( درگاہ شریف پیر جھنڈو)  سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ المعروف پیر سائیں سنت دھانی والے نے ہجرت کرکے اس گاؤں کی بنیاد رکھی تھی۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں تعلقہ نیو سعید آباد۔  یہ گاؤں تاریخی طور پر اپنی اسلامی تحریک کے لیے جانا جاتا ہے ، جو اس خطے میں اسلامی مذہبی اور تعلیمی خدمات کے لیے ایک قائم اسلامی انسٹی ٹیوٹ ہوا کرتا تھا۔  درگاہ شریف پیر جھنڈو کا راشدی خاندان پیر سائیں سید محمد راشد شاہ پیرسائیں روزے دانی کے نام سے طرف منسوب ہے۔ ان کا نسب چھتیس پشتوں کے بعد امیر المؤمنین سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے،

موجودہ روحانی پیشوا اور درگاہ شریف پیر جھنڈو خاندان کے سربراہ پیر سائیں جھنڈی وڑو سید محمد یاسین شاہ راشدی ہیں (7 ویں) صاحب ال علم - ایس بی کے نام سے جانے جاتے ہیں) سید محب اللہ شاہ راشدی نے اس کی پرورش میں حصہ لیا ہے  اسلامی تعلیم اور روحانیت کو مختلف اسلامی اسکالرز کی تائید کے ساتھ جو سید بدیع الدین شاہ راشدی کے نام سے جانا جاتا ہے

سندھ کا بہت مشہور راشدی خاندان جو سید محمد راشد روضے دھنی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے۔ ان کا نسب چھتیس پشتوں کے بعد امیر المؤمنین سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے، ان کے جد اعلی سید علی مکی خلافت بنو عباس کے زمانے میں اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کی غرض سے سندھ میں وارد ہوئے تھے۔ پیر جھنڈو کی وجہ تسمیہ سید محمد یاسین شاہ راشدی رحمہ اللہ صاحب العَلَمُ الأول کی طرف منسوب ہے۔ یہ سید محمد راشد روضے دھنی کے دوسرے نمبر  کے فرزند تھے، حضرت روضے دھنی رحمہ اللہ نے ان کو اعلاء کلمۃ اللہ، جہاد فی سبیل اللہ اور اسلام کی سربلندی کے لیے ایک عَلَم عطا فرمایا تھا، اس وجہ سے ان کو پیر جھنڈو (صاحب العَلَم الأول ) کہا جاتا تھا۔ یہ چھوٹا گاؤں بھی اسی نسبت سے مشہور ہے۔ یہ جھنڈا، ان کے خاندان میں محفوظ ہے۔ یہ خاندان علمی ہے اس وجہ سے کتابیں اہل علم کا ورثہ ہیں۔

حضرت سید محمد یاسین صاحب العلم الاوّل کے حصے میں بھی کچھ کتابیں آئی تھیں، جس کی حفاظت ان کے جانشین سید رشید الدین راشدی صاحب نے کی، لیکن ترقی اور عروج سید رشد اللہ شاہ راشدی صاحب رح نے بخشا، انھوں نے 1319 میں مدرسہ دار الارشاد کی بنیاد رکھی اور ساتھ میں عظیم لائبریری کی بھی داغ بیل ڈالی۔ مدرسہ دار الارشاد کی بنیاد عظیم مقاصد کے خاطر رکھی گئی تھی، پیر رشد اللہ صاحب نے امام انقلاب مولانا عبيد اللہ سندھی کے مشورے سے اس مدرسہ کا آغاز فرمایا اور مولانا سندھی صاحب امروٹ شریف کو الوداع کہہ کر سید رشد اللہ راشدی صاحب کی دعوت پر پیر جھنڈو تشریف لائے اور عظیم مقاصد کے حصول کے لیے کام شروع کیا، یہ ادارہ محض رسمی ادارہ نہیں تھا بلکہ اپنے وجود میں ایک تحریک اور انجمن تھا۔ ان کے مقاصد میں اہم مقصد یہ تھا کہ حالات حاضرہ کے ہم آہنگ ایسے افراد پیدا کرنا جو معاشرے کی ہر ضرورت پوری کرسکیں اور ادارے میں اپنا کردار ادا کرسکیں، لیکن “ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہو”۔

راشدی خاندان کاسلسلہ نسب سید محمد راشد شاہ بن سید محمد بقا شاہ اور ان سے سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے۔ اس طرح آپ حسینی سیدہیں۔

