رمضان کے فانوس

رمضان کے چراغ یا روشنی

فانوس کا مطلب چراغ یا روشنی کے ہوتے ہیں، رمضان کے مہینے میں فانوس کا مسلم معاشرہ اور علاقوں کے ساتھ خاص تعلق ہوتا ہے، گھروں اور راستوں کو فانوس اور قسم قسم کے قمقموں سے مزین اور روشن کر دیا جاتا ہے۔[1] اور اب اسے رمضان کی لالٹین بھی کہا جاتا ہے۔

قاہرہ میں رمضان المبارک کے موقع پر تزئین و آرائش

فانوس لفظ یونانی لفظ "کینڈل" سے نقل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب 'روشنی' یا 'لالٹین' ہوتا ہے۔ لفظ فانوس تاریخی طور پر "دنیا کی روشنی" کے معنی میں استعمال ہوا تھا اور امید کی علامت ہے، جیسے "اندھیرے میں روشنی"۔

تاریخ

ترمیم
 

فانوس کا رمضان المبارک کے ساتھ منسلک سجاوٹ کے طور پر روایتی استعمال کی ابتدا دولت فاطمیہ کے دور میں ہوئی تھی، جو بنیادی طور پر مصر میں واقع تھا۔ روایت کے مطابق رمضان کے مقدس مہینے میں جب خلیفہ معز لدین اللہ کے قاہرہ پہنچنے کے موقع پر مصری عوام نے لالٹین رکھے ہوئے استقبال کیا تھا۔[2][3][4]جیسے جیسے خلیفہ شہر سے گزرتا رہا تو اس نے اس ڈیزائن کی تعریف کی اور وہیں سے فانوس رمضان کی علامت بن گیا۔

اس کہانی کے ایک اور واقعہ میں، قاہرہ کے اہل خانہ خلیفہ کے ساتھ پورے شہر میں سفر کرتے ہوئے قاہرہ کے پرانے دروازوں، باب النصر، باب الفتح اور باب الشہب سے گزرتے ہوئے رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے موکٹم پہاڑی کی جانب جاتے اور ماہ رمضان کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے واپس آتے۔ راستے میں بچے خوشی سے فانوس پکڑتے اور رمضان کے استقبال اور جشن منانے میں گاتے۔[4]

دسویں صدی عیسوی میں، خلیفہ حاکم بامراللہ نے خواتین کو پورا سال گھر چھوڑنے سے محروم کر دیا۔ رمضان المبارک کے دوران میں صرف ایک ہی استثناء تھا جب خواتین کو گھروں کے باہر نماز پڑھنے اور رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے ملنے کی اجازت تھی۔ لیکن اس استثناء کا اطلاق اس شرط کے تحت کیا گیا کہ عورتیں لڑکوں کے ساتھ فانوس لے کر جائیں تاکہ وہ اپنا راستہ روشن کریں اور مردوں کو یہ اطلاع ہو جائے کہ ایک عورت وہاں سے چل رہی ہے۔ مزید خلیفہ حاکم بامراللہ نے ایک حکم جاری کیا کی ہر دکان اور مکان کے سامنے لالٹین لگائے جائیں گے۔ جس نے بھی نافرمانی کی ان پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ اس طرح کے سخت احکامات کے تحت، قاہرہ میں فانوس صنعت نمایاں طور پر فروغ پایا۔[4][5] اب اس کا استعمال تقریباً تمام مسلم ممالک میں ہوتا ہے۔

 
فانوس

قدیم زمانے میں یہ چراغ کی طرح ہی ہوتا تھا اور اس میں موم بتیاں یا تیل شامل ہوتا تھا۔ اس کی شروعات شعریٰ یمانی کے عروج کی خوشیاں منانے والے فرعونی تہواروں میں استعمال ہونے والی مشعلوں سے ہوا۔ یہ خوشیاں پانچ دن تک، پانچ قدیم مصری دیوتاؤں اوسیرس، حورس، آئی سس، شیث اور نیفٹیز کا یوم پیدائش منا کر کی جاتیں۔ اور گلیوں کو روشن کرنے کے لیے فانوس استعمال ہوتے۔[1] ابتدائی مسیحیت میں مشعلیں یا موم بتیاں بھی استعمال کی گئیں۔ مصری مورخ المقریزی (1364 ء - 1442) نے اپنی کتاب "المویز و التذیر بی ذکر الخطر و الثطر" میں لکھا ہے کہ یہ مشعلیں یا موم بتیاں کرسمس کے وقت جشن کے لیے استعمال کی گئیں۔

