نے اگرچہ اسلام قبول کر لیا تھا لیکن ایران کی عظمت رفتہ کے نقوش ان کے ذہنوں میں ابھی تک محفوظ تھے۔ ابھی کل کی بات تھی کہ ایران اپنی تہذیب و تمدن اور شاہی سطوت و وقار کی بنا پر دنیا کے عظیم ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔ ایرانی اپنے اسی شاندار ماضی کی بنا پر عربوں کے مقابلہ میں احساس برتری میں مبتلا تھے۔ خلافت بنو امیہ خالص عربی حکومت تھی اس لیے ایرانی ہر اس تحریک کی پشت پناہی کے لیے ہر وقت مستعد اور تیار تھے جس کامقصد بنو امیہ کی خلافت کا خاتمہ ہو۔ عباسی دعوت کی مقبولیت اور ابومسلم خراسانی کی کامیابی کی ایک وجہ ایرانیوں کی عرب دشمنی بھی ہے۔ بنو امیہ کی بعض زیادتیوں کی بدولت یہ مخالفانہ جذبات عوامی تحریک کی شکل اختیار کر گئے اور بالاخر خلافت بنو امیہ کے خاتمے کا سبب بنے

ظالم گورنر

ترمیم

بنو امیہ نے عوام کو دبانے کے لیے ایسے لوگوں کو مناصب حکومت سونپے جو سختی سے عوام کو دبا سکیں۔ ان گورنروں نے وقتی طور پر اموی حکومت کو مضبوط کیا لیکن عوام کے دلوں میں ان کے ظلم کی وجہ سے شدید نفرت کے جذبات پیدا ہوئے۔ حجاج بن یوسف کے ظالمانہ رویہ کے خلاف تو اس کے ماتحت جرنیلوں نے بھی بغاوت کر دی۔ عبید اللہ ابن زیاد کے ظالمانہ اقدامات نے عوام اور حکومت کے درمیان نفرت کی خلیج کو مزید وسیع کیا اور اس طرح کے گورنر اس حکومت کو بظاہر مستحکم اور فی الحقیقت کمزور کرتے چلے گئے۔

سپہ سالاروں اور اراکین سلطنت کی رسوائی

ترمیم

وہ سپہ سالار اور اراکین سلطنت جنھوں نے اموی سلطنت کی وسعت اور استحکام کے لیے بیش بہا خدمات سر انجام دیں تھیں انھیں خلفائے بنو امیہ نے اپنی شخصی رنجشوں کا نشانہ بنا کر رسوا ہی نہیں کیا بلکہ قید و بند میں ڈال کر قتل تک سے بھی دریغ نہ کیا۔ خلیفہ سلیمان نے قتیبہ بن مسلم اور ابن اشعت جیسے عظیم سپہ سالاروں کی ذلت و رسوائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ موسی بن نصیر جیسا مایا ناز فاتح اور جرنیل سلیمان کے عباب کا شکار ہوا۔ محمد بن قاسم فاتح سندھ محض حجاج دشمنی کی بنا پر قتل کر دیا گیا۔ پھر یزید بن عبد الملک نے آل مہلب کا خاتمہ کر دیا حالانکہ ان لوگوں نے بنو امیہ کے لیے شاندار کا رہائے نمایاں سر انجام دیے تھے۔ ان اقدامات کی وجہ سے امرا اور اراکین حکومت کے دلوں میں شکوک و شبہات نے جنم لیا اور ان کا اعتماد متزلزل ہو کر رہ گیا۔ لٰہذا ان میں وہ پہلا سا جذبہ جانثاری موجود نہ رہا جس کی بدولت اموی سلطنت کو اس قدر وسعت اور استحکام حاصل ہوا تھا۔

اخلاقی زوال

ترمیم

بنو امیہ کے آخری دور کے اکثر خلفاء کی زندگی اخلاقی نقطہ نظر سے پست تھی۔ یزید اول ہی کے زمانہ میں شراب نوشی اور دیگر لہو لعب خلیفہ کی زندگی کا جزو بن گئے تھے۔ عبد الملک اور ولید اول کی زندگیاں اگرچہ اخلاقی عیوب سے پاک تھیں لیکن اپنے مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے بھی اخلاقی حدود کو تؤر کر ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا۔ صرف حضرت عمر بن عبد العزیز کی زندگی خلفائے راشدین کے مشابہ تھی لیکن ان کے علاوہ ولید ثانی، یزید ثالث ابراہیم وغیرہ کی زندگیاں بے راہ روی کا نمونہ تھیں۔ شراب نوشی، عیاشی، موسیقی اور ناچ رنگ کی محفلیں اور حرم سرا ان کے پسندیدہ مشغلے تھے۔ چنانچہ یہ اخلاقی زوال بنو امیہ کی حکومت کو گھن کی طرح کھائے جا رہے تھے۔ خلفاء ان مشاغل میں الجھے رہتے اور حکومتی معاملات کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دیتے۔ اس کے علاوہ دولت کی فراوانی اور خوش حالی نے انھیں کاہل بنا دیا تھا۔ جب اخلاقی تنزل کی وجہ سے اعلی سیرت و کردار سے عاری لوگ مسند اقتدار پر فائز ہونا شروع ہوئے تو اموی حکومت کے مخالفین نے ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

