خلیفہ محمود فقیر
سندھ میں بزرگ اور مشائخ ہوکر ہوکر گذرے ہیں۔ اس میں خلیفہ محمود فقیر کا ایک خاص مقام ہے۔ خلیفہ محمود فقیر 1189 ہجری میں ایک گاؤں کڑی گھنور، ضلع بدین میں پیدا ہوئے۔ اس لیے محمود فقیر کو "کڑی گھنور" کہتے ہیں۔اور والد کا نام گھنور خان نظامانی ہے۔ شرواتی تعلیم میاں عبد الکریم لڑی والے سے لی۔ چھوٹی عمر میں خاص لوگوں کی صحبت اچھی لگتی تھی۔ بزرگوں کے پاس صحبت اور ادب سے بیٹھ کر، غور سے باتیں سن تے تھے۔ سچ تو ہے کہ نیک بزرگوں کی صحبت میں رہ کر بلند درجے پر پہنچا دیا۔جس سے سچ واٹ کی طلب دن بدن بڑہتی رہی۔ اس طلب نے حق کا راستہ دیکھا اور اس وقت کے کامل ولی اللہ رح، پیر سائیں محمد راشد رح روضے دھنی کے ہاتھ بیعت ہوئے اور فیض حاصل کیا۔
شروع سے ہی اس کو دنیا کے کاموں کی کوئی بھی دلچسبی نہیں تھی۔ اس لیے اپنی زندگی اپنے مرشد پیر سائیں روضے دھنی کی صحبت میں گزاری۔
پیر سائیں اس کی عقیدت اور محبت دیکھ کر خلافت عطا کی، جن کی وجہ سے خلیفہ کہا جاتا ہے۔ ایک دن پیر سائیں فرما کہ تمھیں کافی عرصہ ہو گیا ہے میری صحبت میں رہ کر۔ میرے خیالوں، تعلیم سے واقف اور وحدت کی واٹ اپنا کر ظاہر ہوئے، اس لیے "ملفوظات" کو کتاب کی صورت دی۔ مرشد کے کہنے پر اس نے فرمانوں پر بنی ہوئی روحانی راز کو کتاب کی صورت میں لایا۔
اصل میں ملفوظات کی معنی ہے "زبانی لفظ" یا "کہے کفتے" سندھی میں "چیل گفتا" پیر سائیں جیکا سندھی زبان میں تعلیم دیتے تھے اس طرح مفوظات جڑ کر راس ہوئی جیکا فارسی زبان میں ہے۔ وہ پیر سائیں کو بیحد پسند آئی۔
"ملفوظات" بنیادی طور تے ایک دینی کتاب ہے۔ اس میں ملفوظات میں 13صدی ہجری کے سندھی سماج اور تاریخ بابت کافی پہچان ملتی ہے۔ مثال کے طور : مدرسوں میں تعلیم کا طریقہ، لوگوں، ماگ مکان، ڈنڈ اور ندیاں کے نام، شہر اور گاؤں کی تفصیل، حاکم اور حاکموں کے قصے نیک لوگوں کی نصبحت بھری باتوں میں شامل ہے۔
خلفیہ محمود فقیر دوسرے بھی کتنے ہی کتاب لکھیں، جس میں ایک "مکتوبات شریف" شامل ہے۔ جس میں پیر سائیں محمد راشد رح کے چھتالیس خط ہیں۔ خلیفہ محمود فقیر جس درویش صفت لوگوں کی صحبت میں رہے۔ ان میں نمری فقیر نقشبندی، طالب فقیر ہلیپوٹو، سید جمال شاہ اور فقیر صالح راہو (کڑی گھنور" والے ہیں۔ ملفوظات شریف کا سندھی میں ترجمہ مولوی محمد رحیم سکندر نے کیا۔ خلیفہ محمود فقیر 12 ربیع الاول 1267ھ وفات کی ۔ آپ کا مقبرہ کڑی گھنور، ضلع بدین میں ہے۔