پیر جھنڈو کے سجادہ نشین۔

ترمیم

1. سید محمد یاسین شاہ راشدی

2 سید فضل اللہ شاہ راشدی    

3 سید رشید الدین شاہ راشدی  

4 سید رشداللہ شاہ راشدی        

  5 سید احسان اللہ شاہ راشدی    

6 سید محب اللہ شاہ راشدی      

  7 سید محمد یاسین شاہ راشدی


پیر جھنڈو کی لائبریری۔

ترمیم

دوسری جانب ان کی لائبریری کا چرچا بھی دنیا بھر میں تھا، ایشیا کی دوسری بڑی لائبریری تھی۔ حیدرآباد دکن، لکھنؤ عرب دنیا سمیت بڑے جبال العلم حضرات یہاں استفادے کی غرض سے تشریف لاتے رہتے تھے۔

پیر رشداللہ شاہ راشدی صاحب کا کتب بینی اور کتابیں جمع کرنے کا شوق لائق تقلید اور قابل رشک تھا۔ ان کو جیسے ہی کسی کتاب کے بارے میں پتہ چلتا تھا تو یہ پہلے کتاب حاصل کرنے کی کوشش کرتے، اگر کتاب نہیں ملتی تو بہترین کاتب سے یہ کتاب نقل کرواکے اپنے مکتبے کی زینت بناتے، اس طرح پیر صاحب نے اپنے مکتبے میں ہزاروں نادر کتابیں اور مخطوطات جمع فرمائے۔

ایک مرتبہ سعودی عرب تشریف لے گئے تو امام شوکانی کی کتاب “ارشاد الفحول” خریدنا  چاہی ،تو مالک نے دوسو ریال قیمت لگائی۔ حالانکہ یہ کتاب چھپنے کے بعد دو روپے میں فروخت ہوتی تھی، پیر صاحب نے بغیر کسی چوں وچراں کے بھاری  قیمت ادا کرکے کتاب حاصل کی، پھر وہاں اسماء الرجال پر ایک کتاب پسند آئی تو قیمت معلوم کی تو مالک نے کہا کہ فی صفحہ ایک روپیہ لوں گا، جب اوراق گنے گئے تو سو صفحات پر مشتمل تھی تو فورا ً سو روپیہ ادا کرکے کتاب حاصل کی۔

اس عظیم لائبریری اور مدرسہ کے بارے میں محقق عالم دین مولانا غلام مصطفی قاسمی صاحب رقم طراز ہیں کہ “

پیر رشد اللہ صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے مفسر اور محدث تھے۔ آپ نے رجال طحاوی پر عربی میں ایک عالمانہ کتاب لکھی ہے، جس کو علما دیوبند نے دیوبند سے شائع کیا اور بڑے پائے کی کتاب مانی جاتی تھی۔ آپ نے 1319 میں ایک مدرسہ اور لائبریری کی بنیاد رکھی، یہ مدرسہ آگے چل کر سندھ میں دینی علوم کی عظیم درسگاہ ثابت ہوا، جہاں برصغیر کے نامور علما کرام، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری، مولانا اشرف تھانوی رحمھم اللہ اور دوسرے اکابر تشریف لاتے رہتے تھے۔ کتب خانہ کے لیے کتابیں جمع ہونا شروع ہوگئیں، دنیا کے عظیم عالم مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کی کتابیں بھی لاکر اس میں جمع کی گئیں۔ اس مکتبے کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ علما سندھ کی عربی، فارسی اور سندھی تصانیف کا یہاں بڑا ذخیرہ جمع ہے۔ مرکز دائرۃ المعارف حیدرآباد اور دیوبند کے بزرگ یہاں سے کتابیں نقل کرواتے تھے۔

جاری ہے۔

“ یہ کتب خانہ پیر جھنڈو شریف واقع ضلع مٹیاری میں ہے پیر صاحب نے یہ کتب خانہ چودھویں صدی ہجری کی ابتدا میں قائم کیا تھا ۔ انھوں نے اس کتب خانہ پر بے پناہ روپیہ خرچ کیا لندن کی لائبریری انڈیا آفس سے کتابوں کی فوٹو کاپیاں منگوائیں ۔ ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقلیں اپنے اخراجات پر کاتب بھیج کر کرائیں ۔ قدیم کتب خانے گرانما یہ سر مایہ سے خرید کر شامل کیے اور اس طرح اس کتب خانہ میں نوادرات کا ایک ذخیرہ جمع کیا ۔” (سہ ماہی “ الزبیر “( بہاول پور ) 1967ء: 202) سید رشد اللہ کی وفات کے بعد ان کا بیش قیمت کتب خانہ جو تقریباً 25 ہزار کتب پر مشتمل تھا ان کے دو نوں صاحبزادوں سید ضیاء الدین شاہ اور سید احسان اللہ شاہ میں برابر تقسیم ہو گیا۔پیر ضیاء الدین شاہ کے صاحبزادے پیر وہب اللہ شاہ نے اپنے حصے میں آنے والی کتابیں 1990ء میں کراچی نیشنل میوزیم کو فروخت کر دی تھیں ۔

