ذوالنون مصری
ذوالنون مصری: صوفی بزرگ، اولیا میں اہم مقام پر فائز تھے
ذوالنون مصری | |
---|---|
(عربی میں: ذو النون المصري) | |
ذوالنون مصری مقبرہ
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 796ء [1] اخمیم |
وفات | سنہ 859ء (62–63 سال)[1] قاہرہ ، جیزہ |
شہریت | دولت عباسیہ |
عملی زندگی | |
استاذ | جابر بن حیان |
تلمیذ خاص | چھپانا آسان ہے۔ ، بایزید بسطامی |
پیشہ | الٰہیات دان ، طبیب ، ماہر آثاریات ، مورخ ، شاعر |
شعبۂ عمل | تصوف |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمثوبان بن ابراہیم نام۔ کچھ نے الفیض بن ابراہیم بھی لکھا ہے۔ ابو الفیض کنیت۔ آپ کے والد نوبہ کے رہنے والے تھے
پیدائش
ترمیمذوالنون مصری کی والادت 796ء میں ہوئی
وفات
ترمیمآپ 859ء:245ھ میں قاہرہ کے قریب خبیرہ کے مقام پر انتقال کیا اور وہیں مدفون ہوئے۔
علم و زہد
ترمیمطبقہ صوفیہ میں اعلی مقام رکھتے تھے، علم و تقویٰ اور حال و ادب میں نمایاں مقام پر فائز تھے۔ تفصیلی حالات معلوم نہیں۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ آپ نے علم کی جستجو میں دوردراز کے سفر کیے۔ آخر قاہرہ میں قیام کیا جہاں معتزلی عقیدے کی مخالفت میں گرفتاری کرکے بغداد بھیج دیے گئے وہاں کچھ عرصہ قید رہے مگر بعد میں رہا کر دیے گئے۔ صوفیا کے نزدیک ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ معرفت کے متعلق انھوں نے ہی مختلف مدارج مقرر کیے۔ جن کو مقامات کہتے ہیں۔ چند کتابیں بھی تصنیف کیں جو اب نایاب ہیں۔ کسی نے خلیفہ وقت متوکل کے پاس آپ کی شکایت کی تو اس نے آپ کو مصر بلوا بھیجا۔ آپ نے آتے ہی اسے وعظ و تذکیر شروع کر دی وہ رو پڑا اور باعزت طور پر آپ کو مصر روانہ کر دیا۔ خلیفہ متوکل کے پاس جب بھی متقی لوگوں کا ذکر ہوتا تو وہ رونے لگتے تھے اور کہتے تھے کہ جب بھی پرہیزگار لوگوں کا ذکر کرو تو ذوالنون کا ذکر ضرور کیا کرو۔ یوسف بن حسین فرماتے ہیں کہ میں ایک دن ذوالنون مصری کی مجلس میں حاضر ہوا اتنے میں آپ کے ہاں سالم مغربی آپہنچے اور ذوالنون سے پوچھا کہ آپ نے کس بنا پر توبہ کی تھی؟ انھوں نے کہا یہ ایک عجیب کہانی تم مانو گے نہیں! سالم نے کہا: آپ کو اپنے معبود کی قسم ضرور بتائیے۔ ذوالنون نے کہا: میں مصر سے کسی بستی کا ارادہ لیے نکل کھڑا ہوا۔ جنگل میں پہنچا تو راستے میں ہی سو گیا۔ میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک گھونسلے میں سے اندھی چڑیا زمین پر آگری میرے دیکھتے زمین میں شگاف ہو گیا کیا دیکھتا ہوں دو کوزے تھے ایک سونے کا دوسرا چاندی کا ایک میں تو تل تھے اور دوسرے میں پانی چڑیا تل کھائے جا رہی تھی اور پانی پیتی جا رہی تھی۔ یہ ماجرا دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ اس سے زیادہ اور کیا دیکھوں چنانچہ میں نے برے ارادوں سے توبہ کر لی اور ذکر الہی شروع کر دیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے شرف قبولیت سے نواز دیا۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب https://www.oxfordreference.com/view/10.1093/oi/authority.20110803095715421
- ↑ الرسالہ القشیریہ فی علم التصوف