خواجہ محمود الخیر انجیر فغنوی سلسلہ نقشبندیہ کے عظیم مشائخ میں شمار ہوتے ہیں۔انھیں فغنوی بخاری بھی کہتے ہیں

محمود انجیر فغنوی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 19 اگست 1231ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بخارا  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 30 مئی 1317ء (86 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بخارا  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ محمد عارف ریوگری  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان،  نجارت  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جائے ولادت ترمیم

نفحات الانس میں آپ کا نام محمود الخیر فغنوی ہے آپ کی ولادت شہر بخارا سے نو میل کے فاصلہ پر مؤرخہ18 شوال 628ھ مطابق 1230ء انجیرفغنہ نامی قصبہ میں ہوئی۔ یہ بخارا کے علاقوں میں سے وابکنہ (بخارا سے چند میل دور) کا ایک گاؤں ہے۔

بیعت و خلافت ترمیم

آپ خواجہ عارف کے تمام اصحاب میں افضل و اکمل اور خلافت میں سب سے ممتاز تھے۔ ذریعہ معاش گل کاری تھا۔ آپ کا شمارخواجہ عارف ریوگری کے اعظم خلفاء میں ہوتا ہے۔ اسی بنا پر عارف ریوگری کے وصال پر آپ کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا۔ اور آپ نے بھی دین متین کی مثالی اشاعت کی صورت میں نیابت کا حق ادا کیا۔

وفات ترمیم

آپ کا سن وفات17 ربیع الاول 717ھ مطابق 1317ء ہے آپ کا مزار وابکنہ بخارا میں ہے۔[1][2]خواجہ علی رامتینی فرماتے ہیں کہ ایک درویش نے حضرت خضر کی زیارت کی اور پوچھا کہ اس زمانہ کے مشائخ میں کون ایسا بزرگ ہے جو استقامت کا درجہ رکھتا ہوتاکہ دست ارادت سے اس کا دامن پکڑوں اور اس کی پیروی کروں تو حضرت خضر نے فرمایا ان صفات کے بزرگ خواجہ محمود انجیر فغنوی ہیں۔[3]

ذکر بالجہر ترمیم

مشائخ نقشبند میں سے آپ نے بر بنائے مصلحت تقاضائے زمانہ ذکر بالجہر یعنی بلند آواز سے ذکر کرنا جو طریقہ نقشبندیہ میں مروج نہیں ہے، شروع کیا۔ جسے نامناسب خیال کرتے ہوئے اس وقت کے عظیم محدث اور فقیہ شمس الائمہ حلوانی نے حافظ الدین محدث کی قیادت میں علما کرام کا ایک وفدمحمود انجیرفغنوی کی خدمت میں بھیجا اور انھوں نے ذکر بالجہر شروع کرانے کی وجہ دریافت کی۔ تو آپ نے فرمایا ”تاکہ سویا ہوا بیدار ہو اور غفلت سے ہوشیار ہو، راہ راست پر آجائے، شریعت و طریقت پر استقامت کرے اور توبہ و رجوع الی اللہ کی رغبت کرے“۔ مولانا حافظ الدین محدث نے عرض کیا حضور آپ کی نیت درست ہے لیکن اس کے لیے آپ کوئی حد مقرر فرمادیں تاکہ حقیقت مجاز سے اور آشنا بیگانہ سے ممتاز ہو جائے۔ اس پر انجیر فغنوی نے ارشاد فرمایا “ذکر جہر اس شخص کے لیے جائز ہے جس کی زبان جھوٹ و غیبت سے پاک ہو، جس کا حلق حرام و شبہ سے اور دل ریاء وسوسہ سے یعنی لوگوں کے دکھاوے اور سنانے سے اور اس کا دماغ غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے پاک ہو ”۔[4]

کرامات ترمیم

ایک روز خواجہ علی رامتینی خواجہ محمود الخیر فغنوی کے باقی اصحاب کے ساتھ موضع رامتین میں مشغولِ ذکر تھے۔ کیا دیکھتے ہین کہ ایک بہت بڑا سفید پرندہ اُن کے اوپر اڑا چلا آتا ہے۔ جب وہ پرندہ اُن کے عین سرپر آیا تو بزبانِ فصیح بولا ’’اے علی مرد بن اور اپنے کام میں مشغول رہ‘‘۔ یہ بات سن کر تمام اہل مجلس پر ایک کیفیت طاری ہو گئی اور بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش میں آئے تو حضرت خواجہ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ تھا؟ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ وہ حضرت خواجہ محمود فغنوی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ طاقت اور قوت بخشی ہے کہ وہ جس مخلوق کے قالب میں چاہیں متشکل ہوجائیں اور وہ ہمیشہ اس مقام پر پرواز جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کلیم اللہ سے کئی ہزار کلمات فرمائے۔ اُس وقت خواجہ و ہتقان قلتی ر بروایتِ دیگر خواجہ دہقان قلبی (خلیفہ اول خواجہ اولیائے کبیر ) کا وقتِ آخر تھا۔ انھوں نے دعا کی تھی یا اللہ! میرے اس آخری وقت میری مدد کے لیے اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیج تاکہ اُس کی برکت سے اپنا ایمان سلامت لے جاؤں، چنانچہ بادشاہِ ربانی حضرت خواجہ محمود فغنوی کی روح مبارک خواجہ وہقان کے پاس پہنچی تھی۔ ان کا خاتمہ بالخیر ہو گیا اور اب واپس تشریف لے گئے ہیں چونکہ انھیں میرے حال پر فرط محبت و عنایت تھی لہٰذا اس راہ سے گزرتے ہوئے مجھ پر کرم فرمایا۔ واضح رہے کہ حیاتِ دنیوی میں بعض بندگان خدا کو غائیتِ صفا و لطافت سے بغائیت ایزدی اس بات پر قدرت ہوتی ہے کہ جسمِ ظاہری کی قید کے باوجود مختلف بدن تبدیل کرسکیں چونکہ موت کے بعد جبکہ یہ قید رفع ہوجاتی ہے اور طائرِ روح اس قفس سے آزاد ہوجاتا ہے لہٰذا وہدوسرے بدن میں تبدیل ہونے پر بطریق اولیٰ قادر ہیں۔ اسے بروز کہتے ہیں۔ بروز و تناسخ میں فرق ہے۔ اہل تناسخ عموم و لزوم کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی روح نفیس ہو یا خسیس، مسلمان ہو یا کافر، انسان ہو یا حیوان کسی بدن سے جدا نہیں ہوتی جب تک کہ کوئی دوسرا بدن اُس کے واسطے تیار نہ ہوتا کہ پہلے بدن سے نکلتے ہی دوسرے میں چلی جائے۔ بخلاف اہل بروز کے کہ اُن کے نزدیک نہ عموم ہے نہ لزوم یعنی اس طائفہ کے نزدیک یہ کاملین سے خاص ہے اور وہ بھی برجلیل لزوم نہیں۔ کیونکہ موت کے بعد کبھی مصلحت کی بنا پر دوسرے بدن میں ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ بدن اصلی دینوی کی مثل ہو یا نہ ہو اور صورتِ بشری میں ہو یا نہ ہو۔ اور پھر اتمامِ مطلوب کے بعد پس پردہ غائب ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ بروز و تناسخ میں فرق نہیں کرتے وہ اولیائے کرام پر بے جا اعتراض اور طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ [5]

حوالہ جات ترمیم

  1. تذکرہ مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ113،مشتاق بک کارنر لاہور
  2. تاریخ مشائخِ نقشبند: صفحہ134/ علامہ محمد صادق قصوری: زاویہ پبلیکیشنز لاہور
  3. حضرات القدس، بدر الدین سرہندی، جلد اول صفحہ141،مکتبہ نعمانیہ سیالکوٹ
  4. جلوہ گاہِ دوست
  5. تاریخ مشائخِ نقشبند: صفحہ133/ علامہ محمد صادق قصوری: زاویہ پبلیکیشنز لاہور