رشید کوثر فاروقی
رشید کوثر فاروقی اردو کے ایک مشہور غزل گو شاعر تھے۔
رشید کوثر فاروقی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | اکتوبر 29، 1933ء سیتاپور |
وفات | 2007ء سیتاپور |
قومیت | بھارتی |
عملی زندگی | |
پیشہ | سابق صدر شعبہ انگریزی انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج بھٹکل |
وجہ شہرت | اردو غزل گو شاعر |
کارہائے نمایاں | زمزمہ، جاوید جاویدان |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمرشید بِسْوان (سیتاپور) میں 29 اکتوبر، 1933ء کو پیدا ہوئے۔ وہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے آبائی وطن سے دور ہی گزارے تھے۔[1]
اساتذہ
ترمیمرشید کے اساتذہ میں نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی جیسے شامل تھے۔ ان کے علاوہ مولانا آزاد سبحانی سے بھی رشید کا تعلق رہا تھا۔[2]
ملازمت
ترمیمرشید کوثر فاروقی سابق صدر شعبہ انگریزی انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج بھٹکل تھے۔[2]
فن خطابت کا اعتراف
ترمیمابو الحسن علی حسنی ندوی نے فرمایا تھا کہ رشید کی خطابت میں محمد علی جوہر اور کلام میں محمد اقبال کا پرتو نظر آتا ہے۔ بھارت میں ایمرجنسی کے زمانے میں جب رشید کوثر قاروقی کی ایک نظم تعمیر حیات لکھنؤ اور داعی بمبئی میں شائع ہوئی تھی تو ندوی کی جانب سے ایک خط لکھا گیا تھا کہ ایمرجنسی کی ایسی جامع تعبیر کسی نے نہیں کی۔ وہ نطم یہ ہے:
- صنم صنم کو تقاضا ہمیں خدا کہئے
- کمال جہل کو دانش کی انتہا کہئے
- قلم کو حکم کہ بجلی کو چاندنی لکھیے
- زبان پہ جبر کے پتھر کو آئینہ کہئے
- پلٹ گیا رخ گردش الٹ گئیں قدریں
- یقین کو وہم تخییل کو واقعہ کہئے
- لغات برق و جہنم نہ لائئے لب پر
- جہاں یہ آئیں وہاں نقرہ و طلاء کہئے
- زبان سونپئے ہمکو تو جان آپ کی ہے
- امان چاہیں تو جو ہم نے کہ دیا کہئے
- سکوت کی بھی اجازت ہمیں سے لینی ہے
- ہمارے منہ سے جو ارشاد ہو بجاکہئے
- شبان الکن سینا نہ کلیم
- ڈکارتے ہوئے فرعون کو خدا کہئے
- دماغ بیچئے ورنہ اتارلینگے یہ سر
- دلیل سوچ کہ ہر ظلم کو روا کہئے
- یہ تاج ناموری ہے یہ ہتھکڑی چنئے
- یہ تختہ عیش ہے یہ تختہ دار کا کہئے
- وہاں یہ ناز مہیا ہیں منجنیق و تفنگ
- یہاں یہ آن کہ حق کہئے اور بر ملا کہئے[2]
تحریریں
ترمیمرشید کوثر فاروقی کے دو مجموعات کلام زمزمہ اور جاوید جاویدان شائع ہوئے۔ انھوں نے بھارتی مسلمانوں میں تعلیم کے موضوع پر ایک کتاب انگریزی میں لکھی تھی۔[1]
انتقال
ترمیمرشید کوثر قاروقی کا انتقال اپنے آبائی مقام میں 25 مارچ ، 2007ء میں ہوا تھا۔[1]