سید احسان اللہ شاہ راشدی

پیر سائیں سید احسان اللہ شاہ راشدی المعروف ’’ پیر سائیں سنت والے‘(صاحب العلم الخامس) پیر جھنڈہ پنجم (پانچویں) سجادہ نشین درگاہ شریف پیر جھنڈو) :

سید رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند ارجمند سید فضل اللہ شاہ عرف احسان اللہ شاہ راشدی پیر جھنڈہ پنجم کی حیثیت سے اپنے خاندانی سجادگی کی مسند عالیہ پر مقرر کیا گیا۔ موصوف سید رشد اللہ شاہ کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ 27 رجب 1313ھ میں پیدا ہوئے آپ نے اپنے آبائی مدرسہ دار الرشاد میں جید اساتذہ کرام مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد مدنی ، مولانا اللہ بخش، مولانا احمد علی لاہوری ، مولوی خدا بخش اور مولانا محمد اکرم انصاری ھاائی جیسے اصحاب سے تعلیم حاصل کی۔ دینی علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے۔ قرآن وحدیث کی خدمت کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں ایک نئی روح بھی پھونکی آپ کا حلقہ احباب نہایت وسیع تھا۔ ہندوستان بلکہ اس سے باہر کے کئی علما سے تعلق خاص تھا خصوصاً سلطان ابن سعود رحمہ اللہ سے خاص دوستی اور خط کتابت رہتی تھی۔   ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر ، صفحہ : 413، مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 153 )

پیر سائیں سید فضل اللہ شاہ (پاک شہید) کو نرینہ اولاد نہیں تھی ، صرف ایک بیٹی تھی جو ان کے بھتیجے پیر سائیں سید رشد اللہ شاہ کے نکاح میں آئی اور وہ پیر سائیں سید احسان اللہ شاہ کی والدہ محترمہ تھیں

منصد نشینی:

سید رشد اللہ شاہ کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سید ضیاء الدین شاہ اور سید احسان اللہ شاہ کے درمیان قدرے سجادہ نشینی پر اختلاف ہوا۔ جماعت اور برادری کے احباب نے سید احسان اللہ شاہ کی دستار بندی کروائی۔ ان میں پیر صدیق الرسول شاہ اور ان کی اولاد، پیر رشد اللہ شاہ کے بھائی پیر محبوب شاہ اور پیر اسماعیل شاہ بھی شامل تھے۔ لیکن افسوس معاملہ عدالتوں تک پہنچا۔ طویل مقدمہ بازیوں کے بعد 1937ء میں پریوی کا ؤنسل لندن نے پیر ضیاء الدین شاہ کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا۔ اس لیے پیر سید احسان اللہ شاہ نے گوٹھ پیر جھنڈو کو چھوڑ کر قریب ہی

ایک نیا گاؤں *درگاہ شریف پیر جھنڈو " کے نام سے قائم کیا۔

علمی خدمات:

نیا گاؤں آباد کرنے کے بعد سب سے پہلے مسجد شریف کی تعمیر شروع کی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایک بہترین مسجد بن گئی۔ انھیں سب سے زیادہ مدرسہ دار الرشاد اور کتب خانہ سے محبت تھی۔ مدرسہ کی ترویج و ترقی میں آپ نے خصوصی دلچسپی لے کر طلبہ واساتذہ کو ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچائیں۔ ان کے دور میں ملک کے کونے کونے، اطراف واکناف سے طلبہ نے آکر کتاب وسنت کی پاکیزہ تعلیم حاصل کی۔ آپ خود ہی طلبہ کے امتحانات لیتے تھے۔ ہر جمعرات کو طلبہ کے درمیان تقریری مقابلے ہوتے تھے۔ کامیاب طلبہ میں خود انعامات تقسیم کرتے تھے۔ ہر
ہفتہ طلبہ کے مابین شعر و شاعری اور بیت بازی کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے۔

کتب خانه:

سید رشد اللہ شاہ کے دور میں پیر جھنڈو کے کتب خانہ نے جو عروج و ترقی دیکھی، اس پر مشکل اور کٹھن مرحلہ اس وقت آیا جب آپس کے خاندانی اختلافات اور مقدمہ بازیوں کی وجہ سے کتب خانہ بھی بہت متاثر ہوا۔ سید احسان اللہ شاہ راشدی 1923ء سے 1937ء تک مشتر کہ کتب خانہ کی نگرانی خود کرتے رہے۔ اسی اثناء میں مکتبہ میں تفسیر،

مدرسہ دارالارشاد: ایک اسلامی ادارہ جس نے اسلامی تعلیم میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بااثر علما بہت سے دوسرے لوگ اس کی حکمرانی اور تدریس میں سرگرم عمل تھے۔ اسلامی ادارہ خطے میں اسلامی مذہبی اور تعلیمی خدمات پیش کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جانا جاتا تھا۔ بعد ازاں 1937 میں خاندانی اختلافات کی وجہ سے مدرسہ دارالارشاد کو (گوٹھ پیر جھنڈو) سے نئے آباد ہونے والے گاؤں (درگاہ شریف پیر جھنڈو) میں منتقل کر دیا گیا۔

تحریک خلافت میں حصہ :

سید احسان اللہ شاہ سندھ کے دینی اور علمی خاندان کے مایہ ناز چشم و چراغ تھے۔ اس لیے ان کی رغبت فطری طور پر مذہبی نوعیت والی سیاست کی طرف رہی۔ سندھ میں جب تحریک خلافت کا آغاز ہوا تو اس میں بھی بھر پور حصہ لے
کر انگریزوں کے خلاف کام کیا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک دفعہ ان کے بھائی پیر ضیاء الدین شاہ اس وقت کے کمشنر سے مل کر واپس آئے اور اس کے بعد پیر احسان اللہ شاہ اس کمشنر کے پاس بالا پہنچے۔ ان کے ساتھ کثیر تعداد میں جماعت بھی پہنچی اور حسب دستور فلک شگاف آواز میں نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند کیں تو کمشنر صاحب نے استفسار کیا کہ یہ کون ہے ؟ جواب دیا گیا کہ " پیر صاحب جھنڈے والا آرہا ہے۔ " آپ جس وقت کمشنر کے پاس پہنچے تو دوران مجلس انھوں نے پوچھا کہ " آپ بھی تحریک خلافت میں ہیں ؟
جواب دیا گیا کہ : "خلافت تو ہمارا مذہب ہے ، باقی حکومت کو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اپنی آواز تو بلند کرتے رہیں گے۔ حکومت اگر مقامات مقدسہ کو چھوڑ دے تو ہم بھی خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے ورنہ خلافت تو ہمارا مذہب ہے۔
خلافت تحریک کے دوران جب ان کے والد پیر رشد اللہ شاہ راشدی نے خلافت والے اپنی دستار مبارک اتار کر انگورا فنڈ میں دے دی تو دوسرے دن نماز جمعہ کے بعد پیر رشد اللہ شاہ کے دوسرے فرزند پیر امام شاہ نے دستار کو بیچنے
کے لیے آواز دی کہ اس کا خریدار کون ہے ؟ تو احسان اللہ شاہ نے دو سو روپے ادا کر کے دستار خرید کرلی ۔ " اسی طرح آپ تحریک پاکستان کی حمایت میں بھی سرگرم رہے۔ اپنے مریدوں اور عقید تمندوں کو مسلم

سید احسان اللہ شاہ اپنے دور کے جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ پیکر صلاح وتقویٰ بزرگ بھی تھے اور بدرجہ غایت متبع سنت تھے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور انتہائی اتباع کی وجہ سے لوگوں میں آپ ’’ پیر سائیں سنت والے‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ان کے بارے میں خود ان کے بڑے صاحبزادے علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی بیان کرتے ہیں کہ ان کی تیسری شادی ہمارے سامنے ہوئی شادی کے لیے ایک بہت بڑے پیر سید محبوب اللہ شاہ راشدی کو پیغام پہنچایاگیا جو حنفی المذہب تھے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر تم رفع الیدین کرنا چھوڑ دو تو میں اپنی بیٹی تمھارے نکاح میں دینے کو تیار ہوں۔ انھوں نے اس کے جواب میں کہلوا بھیجا کہ میں ایک عورت کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کرسکتا یہ ایک عورت کا معاملہ ہے میں ہزار عورتوں کو بھی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر قربان کر سکتاہوں ۔ ( کاروان سلف ، محمد اسحاق بھٹی ، صفحہ : 385، مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 154، ماہنامہ صراط مستقیم کراچی ، مارچ 1995ء ، صفحہ : 27)

علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی اپنے والد ماجد سید احسان اللہ شاہ راشدی کے متعلق ایک اور واقعہ میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ ایک مرتبہ ہمارے والد صاحب اپنے جماعتی رفقا کے ساتھ حیدرآباد سندھ ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ٹرین کا انتظار کر رہے تھے کہ انگریزی لباس میں ملبوس ایک داڑھی منڈے صاحب آ رہے تھے اور انھوں نے والد صاحب کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا ، آپ ( والد ماجد) اسی طرح بیٹھے بیٹھے ان کی طرف ہاتھ کیا اور مصافحہ کیا ساتھیوںمیں سے کسی نے کہا پیر سائیں یہ سید غلام مرتضی شاہ ( جی ایم سید) ہیں۔ علاقہ کے مشہور پیر ہیں وڈیرے ہیں۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر مصافحہ کرنا چاہیے تھا تو آپ اسی وقت ان کے سامنے ہی جواب دیا ہمیں کیا معلوم کہ یہ سید ہیں یا ہندؤوں کی کسی ماڈرن فیملی سے تعلق رکھتے ہیں ان کی وضع وقطع کوئی اسلامی نمونہ پیش نہیں کرتی اور پتا نہیں چلتا کہ یہ بھی سید ہیں ۔ جی ایم سید بولے سائیں کیا کریں اپنے کام کاج کے لیے انگریزوں سے ملنا جلنا پڑتا ہے ان کے سامنے اگر وضع قطع کا اسلامی نمونہ پیش کریں تو وہ عزت نہیں کرتے اور کوئی کام بھی نہیں کرتے۔ جواب دیا میری وضع قطع آپ کے سامنے ہے دونوں انگریز حاکم کے دفتر میں چلتے ہیں اور اس سے جاکر ملاقات کے لیے وقت طلب کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ وہ پہلے آپ سے ملاقات کرتاہے یا مجھ سے ۔ فرمایا عزت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہے نہ کہ غیروں کا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے میں ۔ جی ایم سید نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کر لی ( ایضاً)

سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ علوم دینیہ کے جامع اور احیائے سنن میں بہت زیادہ داعی تھے۔ علم رجال پر آپ کی نہ صرف خاص نظر تھی بلکہ اس فن میں کمال بھی حاصل تھا ۔ مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ نے آپ کے پاس آکر چند دن قیام کیا تھا۔ اپنے قیام کے دوران شاہ صاحب سے رجال کے متعلق کافی گفتگو ہوئی۔ مولانا صاحب جب واپس ہوئے تو فرمایا کہ ’’ آج اگر کوئی اسماء الرجال کا امام ہے تو پیر احسان اللہ شاہ راشدی ہے ‘‘ ۔(ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر ، صفحہ : 414)

سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ موصوف کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ مرحوم حدیث ورجال کے بڑ ے عالم تھے ….. ایک خانقاہ کے سجادہ نشین تھے اور طریق سلف کے متبع اور علم وعمل دونوں میں ممتاز تھے ‘‘۔ ( یادرفتگاں ، صفحہ : 186)

آپ بھی اپنے اکابرین کی طرح کتابوں کے شائق ہی نہیں بلکہ حریص تھے نادر قلمی کتابوں کے حصول میں ہر دم کوشاں رہتے تھے۔ ملک اور بیرون ملک کے اہل علم سے کتابوں کے سلسلے میں خط کتابت رہتی تھی ۔ آپ نے خاندانی مدرسہ دار الرشاد اور مکتبہ پر خاص توجہ دی۔ علم حدیث ودیگر علوم سے اتنا گہرا لگاؤ تھا کہ کئی ممالک مثلاً شام ، مصر، مدینہ منورہ ، مکہ مکرمہ اور ہندوستان کے کئی شہروں سے زر کثیر خرچ کرکے نایات کتابیں نقل کروائیں۔ اپنے خاص کاتب قاضی لعل محمد اور مولانا قطب الدین ہالیجوی کو حیدرآباد دکن بھیج کر نواب عثمان علی خان کے کتب خانہ سے کئی کتابیں نقل کروائیں۔ آپ دائرۃ المعارف العثمانیہ دکن کے اراکین میں سے تھے۔ مکتبہ دائرۃ المعارف سے جو بھی کتاب چھپتی تھی وہ آپ کے کتب خانہ عالیہ علمیہ میں بطور اعزازی طور پر ملتی تھی۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ دکن والوں نے جب پہلی مرتبہ السنن الکبری للبیہقی اور مستدرک حاکم طبع کروائیں تو اس وقت ان کے پیش نظر جو قلمی نسخے تھے۔ ان میں سے ایک نسخہ پیر احسان اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ کا تھا۔ جیسا کہ انھوں نے دونوں مطبوعہ کتابوں میں ان قلمی نسخوں کے ذکر میں صراحت سے تحریر کیا ہے۔ آپ کے علمی ذوق کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ تاریخ بغداد جو ابھی چھپی ہی نہیں تھی آپ نے 1928ء میں دار الکتب المصریہ قاھرہ سے 15۔16 سو روپے خرچ کرکے اس کا فوٹو اسٹیٹ حاصل کیا جو کافی عرصہ کے بعد طبع ہوئی۔ امام ابو نعیم اصبھانی کی تاریخ اصفھان کا فوٹو اسٹیٹ انڈیا آفس لائبریری لندن سے ڈاکٹر کرنکو لائبریرین کی معرفت سے حاصل کیا ۔ کرنکو کی وساطت سے جرمنی حکومت سے صحیح ابن خزیمہ اور دوسری تفاسیر کے لیے بھی کوشاں رہے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ بہر حال کتب خانہ میں نادر و نایاب کتب کا بڑا ذخیرہ جمع کیا آپ نے مدرسہ دار الرشاد کی ترویج وترقی میں بھی خصوصی دلچسپی لی ۔ آپ کے دور میں ملک کے چپے چپے سے طلبہ آکر کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی۔ ( سہ ماہی مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 154، مضمون ’’سید احسان اللہ شاہ راشدی از پروفیسر مولانا بخش محمدی ماہنامہ ترجمان الحدیث لاہور1987ء)

