رام چندر، دیوگیری
رام چندر (حکمرانی: 1271ء – 1311ء) جو رام دیو کے نام سے بھی مشہور ہیں، ہندوستان کے خطہ دکن کے مشہور شاہی سلسلہ یادو کے ایک حکمران تھے۔ انھوں نے اپنے چچا زاد بھائی امانا کے خلاف سلطنت کے پایہ تخت دیوگیری میں علم بغاوت بلند کیا، بغاوت کامیاب ہوئی اور تخت سلطنت پر رام چندر وراجمان ہوئے۔ انھوں نے اپنے عہد حکومت میں ہمسایہ ہندو مملکتوں پرمار، واگھیلا، ہوئے سل اور کاکتی وغیرہ سے جنگ کرکے ان پر فتح حاصل کی اور ان کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کیے۔
| ||||
---|---|---|---|---|
(ہندی میں: देवगिरि का रामचन्द्र) | ||||
راجۂ راجن (علاء الدین خلجی کے باج گزار) | ||||
دور حکومت | 1271ء-1311ء | |||
معلومات شخصیت | ||||
تاریخ وفات | سنہ 1311ء | |||
مذہب | ہندو مت | |||
والد | Krishna | |||
نسل | سنہان سوم بلال بھیم جھٹیاپلی |
|||
خاندان | دیوگیری کے یادو | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | بادشاہ | |||
درستی - ترمیم |
سنہ 1296ء میں رام چندر پر سلطان دہلی علاء الدین خلجی کی فوج حملہ آور ہوئی تو انھوں نے سلطان کی خدمت میں سالانہ خراج ادا کرنے کی شرط پر مصالحت کر لی۔ سنہ 1303 اور 1304 میں جب سلطان کو خراج کی رقم نہیں پہنچی تو انھوں نے رام چندر کو تخت دلی کا مطیع بنانے کے لیے ملک کافور کی قیادت میں اپنا لشکر روانہ کیا۔ چنانچہ اس کے بعد رام چندر تخت دلی کے وفادار رہے اور اپنی ہمسایہ ریاستوں کاکتی اور ہوئے سل پر لشکر کشی میں سلطانی افواج کی مدد کی۔
ابتدائی زندگی
ترمیمرام چندر یادو بادشاہ کرشن کے فرزند تھے۔ سنہ 1260ء میں جب کرشن کی وفات ہوئی تو غالباً رام چندر اس وقت نوعمر تھے، چنانچہ ان کے چچا مہادیو تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوئے۔[1] بعد ازاں سنہ 1270ء میں جب مہادیو کے بیٹے امانا تخت نشین ہوئے تو رام چندر نے تخت پر اپنا دعویٰ پیش کیا۔ سلطنت کے اکثر بڑے اہلکار اور سالار شاید رام چندر ہی کو تخت کا جائز وارث خیال کرتے تھے۔ اس خیال کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے کہ رام چندر کے اس دعوے کے بعد مہادیو کے وفادار درباری ہیمادری پنت اور ٹکاما بھی امانا کو چھوڑ کر رام چندر کی حمایت کرنے لگے تھے۔[2]
جانشین
ترمیمرام چندر کے دو بیٹے تھے، بلّال اور بھیم۔[3] ان دونوں میں سے بھیم کوکن چلے گئے اور وہاں انھوں نے ماہکوتی (موجودہ ماہم، ممبئی) میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ A. S. Altekar 1960، صفحہ 546
- ↑ A. S. Altekar 1960، صفحہ 548
- ↑ A. S. Altekar 1960، صفحہ 555
- ↑ Stephen Meredyth Edwardes 1902، صفحہ 25
کتابیات
ترمیم- A. S. Altekar (1960)۔ Ghulam Yazdani (مدیر)۔ The Early History of the Deccan۔ Oxford University Press۔ ج VIII: Yādavas of Seuṇadeśa۔ OCLC:59001459
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290-1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC:685167335
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Onkar Prasad Verma (1970)۔ The Yādavas and Their Times۔ Vidarbha Samshodhan Mandal۔ OCLC:138387
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Ramakant R. Bhoir (2002)۔ "Latest inscription of Ramchandra Yadava"۔ Proceedings of the Indian History Congress۔ Indian History Congress۔ ج 63: 247–250۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24
{{حوالہ رسالہ}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Stephen Meredyth Edwardes (1902)۔ The Rise of Bombay: A Retrospect۔ The Times of India Press / Cambridge University Press۔ ISBN:978-1-108-14407-0۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - T. V. Mahalingam (1957)۔ "The Seunas of Devagiri"۔ در R. S. Sharma (مدیر)۔ A Comprehensive history of India: A.D. 985-1206۔ Indian History Congress / People's Publishing House۔ ج 4 (Part 1)۔ ISBN:978-81-7007-121-1
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت)