جنگ صفین

مولی علی علیہ اور حضرت معاویہ کے درمیان جنگ

جنگ صفین 37ھ جولائی 657ء میں خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان میں ہوئی۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے اور الرقہ (اردو میں رقہ) کہلاتا ہے۔ اس جنگ میں شامی افوج کے 45000 اور خلیفہ کی افواج کے 25000 افراد مارے گئے[حوالہ درکار]۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی تھی اور عمار بن یاسر کو بتایا تھا کہ اے عمار تجھ کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔[1] ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار بن یاسر کے پاس گئے جب انھیں علی نے اہل کوفہ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو لڑنے کے لیے تیار کریں۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار سے کہنے لگے جب سے تم مسلمانوں ہوئے ہو ہم نے کوئی بات اس سے زیادہ بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں جلدی کر رہے ہو۔ عمار نے جواب دیا میں نے بھی جب سے تم دونوں مسلمان ہوئے ہو تمھاری کوئی بات اس سے بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں دیر کر رہے ہو۔ ابومسعود نے عمار اور ابوموسیٰ دونوں کو ایک ایک کپڑے کا نیا جوڑا پہنایا پھر تینوں مل کر مسجد میں تشریف لے گئے۔[2] ابومریم عبد اللہ بن زیاد الاسدی نے بیان کیا کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو علی نے عمار بن یاسر اور حسن بن علی کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ حسن بن علی منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ تھے اور عمار بن یاسر ان سے نیچے تھے۔ پھر ہم ان کے پاس جمع ہو گئے اور میں نے عمار کو یہ کہتے سنا کہ عائشہ بصرہ گئی ہیں اور اللہ کی قسم وہ دنیا و آخرت میں تمھارے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمھیں آزمایا ہے تاکہ جان لے کہ تم اس اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی۔[3]

جنگ صفین
سلسلہ پہلا فتنہ
تاریخجولائی 26 سے جولائی 28، 657 عیسوی تک
مقامصفین، شام
نتیجہ غیر فیصلہ کن
دوسری بڑی اسلامی خانہ جنگی
مُحارِب
خلافت راشدہ بنو امیہ
کمان دار اور رہنما
علی ابن ابی طالب
حسن ابن علی
مالک اشتر
عبداللہ بن عباس
عمار بن یاسر
خزیمہ بن ثابت
ہاشم بن عتبہ
معاویہ بن ابو سفیان
مروان بن حکم
عمرو ابن العاص
ولید بن عقبہ
طاقت
130,000 135,000
ہلاکتیں اور نقصانات
25,000 45,000

خزیمہ بن ثابت انصاری بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ دونوں اصحاب علی کی فوج میں شامل تھے۔ اسی جنگ میں اویس قرنی بھی علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ علی کی فوج کے امیر مالک اشتر اور دوسری طرف عمرو ابن العاص تھے۔

کتب تاریخ میں ہمیں ایسی روایات بھی ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علی و معاویہ دونوں ہی جنگ نہ چاہتے تھے۔ عمرو بن عاص نے دونوں جانب کے مقتولین کو دیکھا تو انھیں اتنا دکھ ہوا کہ وہ رو پڑے۔ پھر انھوں نے معاویہ کی اجازت سے علی کو صلح کی دعوت دی۔ یہ ایک نہایت ہی پرخلوص اقدام تھا اور علی نے اس خلوص کا جواب خلوص سے دیا۔ عتبہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ صفین کے میدان میں اترے اور یہاں کئی دن تک ہم نے جنگ کی۔ ہمارے مابین مقتولین کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور گھوڑے بھی زخمی ہوئے۔ علی نے عمرو بن عاص کو پیغام بھیجا: ’’مقتولین بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ جنگ روک دیجیے تاکہ ہم ان تمام مقتولین کو دفن کر لیں۔‘‘ انھوں نے اس دعوت کو قبول کیا۔ اس کے بعد (دونوں جانب کے ) لوگ آپس میں گھل مل گئے۔ (راوی نے یہ کہہ کر اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال لیں۔) لشکر علی کا ایک شخص جو شدت دکھا رہا تھا، اسے اس کے کیمپ میں قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش یہاں سے نکال دی گئی۔ عمرو اس خندق (جہاں مقتولین کو دفن کیا جا رہا تھا) کے دروازے پر بیٹھے تھے اور دونوں فریقوں کے مقتولین کی تعداد ان سے مخفی نہ تھی۔ علی کے ساتھیوں میں سے ایک شخص کی لاش لائی گئی جو معاویہ کے کیمپ میں قتل کیا گیا تھا۔ عمرو یہ دیکھ کر رو پڑے اور بولے: ’’یہ شخص مجتہد تھا۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے حکم پر سختی سے کاربند تھے مگر مارے گئے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ علی اور معاویہ دونوں ہی اس کے خون سے بری ہیں۔‘‘[4]