موسیقی والے فانوس

ترمیم

موسیقی والے رمضان فانوس کا استعمال کئی علما نے حرام قرار دیا ہے۔ جرمن ریڈیو کے مطابق مصری مبلغ سامح عبد الحمید کا کہنا ہے کہ رمضان کے حوالے سے تیار کیے گئے خصوصی فانوس اس صورت میں جائز ہوں گے اگر ان میں موسیقی شامل نہ ہو۔ تاہم اگر یہ موسیقی رکھتے ہیں تو پھر حرام ہیں۔ اکثر علما کا ان کی حرمت پر اجماع ہے لہذا ان کو نہیں خریدا جانا چاہیے۔ مصری مبلغ نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلہ اللہ علہہ وسلم کے فرمان میں آتا ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ زنا، ریشم، شراب اور آلات موسیقی کو حلال کر لیں گے۔سامح عبد الحمید کے مطابق ماہ صیام کے استقبال میں رمضان سے متعلق زینت کی اشیاء ایک خوب صورت مظہر ہے اور بچّے فانوسوں سے خوش ہوتے ہیں اور ان سے کھیل کر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ لہذا جب تک ان میں موسیقی کی آمیزش نہ ہو اس وقت تک یہ جائز ہوں گے۔[6][7][8]

"وقال هشام بن عمار: حدثنا صدقة بن خالد: حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر: حدثنا عطية بن قيس الكلابي: حدثنا عبد الرحمن بن غنم الأشعري قال: حدثني أبو عامر – أو أبو مالك – الأشعري، واللہ ما كَذَبَني: سمع النبي صلى اللہ عليہ وسلم يقول: (ليكوننَّ من أمتي أقوام، يستحلُّون الْحِرَ والحرير، والخمر والمعازف، ولينزلنَّ أقوام إلى جنب عَلَم، يروح عليهم بسارحة لهم، يأتيهم – يعني الفقير – لحاجة فيقولوا: ارجع إلينا غداً، فيُبيِّتهم اللہ، ويضع العلم، ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة)۔ (بخاری، کتاب الاشربہ، حدیث 5268)"

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو بدکاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ ان میں سے کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع اپنے بنگلوں میں رہائش رکھیں گے اور جب کوئی ضرورت مند آدمی ان کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے جائے گا تو کل آنے کا کہہ کر ٹال دیں گے۔ اللہ تعالی رات کے وقت ہی ان پر پہاڑ کو گرا دے گا اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں کو قیامت تک کے لیے بندر و خنزیر بنا دے گا۔"[9][10]

دور حاضر

ترمیم

فانوس کا استعمال دنیا بھر میں خاص طور پر ایشیائی خطوں اور عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر ہوتا ہے، یہ نہ صرف ایک خاص مذہب کے مقاصد کے لیے، بلکہ لوگوں کے نام یا آرائشی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فانوس کو آپ با آسانی کسی مکان، ریستوران، ہوٹل، مال، وغیرہ میں پاسکتے ہیں۔ اکثر روشنی کے گروہوں کے بطور مختلف نقشوں اور شکلوں میں اہتمام کیا جاتا ہے۔ دھات اور شیشہ زیادہ تر فانوس کی تعمیر کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

تفصیلات پڑھیں

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "Lights of faith"۔ Al-Ahram Weekly Online۔ 28 اگست 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. "The colorful story behind Ramadan's famous fanoos"۔ royanews.tv [مردہ ربط]
  3. "Fanoos Ramadan: History of the holy month's iconic lanterns"۔ The New Arab 
  4. ^ ا ب پ "Ramadan Fanoos: The Brief History Of A Thousand-Year-Old Tradition"۔ egyptianstreets.com 
  5. "ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی خوبصورت اور قدیم روایت"۔ urdu.arynews.tv 
  6. "موسیقی والے رمضان فانوس کا استعمال حرام ہے" [مردہ ربط]
  7. "موسیقی والے "رمضان فانوس" کا استعمال حرام ہے : مصری مبلّغ"۔ alarabiya.net 
  8. "موسیقی والے رمضان فانوس کا استعمال حرام قرار"۔ جاوید چودھری 
  9. "کیا اسلام میں موسیقی حرام ہے؟"۔ forum.mohaddis.com 
  10. "موسیقی کے بارے میں احادیث"۔ 23 جنوری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