روپا باجوہ

ہندوستانی مصنفہ

روپا باجوہ (پیدائش 1976) ایک ہندوستانی مصنفہ ہیں جو پنجاب کے شہر امرتسر میں رہتی اور کام کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مختلف دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی وقت گزارتی ہیں۔ وہ گرینزین کیوور پرائز ، دولت مشترکہ ایوارڈ کی وصول کنندہ ہیں۔ انھیں ہندوستان کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔

ناول ترمیم

2004 میں ، انھو نے اپنا پہلا ناول "دی ساڑھی شاپ" شائع کیا ، جس میں اس کے آبائی شہر اور ہندوستان کی طبقاتی حرکیات کو کھوجا گیا ہے۔ [1] اس ناول کا جائزہ لینے والوں نے اسے ہندوستان کی نئی ادبی دریافت قرار دیا۔ ساڑھی شاپ کو سنہ 2004 میں افسانہ کے لئے اورنج انعام کے لئے طویل عرصے تک فہرست میں درج رکھا گیا۔ اس ناول نے جون 2005 میں بہترین پہلا ناول ، 22واں کامن ویلتھ ایوارڈ اور ہندوستان کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ انگریزی 2006 میں جیتا۔ ساڑھی شاپ کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ، ان میں فرانسیسی ( لی وینڈیور ڈی سارس ) ، ڈچ ( ڈی ساریونکل ) اور سربیا ( پروڈو نیکا ساریجا ) شامل ہیں۔

روپا باجوہ کا دوسرا ناول ، "مجھے سناؤ ایک کہانی" اپریل 2012 میں منظر عام پر آیا۔ اس پر شدید رد عمل سامنے آیا۔ اس کو کچھ حلقوں کی جانب سے تنقیدی پزیرائی ملی ، اسی دوران نئی دہلی میں ادبی حلقوں میں تنازع پیدا ہو گیا کیونکہ ناول کے ایک حصے میں ان لوگوں پر سخت رائے دی گئی تھی۔ [2]

2020 میں روپا باجوہ اپنے تیسرے ناول پر کام کر رہی تھیں۔ [3] [4]

کالم نگاری ترمیم

اگرچہ وہ سکھ گھرانے سے ہیں ، مگر اس کے باوجود روپا باجوہ نے ایک ہندوستانی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں " گوردواروں میں بعض اوقات منفی چیزیں ہوتی ہیں" کے نام سے ایک متنازع مضمون لکھا۔

روپا باجوہ دی ٹیلی گراف ، دی ٹریبون ، ٹائم آؤٹ اور انڈیا ٹوڈے میں دیگر دلچسپیوں پر کتابی جائزے اور مضامین بھی لکھتی ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Ashima Sood۔ "THE EMIGRANT AND THE NATIVE: the Indias of Akhil Sharma and Rupa Bajwa"۔ Another Subcontitent۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2012 
  2. http://www.goodreads.com/book/show/13631169-tell-me-a-story
  3. http://www.dnaindia.com/lifestyle/review_book-review-tell-me-a-story_1682029
  4. http://www.thehindu.com/arts/books/article3483287.ece[مردہ ربط]