درویش
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں کہ درویش ( فقیر ) وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور نہ کسی چیز سے اس کا نقصان ہو۔ نہ تو اسباب دنیاوی کے موجود ہونے سے وہ غنی ہوتا ہو اور نہ ان کی عدم موجودگی سے ان کا محتاج ہو۔ اسباب کا ہونا نہ ہونا اس کے لیے برابر ہو اور اگر ان اسباب کی عدم موجودگی و دستیابی پر وہ خوش ہو تو جائز ہے۔ اس لیے کہ مشائخ صوفیا نے فرمایا ہے کہ درویش جتنا تنگدست ہوتا ہے اتنا ہی وہ خوش ہوتا ہے کیونکہ اسباب کا ہونا درویش کے لیے بہت برا ہے۔ یحی بن معاذ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحیح فقیرکی علامت یہ ہے کہ بندہ کمال ولایت و قیام مشاہدہ کی صفت جاتے رہنے اور حق سے دور ہو جانے سے ڈرتا رہے۔ ردیم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فقیر کی تعریف یہ ہے کہ فقیر کا باطن اغراض نفسانی سے اور اس کا بدن آفت سے محفوظ ہو اور جو احکام اس پر فرض ہیں، برابر ادا ہوتے رہیں۔ ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فقیر وہ ہے کہ چیز کے نہ ہونے کی صورت میں خاموش رہے اور ہونے کی صورت میں اس کو خرچ کرے۔ مسلم فقیر جو اپنے مخصوص عقائد اور آئین ملی کی رو سے غربت و عسرت کی زندگی بسر کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کے بے شمار سلسلے ہیں۔ اکثر سیلانی زندگی کے عادی ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں قلندروں کے کچھ گروہ اسی ذیل میں آتے ہیں۔ ان میں بعض عورتوں کی طرح رنگین کپڑے اور زیور پہنتے ہیں۔ ان کا خیال ہے جس طرح آراستہ عورت مرد کو بھاتی ہے۔ اسی طرح وہ بھی خدا کے نزدیک مقبول ہوں گے۔ درویشوں کے چار بنیادی سلسلے ہیں۔
1۔ نقشبندی
2۔ سہروردی
3۔ قادری
4۔ چشتی
اپنے سلسلے میں آخر کار ان مین سے کسی ایک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ حضرت معین الدین چشتی اجمیر۔ خواجہ بختیار کاکی دہلوی۔ چشتیہ سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سہروردی سلسلے کے سب سے معزز درویش حضرت بہا الدین زکریا ملتانی ہوئے ہیں جن کا مزار ملتان کے قلعے میں ہے۔ فارسی کے مشہور شاعر حضرت سعدی بھی اس سلسلے کے درویش تھے اور اس سلسلے کے بانی ابوحفص شہاب الدین سہروردی کے مرید خاص تھے۔ نقشبندی سلسلے میں حضرت مجدد الف ثانی کے نام سے ہر مسلمان واقف ہے۔ سلسلہ قادریہ کے بزرگوں کی گدیاں ملتان، اُچ اور بغداد میں ہیں۔
اسلامی القاب
ترمیمویکی ذخائر پر درویش سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |