بزرگ یا سَنت (Saint) اس شخص کو کہتے ہیں جس کے متعلق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وہ تقدس کے اعلٰی مقام پر فائز یا خدا سے غیر معمولی قربت یا مشابہت رکھتا ہے۔[1][2] مسیحیت میں بزرگ کے لیے مقدس رائج ہے۔ جبکہ اسلام میں ولی بولا جاتا ہے۔ اسلام اور مسیحیت کی طرح دوسرے مذاہب میں مختلف ناموں کے ساتھ بزرگ کا تصور ملتا ہے۔[3]

اسلام ترمیم

اسلام میں بزرگان (اولیاء) کا ایک اعلیٰ رتبہ ہے، جن کو اکثر ولی کہا جاتا ہے اور انھیں دوست، مددگار، متصرف، قابض، محبوبِ الٰہی، مقربِ خدا، بزرگ دین، پیر و مرشد، زاہد، پارسا، پ رہی زگار، نیک بخت، عارف، صابر، شاکر، عابد اور سالک سمجھا جاتا ہے۔[4] اسلامی کے کچھ حصوں میں ولی کا بیسویں صدی میں سلفیت کی وجہ سے انکار کیا گیا۔ ابتدائی مراحل سے ہی اہل سنت میں بزرگان کا ایک حد سے زیادہ احترام کیا جاتا ہے،[4] اور بزرگان (اولیاء) آٹھویں صدی کا خدا کا منتخب کردہ ایک گروہ سمجھا جاتا تھا جو کرامت دکھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔[5][5] سنی-اسلامی اعتقاد کے مطابق اولیاء کئی کرامات (کرامت الاولیاء) رکھتے تھے۔[6]

بدھ مت ترمیم

تھیرواد اور مہایان روایات میں ارہت اور ارہنتوں کو خصوصی احترام حاصل ہے، اس کے علاوہ بودھی ستو، دوسرے بدھ یا سنگھ (بدھ مجلس) کے معروف ارکان کو بھی بزرگ سمجھا جاتا ہے۔ تبتی بدھ مت میں تلکوؤں (ازسرنو تجسم برائے اشخاص متوفی کا نمایاں پيشہ ور طبيب) کو دنیا پر ایک حیات بزرگ سمجھا جاتا ہے۔

سکھ مت ترمیم

شمالی بھارتی مذاہب خاص کر سکھ مت میں ایک بزرگ کے لیے سنت یا بھگت کا تصور ہے۔ اصطلاح سنت (سینٹ کی ایک شکل) جو اب بھی سکھوں اور متعلقہ اسماج (ہندوؤں) میں رائج ہے۔[7]

مسیحیت ترمیم

 
مقدس سیبسٹین کا انعام السیو وسکونٹی کی مصوری، تقریباً 1898ء (ایک مسیحی مقدس کی تصویر)

مسیحیت میں غیر معمولی برگزیدگی کی حامل شخصیت جس کا انتقال ہو چکا ہو اور بعض مسیحی کلیسیاؤں میں تسلیم کیا جاتا ہو کہ اسے جنت میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اور عہد نامہ جدید میں مقدس کو یسوع مسیح کا پیروکار بتایا گیا ہے۔

کاتھولک کلیسیا ترمیم

کاتھولک کلیسیا کے مطابق، ایک ”مقدس“ شخص وہ ہوتا ہے جو جنت میں ہے، خواہ وہ زمین پر تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ خطاب ”مقدس“ ایک ایسے فرد کو ظاہر کرتا ہے جو رسمی طور پر منور کیا گیا ہو، یہ سرکاری و مستند طور پر ایک مقدس ہوتا ہے، جو کلیسیا کے مطابق جنت کی بادشاہت کی چابیوں کا حق دار ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ جنت میں سمجھا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے افراد ہیں جن کو رسمی طور پر درجہ مقدس دیا گیا اور نہ ہی ”مقدس“ کا کہا گیا ہو، لیکن پھر بھی ایسے افراد کی پارسائی کی وجہ سے ان کے متعلق کلیسیا کا ایمان ہوتا ہے کہ وہ جنت میں ہیں۔[8] بعض اوقات لفظ ”مقدس (سینٹ)“ حیات مسیحیوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔[9]

قداست کے مراحل ترمیم

رسمی قداست ایک طویل عمل، جس میں اکثر سال اور یہاں تک کہ صدیاں لگ جاتی ہیں۔[10]

انگلیکانیت ترمیم

انگلیکانیت میں اصطلاح "مقدس"، قَدَّسَ۔ (پاک کرنا)، بے تقصیر، بے خطا، بے قصور، بے گناہ اور پاک یا پوتر کیے گئے افراد کے لیے کہا جاتا ہے۔ تاہم دسویں صدی سے، کلیسیا نے ”مقدس“ کا رتبہ اُن افراد کے لیے مختص کر دیا جو مسیحی خدمات اور اصلاح میں اعلیٰ درجہ رکھتے تھے۔ جب کلیسیائے انگلستان، کاتھولک کلیسیا کے ساتھ اتحاد میں تھا تو کئی مقدسین بنائے گئے۔ دسویں صدی سے قبل ان شہیدوں اور معترفین کو تسلیم کیا گیا اور سولہویں صدی میں رومن کیتھولک کے ساتھ اتحاد کے خاتمہ کے بعد عام طور پر انھیں اب بھی "مقدس" سمجھا جاتا ہے۔[11]

