سندھی ادب

پاکستان کے صوبے سندھ کی زبان کا ادب

سندھی ادب کی ابتدا منصوره دور میں شاعری کی صنف سے ہوئی۔ موجودہ سندھی رسم الخط کی شروعات اروڑ دور سے ہوئی۔[1] اس سے پہلے سندھی ادب کو ٺٽوي، اروڙي، برہمن آبادی، عربی اور دیگر رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔[2] منصورہ دور کو سندھی ادب کا ابتدائی دور مانا جاتا ہے۔ سندھی ادب میں کہانی، مضمون نويسی، نثر نویسی اور عروض کی صنفوں کی ابتدا اروڑ دور میں ہوئی۔[3] سومره دور کی ابتدائی صنفیں رومانی و جنگی داستانوں پر مبنی تھیں۔[4]

سندھی میں شایع ہونے والی کتابیں

سندھ پر عرب حملے سے پہلے یہاں پر لوک گیت گانے کا رواج تھا۔ جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کی۔ تب سندھ کے کچھ قبیلوں نے گیتوں سے ان کا استقبال کیا۔[4] سندھی شاعروں کا ذکر عرب دور میں بھی بہت ملتا ہے لیکن وہ خالص عربی زبان میں شاعری کرتے تھے۔[5] کچھ سندھی محقق شاعری کی ایک بند "ارہ برہ کنکرہ، کراکرہ مندرہ" کو منصوره دور کی سندھی شاعری مانتے ہیں، لیکں یہ محض قیاس آرائی ہے۔[6] سندھی ادب کی مختصر تاریخ پر عطیہ داؤد کی کتاب میں سندھی ادب کا کلاسیکی دور سے قیام پاکستان اور اکیسویں صدی تک سندھی ادب کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

ابتدائی تاریخ

ترمیم

سندھی ادب کی تاریخ قدیم عرب کے زمانے سے جا ملتی ہے۔ سندھی ہی پہلی زبان تھی جس میں آٹھویں صدی عیسوی میں قرآن مجید کا ترجمہ ہوا۔ بغداد میں اس کے بھی ثبوت ملے ہیں کہ سندھی شاعر اپنی شاعری مسلمانوں کی خلافت سے پہلے وہاں پر راجاؤں کے دربار میں پڑھتے تھے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں علم فلکیات، طب اور تاریخ پر کتابیں لکھی گئیں۔ کچھ عرصہ بعد پیر نور الدین نے صوفی شاعری کہی۔ اس کے بعد پیر سبزواری ملتانی، پیر شہاب الدین اور پیر صدر الدین جیسے مشہور سندھی زبان کے شعرا گذرے۔ بابا فرید شکر گنج کے بھی کچھ سندھی اشعار ملتے ہیں۔

شاعری کے بارے میں ادبی تاریخ میں سندھی میں سب سے اولین حوالہ اچاریہ ادیوتن سوری کی آٹھویں صدی میں لکھی کی کتاب کولبیا مالا کتھا میں پایا جاتا ہے جس میں انہوں نے سندھی شاعروں اور ان کی زبان کی تعریف کی ہے۔ گیارھویں صدی میں سندھ کے مشہور شاعر سمنگ چارن کے گیت اور دوہے ملتے ہیں جو صاف سندھی ہیں۔ سومرا دور میں گیارھویں اور بارھویں صدی کے بعد بھٹ اور چارن گلی کوچوں، جنگلوں بیابانوں میں گھومتے ہوئے سندھی دوہے اور گانے گاتے تھے۔

سومرہ دور

ترمیم

سومروں کے دور میں سندھ کے قاضی قاضن، شاہ عبدالکریم بلڑی وارو، شاہ لطف اللہ قادری، شاہ عنایت، مخدوم نوح، میر محمد معصوم بکھری جیسے مشہور اور عظیم شاعر گذرے ہیں جنھوں نے صوفیانہ شاعری سے عوام کے مذہبی شعور کو بیدار کیا۔ اس کے بعد سمہ اور ترخان کے زمانے میں بھی اولیاء اللہ نے اسی طرح سے عوام میں مذہب بیداری کا اپنا فرض نبھایا۔

شاہ عبد اللطیف بھٹائی (1689ء - 1752ء) سندھی زبان کے عظیم شاعر گذرے ہیں۔ شاہ لطیف نے سندھی زبان میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔

موجودہ دور

ترمیم

مذکورہ بالا شخصیات کی ادبی تخلیقات کی بدولت سندھی زبان نے انتہائی ترقی کی اور دنیا کی اہم زبانوں میں شمار ہونے لگی۔ شیخ ایاز، عمر بن محمد داؤد پوتہ، علامہ آئی آئی قاضی، حسام الدین راشدی، نبی بخش خان بلوچ، محمد ابراہیم جویو، استاد بخاری اور متعدد ادبا اور شعرا نے اپنے اپنے طرز پر سندھی زبان کی بیش بہا خدمات انجام دی۔

بیسویں صدی میں سندھی ادب

ترمیم

بیسویں صدی میں سندھی ادب عالمی ادب میں سوشلزم اور کمیونسٹ انقلابی تحریکوں اور روس کے کمیونسٹ انقلاب نے سندھی ادب پر گہرا اثر ڈالا۔ سندھی ادب سنگت کو انجمن ترقی پسند مصنفین کا تسلسل بھی کہا جاتا ہے۔ جدیدیت ، وجودیت ، فراریت، تجریدیت کے مضامین یورپی ادب سے سندھی ادب میں بیسویں صدی کے لگ بھگ ہی آئے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ادب سندھ از غلام حیدر گبول۔ سندھی ادبی سنگت، جروار شاخ. سال 2014
  2. ڈاکٹر عنایت حسیں لغاری (15 December 2015)، سندھی ادب کی ترقی میں صحافت کا کردار (بزبان سندھی)، کارونجھر (تحقیقی جرنل) 
  3. سندھ کی تاریخ از فقیر محمد سندھی۔ قلمکار پبلیکیشں لاڑکانہ، سال 2013
  4. ^ ا ب احمد سومرو، سومرہ دور میں سندھی شاعری. کارونجھر تحقیقی جرنل, سندھی شبعہ، وفاقی جامعۂ اردو کراچی
  5. جنت السندھ از رحیمداد خاں مولائی شیدائی ص۔ 166۔ سندھی ادبی بورڈ جامشورو، سال 1993
  6. طبقاتی فکر کا سندھی ادب پر اثر از ڈاکٹر فیض جونیجو۔ سندھ سدھار پبلیشر سال 2015