بزرگان دین

ترمیم

ان دونوں گروہوں کے علاوہ ایسے لوگ بھی کثیر تعداد میں موجود تھے جو اپنی علمیت اور دین داری کی وجہ سے بنو امیہ کے خلاف تھے۔ ان میں علمائے امت، صحابہ کی اولاد اور اہل علم شامل تھے۔ یہ لوگ اپنے تقوی اور رائے کی پختگی اور بزرگی کی بدولت عوام الناس میں کافی مقبول تھے۔ ان لوگوں کی زبردست خواہش تھی کہ خلافت راشدہ کا نظام دوبارہ قائم ہو۔ چنانچہ انھوں نے ہر اس تحریک کا ساتھ دیا جس کا مقصد اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ مخالفین بنو امیہ کو ہمیشہ ان لوگوں کی تائید حاصل رہی ۔

حکمران طبقہ کی نااہلی

ترمیم

بنو امیہ کی حکومت شخصی تھی۔ ایسی حکومتوں کا قیام اور استحکام حکمران طبقہ کی اہلیت اور ذاتی قابلیت کا مرہون منت ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ جب تک بنو امیہ کو امیر معاویہ، عبد الملک، ولید اول اور ہشام جیسے لائق حکمرانوں کی قیادت حاصل رہی زمانے میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہا۔ مغرب ہو یا مشرق کوئی قوم یا فرمانرواں ان کی یلغاروں کا مقابلہ نہ کر سکا۔ سپین، افریقہ، ترکستان، سندھ، عراق، شام اور جزائر بحیرہ روم وغیرہ کے قبضہ میں تھے۔ تہذیب و تمدن میں انھوں نے نئی طرح رکھی۔ نظم و نسق، حکومت اور سماجی اور معاشرتی زندگی میں کئی اہم اصلاحات نافذ کیں اور قومی و ملکی خوش حالی میں اضافہ کیا لیکن جب مسند خلافت پر وہ لوگ فائز ہوئے جو شجاعت دلیری، عزم اور تدبیر و رائے سے عاری تھے تو خلافت بنو امیہ کی تباہی یقینی تھی

خلیفہ ہشام کے چار جانشیوں میں سے تین ولید ثانی، یزید ثالث اور ابراہیم منصب خلافت کے لیے انتہائی غیر موزوں اور نااہل تھے۔ اس کے علاوہ بنو امیہ کے اکثر و بیشتر خلفاء شراب اور حرم کی رنگنیوں کے خوگر اور عیش و عشت کے دلدادہ ہو چکے تھے۔ وہ حسن کی لطافتوں میں کھو کر اپنے فرائض کی بجا آوری سے غفلت کے مرتکب ہوئے۔ لٰہذا ان کا زوال لازمی تھا۔ اس کے علاوہ خوش حالی اور دولت کی فراوانی نے انھیں آرام پسند اور کاہل بنا دیا۔ آخری دور کے خلفاء اکثر و بیشتر کنیزوں کے بطن سے تھے۔ اس لیے خون کی اس باہمی آمیزش سے بنو امیہ کی انفرادیت قائم نہ رہی۔ اب شاہی خاندان تک خالص عربی خون کا دعوی نہ کر سکتا تھا جو ان کا طرہ امتیاز تھا۔ ان کی نا اہلی کی بدولت نظم و نسق حکومت تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ بقول فلپ حٹی

‘‘صحرائے عرب کے بچوں کو تمدن کی مخصوص آفتوں نے جو شاہد و شراب، رقص و سرود پر مشتمل ہیں آگھیرا اور نوخیز عرب قوم کے قوا میں گھن لگانا شروع کر دیا تھا۔ ‘‘

عباسی دعوت

ترمیم

اس ہمہ گیر بے چینی اور انتشار سے عباسی داعیوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ دعوت عباسی کو بنو ہاشم کے نام پر عوام سے روشناس کرایا گیا۔ خراسان کو اس دعوت اور تنظیم کا مرکز بنا کر عباسی داعیوں کی ایک کثیر تعداد اطراف و اکناف میں پھیلا دی گئی۔ یہ لوگ خفیہ طور پر تاجروں اور پیشہ وروں کے بھیس میں ملک کے مختلف حصوں کے دورے کرتے اور بڑے درمندانہ انداز میں امام حسین اور خانوادہ اہل بیت پر کیے گئے مظالم کی تشہیر کرتے۔ اس طرح جب عوامی ذہن ہمہ گیر انقلاب کے لیے تیار ہو گیا تو ابو مسلم خراسانی جسیے با تدبیر رہنماؤں کی قیادت میں اموی حکومت کا تختہ الٹ کر عباسی خلافت قائم کر دی۔