سعودی حکومت کے پہلے فرمانروا شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے خلاف برصغیر میں جب مخالفین نے قبوں اور مزاروں کے انہدام کے مسئلہ پرشور برپا کیا تو اس وقت سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے سلطان موصوف کے موقف کی حمایت میں ایک مختصر مگر جامع اور دلائل سے بھر پور سندھی زبان میں مضمون قلم بند کیا۔ اور سندھ کے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا جس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ ( تذکرئہ علما اہل حدیث مرتب پروفیسر محمد یوسف سجاد ، صفحہ : 162، جلد 2)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی تصنیف وتالیف کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا آپ اخیر عمر میں حدیث کی مشہور و معروف کتاب سنن ابن ماجہ کی ایک جامع ومانع شرح بنام ’’خیمۃ الزجاجۃ‘‘ لکھ رہے تھے اور بیمار پڑ گئے اتنی فرصت نہ مل سکی کہ آپ اس شرح کو مکمل کرسکیں علم وعمل کے اس پیکر نے صرف 45 برس کی عمر میں 15 شعبان 1358ھ مطابق 13 اکتوبر 1938ھ کو وفات پائی۔

پیر سید احسان اللہ شاہ راشدی کے بارے میں

ترمیم

دینی علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے۔ قرآن وحدیث کی خدمت کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں ایک نئی روح بھی پھونکی آپ کا حلقہ احباب نہایت وسیع تھا۔ برصغیر بلکہ اس سے باہر کے کئیی علما سے تعلق خاص تھا خصوصاً سلطان ابن سعود سے خاص دوستی اور خط کتابت رہتی تھی۔

( ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر، صفحہ : 413، مہران سوانح نمبر، صفحہ : 153 )

پیدائش

ترمیم

آپ 27 رجب 1313ھ میں پیدا ہوئے۔ موصوف پیرسید رشد اللہ شاہ راشدی کے چھوٹے بیٹے تھے۔

نسب نامہ

ترمیم

سید احسان اللہ شاہ راشدی بن سید رشد اللہ شاہ راشدی بن سید رشید الدین شاہ راشدی بن سید محمد یاسین شاہ راشدی بن سید محمد راشد شاہ بن سید محمد بقا شاہ اور پھر سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہما تک۔ آپ کے ناناسید فضل اللہ شاہ راشدی تھے جن کا سلسلۂ نسب سید محمد یاسین شاہ بن سید محمد راشد شاہ تک جاملتا ہے۔ اس طرح آپ دودھیالی و ننھیالی "راشدی حسینی سید" ہیں۔

تعلیم

ترمیم

آپ نے دینی تعلیم اپنے آبائی مدرسہ دارالارشادسے حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں

کے نام ملتے ہیں۔

آپ فن اسماء الرجال کے بھی بہت بڑے عالم تھے۔ مولانا ثناءاللہ امرتسری نے آپ کے بارہ میں فرمایاتھا کہ

آج اگر کوئیی اسماء الرجال کا امام ہے تو پیر احسان اللہ شاہ راشدی ہے[1]

اسی طرح سید سلیمان ندوی موصوف کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

مرحوم حدیث ورجال کے بڑ ےعالم تھے …۔. ایک خانقاہ کے سجادہ نشین تھے اور طریق سلف کے متبع اور علم وعمل دونوںں میں ممتاز تھے[2]۔

وفات

ترمیم

آپ صرف 45برس کی عمر میں15 شعبان 1358ھ مطابق13 اکتوبر1938ء کو فوت ہوئے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر، صفحہ : 414)
  2. یادرفتگاں، صفحہ : 186
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