رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ رباعی کی جمع رباعیات ہے۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔ اس کے موضوعات مقرر نہیں۔ اردو فارسی کے شعرا نے ہر نوع کے خیال کو اس میں سمویا ہے۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا حسن و اثر اور زور کا انحصار ہے۔ چنانچہ علمائے ادب اور فصحائے سخن نے ان امور کو ضروری قرار دیا ہے۔ بعض نے رباعی کے لیے چند معنوی و لفظی خصوصیات کو بھی لازم گردانا ہے۔ عروض کی مختلف کتابوں میں رباعی کے مختلف نام ہیں۔ رباعی، ترانہ اور دو بیتی بعض نے چہار مصرعی، جفتی اور خصی بھی لکھا ہے۔رباعی کا موجد فارسی شاعر رودکی کو مانا جاتا ہے۔

: عمر خیام کی ایک فارسی رباعی کا عکس

مروجہ اوزان ترمیم

رباعی کے 24اوزان ہیں جن کا استخراج روایتی طور پر بحر ہزج سے کیا جاتا ہے۔ ان میں سے 12 شجرۂِ اخرب اور 12 شجرۂِ اخرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں شجروں میں بحرِ ہزج کے رکنِ اصلی کے کل 10 فروع استعمال ہوتے ہیں۔

اوزان شجرۂ اخرب ترمیم

بحور اخرب کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ رکن “مفعول“ سے شروع ہوتئ ہیں۔

1۔ اخرب مقبوض مکفوف (مفعول۔ مفاعلن۔ مفاعیل فعل)

2۔ اخرب مقبوض مکفوف اہتم (مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)

3۔ اخرب مقبوض ازل (مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع)

4۔ اخرب مقبوض ابتر (مفعول مفاعیلن مفاعیلن فع)

5۔ اخرب مکفوف اہتم (مفعول مفاعیل مفاعیل فعول)

6۔ اخرب مکفوف مجبوب (مفعول مفاعیل مفاعیل فعل)

7۔ اخرب مکفوف ازل (مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع)

8۔ اخرب مکفوف ابتر (مفعول مفاعیل مفاعیلن فع)

9۔ اخرب مجبوب (مفعول مفاعیلن مفعول فعل(

10۔ اخرب اہتم (مفعول مفاعلین مفعول فعل(

11۔ اخرب مخنق ازل (مفعول مفاعیلن مفعولن فع)

12۔ اخرب مخنق ابتر (مفعول مفاعیلن مفعولن فاع)

اوزان شجرہ اخرم ترمیم

شجرہ اخرم کی تمام بحور “مفعولن“ سے شروع ہوتی ہیں۔

1۔ اخرم اخرب ازل (مفعولن فعول مفاعیل فاع)

2۔ اخرم اخرب مکفوف مجبوب (مفعولن مفعول مفاعیل فعل)

3۔ اخرم اخرب مکفوف اھتم (مفعولن مفعول مفاعیل فعول)

4۔ اخرم مخنق اخرب ابتر (مفعول مفعولن مفاعیلن فع)

5۔ اخرم مخنق اخرب اہتم (مفعولن مفعولن مفعول فعول)

6۔ اخرم مخنق اخرب مجبوب (مفعولن مفعولن مفعول فعل)

7۔ اخرم مخنق ازل (مفعولن مفعولن مفعولن فاع)

8۔ اخرم مخنق ابتر (مفعولن مفعولن مفعولن فع)

9۔ اخرم اشتر مکفوف اہتم (مفعولن فاعلن مفاعیلن فع)

10۔ اخرم اشتر مکفوف مجبوب (مفعولن فاعلن مفاعیل فعل)

11۔ اخرم اشتر ازل (مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع)

12۔ اخرم اشتر ابتر (مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع)

اوزان کا متبادل استخراج ترمیم

امیر الاسلام شرقی نے یہی چوبیس اوزان بحرِ ہزج کی بجائے بحرِ رجز سے بھی نکالے ہیں۔ ان کے قاعدے سے 6 فروع پیدا ہوتے ہیں جنھیں یاد رکھنا اور استعمال کرنا نسبتاٗ آسان ہے۔[1] تاہم یہ قاعدہ روایتی اوزان کے مقابلے میں تاحال زیادہ مقبول نہیں ہو سکا۔

نمونۂ رباعیات ترمیم

1 ترمیم

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین،

چرخ نوع فلک کے تارے ہیں حسین

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین

(جوش ملیح آبادی)

2 ترمیم

پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے

مانے نہ کبھی کہ مدہے ہرجزرکے بعد

دریا کا ہما رے جو اترنا دیکھے

(الطاف حسین حالی)

3 ترمیم

ہائے وہ دل جسے دلدار ہمسفر نہ ملے

ہائے وہ دید جسے شوخئی منظر نہ ملے

حیف صد اُس پہ ہے کم جس کو کبھی

مستیِ ذوق و فنا پہلوئے دلبر نہ ملے

(نعمان نیئر کلاچوی)

حوالہ جات ترمیم

رباعی کی تعریف