دادی لیلا جن کا پیدائشی نام لیلاوتی ہرچندانی تھا 20 دسمبر 1916 - 14 ستمبر 2017؛ انھیں کبھی کبھی دادی لیلن کے نام سے بھی پکارا جاتا ہھا ان کی وجہ شہرت ایک پاکستانی ماہر تعلیم، موسیقی کی استاد، مخیر شخصیت اور سندھ کی صوبائی اسمبلی کی سابق رکن کے طور پر تھی جو خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوششوں کے لیے مشہور تھیں۔ انھوں نے سندھی ثقافت اور ادب میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ [2] تعلیم کے میدان میں ان کی شراکت کے لیے انھیں تمغہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا، [3] دادی لیلا نے 1975ء تک حیدرآباد میں اسکولوں کی ایڈیشنل ڈائریکٹر اور گرل گائیڈز کے لیے ڈپٹی اور صوبائی کمشنر کے طور پر کام کیا۔ بعد ازاں سنہ1985 میں انھیں خواتین کی مخصوص نشست پر صوبائی اسمبلی کی رکن (ایم پی اے) کے طور پر مقرر کیا گیا۔ [2] وہ سندھ کی سب سے قدیم زندہ رہنے والی امل خاتون تھیں۔ [4]

دادی لیلا

معلومات شخصیت
پیدائش 20 دسمبر 1916(1916-12-20)
بمبئی پریذیڈنسی، برطانوی ہندوستان
وفات 14 ستمبر 2017(2017-90-14) (عمر  100 سال)
حیدرآباد، سندھ، پاکستان
شریک حیات تلسی داس ہرچندانی
عملی زندگی
پیشہ
  • ماہر تعلیم
  • موسیقی استاد
  • انسان دوست
  • اسکالر
دور فعالیت 1940/2017
وجہ شہرت خواتین کی تعلیم کی وکالت
اعزازات
تمغائے امتیاز (2016)[1]

وہ 20 دسمبر 1916 کو دیوان ہوچند وادھوانی کے ہاں بمبئی پریذیڈنسی، برطانوی ہندوستان (جدید سندھ میں) میں پیدا ہوئیں۔ اس کی والدہ کے انتقال کے بعد، اس کے دو چھوٹے بھائی ہندوستان ہجرت کر گئے اور وہ پاکستان میں اکیلی رہ گئی جہاں انھوں نے اپنی زندگی گزاری۔ سنہ1954 میں، انھوں نے سول سرجن تلسی داس ہرچندانی سے شادی کی، جس سے ان کا ایک بیٹا ہے۔ [2] اس عظیم خاتون نے اپنی ابتدائی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کی۔اور نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد سے میٹرک کیا اور سنہ1940 میں ڈی جے گورنمنٹ کالج (جدید دور کے گورنمنٹ کالی موری کالج) سے گریجویشن کی۔ اور اپنی وفات کے وقت وہ کالج کی سب سے قدیم زندہ بچ جانے والی طالبہ کا اعزاز رکھتی تھیں۔ [5]

دادی لیلا نے سنہ1940 میں حیدرآباد کے ٹیچرس ٹریننگ کالج میں میوزک ٹیچر مقرر ہونے کے بعد اپنے پیشہ ورانہ میوزک کیریئر کا آغاز کیا۔ سنہ1975 میں اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل، وہ تعلیم اور سندھی حقوق نسواں کے علاوہ موسیقی اور تھیٹر میں حصہ لیتی رہیں۔ سنہ1936 میں، انھوں نے آل انڈیا میوزک مقابلے میں حصہ لیا، جس کی میزبانی ڈی جے گورنمنٹ کالج حیدرآباد نے کی تھی۔ دادی لیلا نے ایک بھجن گایا، جس کی وجہ سے وہ پہلی پوزیشن کے ساتھ مقابلہ جیت گئی۔ [5] ایک گلوکارہ کے طور پر انھوں نے ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا۔ [2] انھوں نے وزارت مذہبی اور اقلیتی امور کی اقلیتی امور کی رکن اور لیڈیز کلب حیدرآباد کی چیئرپرسن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ [6] وہ گرلز اسکول کی انسپکٹر، میرا گرلز ہائی اسکول ہیر آباد، حیدرآباد کی پرنسپل اور روٹری کلب کی رکن بھی مقرر ہوئیں۔ [3] انھوں نے سینئر سٹیزنز ایسوسی ایشن کی نائب صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ [7]

وہ دائمی بیماری میں مبتلا تھیں اور 14 ستمبر 2017 کو حیدرآباد، پاکستان میں انتقال کر گئیں۔ ان کی تدفین بدین کے کریمیشن گراؤنڈ میں کی گئی۔ [6]

حوالہ جات ترمیم

  1. "Call to follow Quaid's motto"۔ The Nation۔ 2017-08-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2021 
  2. ^ ا ب پ ت Irfan Ali Ansari (January 17, 2016)۔ "Centenary: The soul of Sindh"۔ DAWN.COM 
  3. ^ ا ب "Renowned Educationist Dadi Leela Passes Away"۔ UrduPoint 
  4. "A Memoir: My Grandmother's Flight From Karachi to Bombay in 1947"۔ The Wire۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2021 
  5. ^ ا ب "Sindh's crusader for girls' education Dadi Leelan passes away"۔ The Express Tribune۔ 2017-09-15۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2021 
  6. ^ ا ب "Renowned educationist Dadi Leela passes away | Pakistan Today"۔ archive.pakistantoday.com.pk۔ 05 نومبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2023 
  7. Parvez Jabri (2012-08-13)۔ "Dadi Leela reminds compatriots of moto behind Pakistan's creation"۔ Brecorder۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2021