مشرقی راسخ الاعتقادی ترمیم

مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا میں بھی کاتھولک کلیسیا کی طرح ہر وہ شخص ایک مقدس ہے جو جنت میں ہے، خواہ وہ زمین پر تسلیم کیا جائے یا نہیں۔[12] کلیسیا کے مطابق آدم اور حوا، موسیٰ، دیگر انبیاء سوائے فرشتوں اور مُقرب فرشتوں کے لیے ”مقدس“ کا خطاب ہے۔ راسخ الاعتقاد کا ایمان ہے کہ خدا اپنے مقدسین کو اُن کی کرامات کے ذریعے منظر عام پر لاتا ہے۔[12] مقدسین کو عام طور پر مقامی برادری ہی تسلیم کرتی ہے، اکثر وہ لوگ جو اُن سے براہ راست واقف ہوں۔ جیسے جیسے اُن کی شہرت بڑھتی جاتی ہے تو اُن کو اکثر کلیسیائی سطح پر بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے۔[12][13]

اورینٹل راسخ الاعتقادی ترمیم

اورینٹل راسخ الاعتقاد کلیسیا ‒ آرمینیائی رسولی کلیسیا، اسکندریہ کا قبطی راسخ الاعتقاد کلیسیا، توحیدی کلیسیا، مالنکارا راسخ الاعتقاد سریانی کلیسیا اور سریانی راسخ الاعتقاد کلیسیا ‒ ہر ایک کلیسیا میں ایک منفرد درجۂ مقدس کے طریقہ کار کی پیروی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اسکندریہ کا قبطی راسخ الاعتقاد کلیسیا میں ممکنہ مقدس کے امیدوار شخص کا فیصلہ اُس کی وفات کے 50 سالوں بعد کیا جاتا ہے۔

پروٹسٹنٹ ترمیم

پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں میں لفظ ”مقدس“ سے مراد ہر وہ ایک شخص ہے جو مسیحی ہو۔ یہ استعمال عہد نامہ جدید میں پولس نے متعدد جگہ کیا ہے۔[14] اس لحاظ سے ہر وہ جو مسیح کا بدن (مسیحی ہونے کا دعویٰ) ہے وہ ایک ”مُقدس“ ہے کیونکہ اُس کا تعلق یسوع ناصری سے ہے۔

لوتھریت ترمیم

لوتھری کلیسیا میں تمام مسیحیوں (چاہے وہ دنیا پر یا بہشت میں ہوں) کو مقدس کہا جاتا ہے۔ تاہم، کلیسیا اب بھی مخصوص مقدسین کو تسلیم اور رتبہ دیا جاتا ہے، بشمول کاتھولک کلیسیا کی جانب سے تسلیم کیے گئے مقدسین بھی۔ اعتراف اوگسبرگ[15] کے مطابق اصطلاح "مقدس" کاتھولک کلیسیا روش میں صرف اُس صورت میں استعمال کی جاتی ہے، جب کسی شخص کو غیر معمولی فضل حاصل ہوتا ہے یا وہ پختہ ایمان کا مالک ہوتا ہے اور جن کے اچھے کام کسی مسیحی کے لیے ایک مثال بنتے ہیں۔ روایتی لوتھر عقیدے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مقدسین کی دعاؤں کو ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ نجات کے ثالث نہیں ہیں۔[16][17] مگر لوتھری اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مقدسین کی دعا عام طور مسیحی کلیسیا کے لیے ہے۔[18]

میتھوڈسٹ ترمیم

جبکہ تمام میتھوڈسٹ مقدسین کے لیے سرپرستی یا تبجیل کا عمل نہیں کرتے، بلکہ ان کے لیے ادب و احترام کا جذبہ رکھتے ہیں۔ میتھوڈسٹ تمام مسیحیوں کو مقدس کہتے ہیں، مگر اصطلاح خصوصاً بائبلی شخصیات، رہنماؤں اور شہداء برائے ایمان کے لیے رائج ہے۔

مقدسین آخری ایام ترمیم

مقدسین کے بارے میں کلیسیائے یسوع مسیح برائے مقدسین آخری ایام کے عقائد اسی طرح ہیں لیکن پروٹسٹنٹ روایت سے زرا مختلف ہیں۔ نئے عہد نامے میں تمام وہ لوگ مقدسین ہیں جو مسیحی عہد برائے بپتسمہ کے اندر داخل ہو گئے ہوں، مگر ان کے یقین کے مطابق ”آخری ایام“ سے مراد ہی یہ ہے کہ مسیح کی آمد ثانی سے پہلے کے تمام اراکین ”آخری ایام“ کے مقدسین ہیں۔[19][20]