ابو وائل کہتے ہیں: ہم صفین میں تھے جب اہل شام کے ساتھ جنگ خوب زور پکڑ گئی۔ شامی ایک ٹیلے پر چڑھ گئے۔ عمرو بن عاص نے معاویہ کو کہا: ’’آپ علی کی طرف قرآن بھیج کر ان کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دیجیے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس سے انکار نہیں کریں گے۔‘‘ معاویہ کی طرف سے ایک آدمی علی کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’ہمارے اور آپ کے درمیان میں اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ علی نے اسے قبول کر لیا اور فرمایا: ’’میں لوگوں کو اس کی دعوت دینے کا زیادہ حق دار ہوں۔ ٹھیک ہے، ہمارے اور آپ کے درمیان میں اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی۔‘‘[5]
اہل تشیع کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں علی کا ایک مراسلہ (Circular) نقل کیا گیا ہے جو آپ نے جنگ صفین کے بارے میں شہروں میں بھیجا۔ اس میں لکھا ہے:

علی کا خط، جو آپ نے شہروں کی جانب لکھا، اس میں آپ نے اپنے اور اہل صفین کے درمیان میں ہونے والے واقعے کو بیان فرمایا۔ ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم اہل شام کے ساتھ ایک میدان میں اکٹھے ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کے معاملے میں نہ ہم ان سے بڑھ کر تھے اور نہ وہ ہم سے بڑھ کر۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔ ہم نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس کا وقتی علاج یہ کیا جائے کہ آتش جنگ کو خاموش کر دیا جائے اور لوگوں کو جذبات کو پرسکون ہو لینے دیا جائے۔ اس کے بعد جب حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور حالات سازگار ہو جائیں گے تو ہم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ حق (یعنی قصاص) کو اس کے مقام پر رکھ لیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ اس کا علاج صرف جنگ ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ نے اپنے پاؤں پھیلا دیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ شعلے بھڑک اٹھے اور مستقل ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ جنگ نے دونوں فریقوں کو دانت سے کاٹنا شروع کر دیا ہے اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پر آمادہ ہو گئے اور میں نے بھی ان کی بات کو مان لیا اور تیزی سے بڑھ کر ان کے مطالبہ صلح کو قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ان پر حجت واضح ہو گئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہو گیا۔ اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا تو گویا اپنے آپ کو ہلاکت سے نکال لے گا ورنہ اسی گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ گردش ایام اسی کے سر پر منڈلا رہی ہو گی۔[6]

حوالہ جات

  1. 1. صحیح بخاری - کتاب: نماز کے احکام و مسائل ، حدیث 447
  2. 2. صحیح بخاری - کتاب: فتنوں کے بیان میں ، حدیث 7105-7106-7107
  3. 3. صحیح بخاری - کتاب: فتنوں کے بیان میں ، حدیث 7100
  4. 4. بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 3/104
  5. 5. احمد بن حنبل۔ المسند۔ باب سہل بن حنیف۔ حدیث 15975
  6. 6. سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58