اس کے بر عکس سید احسان اللہ شاہ کا کتب خانہ روز افزوں ترقی پزیر رہا۔انھیں کتابوں کی تلاش و جستجو کا شوق وراثت میں منتقل ہو ا تھا۔ان کے بعد ان کا کتب خانہ ان کے دونوں صاحبزادوں سید محب اللہ شاہ راشدی اور سید بدیع الدین شاہ راشدی میں تقسیم ہوا ۔ یہ دونوں ہی حامل علم و فضیلت تھے۔ کتابوں سے ان کے بے پناہ شغف نے دونوں حصوں کو عظیم الشان کتب خانے میں بدل دیا۔گو اب دونوں ہی اپنے خالق کے جوار رحمت میں جا چکے ہیں تاہم ان کا کتب خانہ آج بھی شائقین علم کے لیے استفادے کا اہم مر کز ہے۔ان کے اخلاف نے شائقین کتب کے لیے اپنے گراں قدر کتب خانے کے فیض کو عام کر رکھا ہے۔جز اہم اللہ تعالیٰ کتب خا نہ راشدی کے متعلق حافظ محمد نعیم صاحب (کراچی) کا ایک تفصیلی مضمون  ہفت روزہ الاعتصام ( لاہور)میں طباعت پزیر ہو چکا ہے ، یہ مضمون تین اقساط پر محتوی ہے اور نہایت قیمتی معلومات پر مشتمل ہے

سید ابو تراب رشد اللہ شاہ کے دو صاحبزادے تھے ، بڑے صاحبزادے سید ضیاء الدین شاہ 1304ھ میں پیدا ہو ئے انھوں نے علم کی تکمیل “ مدرسہ دار الرشاد “ میں کی، ان کے جلسہ فراغت میں کبار علما شریک ہو ئے محدث یمن شیخ حسین بن محسن یمانی نے جلسے کی صدارت کی ۔

سید ابو تراب رشد اللہ کے چھوٹے صاحبزادے سید احسان اللہ شاہ المعروف بہ پیر صاحب سنت والے 27 رجب 1313ھ میں پیدا ہو ئے۔ علم کی تکمیل مدرسہ دارالرشاد میں کی۔کتابوں کے شائق ہی نہیں بلکہ حریص تھے ۔ نادر قلمی کتابوں کے حصول میں ہر دم کوشاں رہتے ۔ محدث خطیب بغدای کی “تاریخ بغداد” خدیومصر کے  کتب خانہ سے بذریعہ فوٹو نقل کروائی تھی ، جس پر ایک سو پائونڈ خرچ ہو اتھا ۔(ملاحظہ ہو :  ہفت روزہ “اہل حدیث “ (امرتسر)  :16 مارچ 1928ء)

علوم دینیہ کے جامع اور احیائے سنن میں بہت زیادہ ساعی تھے۔علم رجا ل پر خاص نظر تھی ۔ بر صغیر سے باہر کے اہل علم سے بھی کتابوں کے سلسلے میں خط کتابت رہتی تھی ، سلطان ابن سعود سے بھی خاص تعلق تھا ۔ سید احسان اللہ نے صرف 45 بر س کی عمر میں 15 شعبان 1358ھ / 13 اکتوبر 1938ء کو وفات پائی۔علامہ سید سلیمان ندوی موصوف سے متعلق اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں :

“ علمی حلقوں میں یہ خبر غم و افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ پیر جھنڈا گوٹھ ضلع مٹیاری سندھ کے مشہور عالم پیر احسان اللہ شاہ جو قلمی کتابوں کے بڑے عاشق تھے ۔ چوالیس 44 برس کی عمر میں 13 اکتوبر 1938ء کو اس دنیا سے چل بسے۔ مرحوم حدیث و رجال کے بڑے عالم تھے۔ ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ مشرق و مغرب ،مصر و شام ، عرب و قسطنطنیہ کے کتب خانوں ان کے کاتب و ناسخ نئی نئی قلمی کتابوں نقل پر مامور رہتے تھے۔مرحوم ایک خانقاہ کے سجادہ نشیں اورطریق سلف کے متبع اور علم وعمل دو نوں میں ممتاز تھے۔اللہ تعالیٰ مرحوم پر اپنے انوار رحمت کی بارش فر مائے ۔” (یاد رفتگاں : 186)