ہندومت ترمیم

ہندو سنت وہ ہوتے ہیں جن کو ہندوؤں نے اُن کی عظیم تقدیس اور پارسائی کے درجے کی وجہ سے تسلیم کیا ہوتا ہے۔ ہندومت میں سنت کے متعلق شاعری و قصص کے لیے ایک طویل روایت ہے۔ ہندومت میں کسی کو سنت بنانے کے لیے کوئی رسمی طریقہ کار موجود نہیں، لیکن عام ہندوؤں و پیروکاروں میں سے کئی مرد و خواتین سنت کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں۔ زیادہ تر ہندو سنتوں نے دنیا کو ترک کیا، ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے جن میں گرو، سادھو، رشی، سوامی اور دیگر نام شامل ہیں۔[21] مسیحیت کی طرح ہندومت میں موت کے بعد کسی شخص کو بزرگ یا سنت کا درجہ نہیں دیا جاتا ہے۔[22]

یہودیت ترمیم

یہودیت میں اصطلاح صدیق سے مراد "راستباز" ہوتا ہے۔ یہودیت میں بزرگان کو اس خطاب سے نوازا جاتا ہے جبکہ خاتون بزرگ کو صدیقہ (راستباز عورت) کہا جاتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Douglas Wilson، Ty Fischer (30 جون 2005)۔ Omnibus II: Church Fathers Through the Reformation۔ Veritas Press۔ صفحہ: 101۔ ISBN 978-1-932168-44-0۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جون 2017۔ The word 'hallow' means 'saint,' in that 'hallow' is just an alternative form of the word 'holy' ('hallowed be Thy name')۔ 
  2. Daniel Diehl، Mark Donnelly (1 مئی 2001)۔ Medieval Celebrations۔ Stackpole Books۔ صفحہ: 13۔ ISBN 978-0-8117-2866-9۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جون 2017۔ The word hallow was simply another word for saint. 
  3. Lindsay Jones، مدیر (2005)۔ Thomson Gale Encyclopedia of Religion (بزبان تاجک)۔ Sainthood (Second ایڈیشن)۔ Macmillan Reference USA۔ صفحہ: 8033 
  4. ^ ا ب See John Renard, Friends of God: Islamic Images of Piety, Commitment, and Servanthood (Berkeley: University of California Press, 2008); Idem.، Tales of God Friends: Islamic Hagiography in Translation (Berkeley: University of California Press, 2009)
  5. ^ ا ب Radtke, B.، “Saint”، in: Encyclopaedia of the Qurʾān, General Editor: Jane Dammen McAuliffe, Georgetown University, Washington DC.
  6. Jonathan A.C. Brown, "Faithful Dissenters: Sunni Skepticism about the Miracles of Saints," Journal of Sufi Studies 1 (2012)، p. 123
  7. Dwyer, Graham (2002)۔ The Divine and the Demonic: Supernatural Affliction and Its Treatment in North India۔ New York: RoutledgeCurzon۔ صفحہ: 25 
  8. What is a saint? آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ catholic-pages.com (Error: unknown archive URL) Vatican Information Service, 29 جولائی 1997
  9. "Catechism of the Catholic Church (Second Edition)"۔ Scborromeo.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2013 
  10. Table of the Canonizations during the Pontificate of His Holiness John Paul II on Vatican.va
  11. The Oxford Dictionary of the Christian Church by F. L. Cross (Editor)، E. A. Livingstone (Editor) Oxford University Press, USA; 3 edition p.1444-1445 (مارچ 13, 1997)
  12. ^ ا ب پ George Bebis (n.d.)۔ "The Lives of the Saints"۔ Greek Orthodox Archdiocese of America۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مئی 2016 
  13. Frawley J The Glorification of the Saints in the Orthodox Church at Orthodox Church in America, Syosset, New York
  14. "Beloved of God, Called to Be Saints"، New Testament Gospel Doctrine Teacher's Manual۔ The Church of Jesus Christ of Latter-day Saints, Salt Lake City, Utah. p. 150.
  15. A Confession of Faith Presented in Augsburg by certain Princes and Cities to His Imperial Majesty Charles V in the Year 1530
  16. Apology of the Augsburg Confession XXI 14-30
  17. Smalcald Articles-II 25
  18. Apology of the Augsburg Confession XXI 9
  19. Joseph Jr Smith۔ "Pearl Of Great Price"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2017 
  20. M. Russell Ballard, "Faith, Family, Facts, and Fruits"، Ensign، Nov 2007, 25–27
  21. Robin Rinehart (1 جنوری 2004)۔ Contemporary Hinduism: Ritual, Culture, and Practice۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 87–90۔ ISBN 978-1-57607-905-8۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 جون 2013 
  22. Swami Bhaskarananda (2002)۔ The Essentials of Hinduism۔ Seattle: The Vedanta Society of Western Washington۔ صفحہ: 12۔ ISBN 1-884852-04-1