کسی کی تقریر میں رکاوٹ یا اڑچن کئی طرح سے ممکن ہے۔ اس میں اولًا مقرر کو کلام کرنے سے روکنا، اپنے خیالات کو زبر دستی تھوپنا، مقام تقریر مظاہرہ کرنا، تشدد برپا کرنا، واک آؤٹ کرنا، وغیرہ اس میں شامل ہے۔ رکاوٹ کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں۔ ان میں مقرر سے مخاصمت، موضوع تقریر سے عدم اتفاق، اظہار کردہ خیالات سے عدم اتفاق، متصادم نظریے کی حمایت، مذہبی، نسلی، جنسی اور دیگر اقسام کے امتیازات یا تعصبات بھی ممکن ہیں جن کی وجہ سے کسی تقریر میں اڑچن ڈالی جاتی ہے۔ اکثر سیاست دان اور مشاہیر پولیس اور سیکیوریٹی عملہ موجود رکھتے ہیں تاکہ ایسی کسی ناہموار صورت حال سے نمٹا جا سکے۔

باہمی گفتگو کے دوران کسی تیسرے فریق کی مداخلت سے رکاوٹ کی تصویری جھلک


مثالیں

ترمیم
  • گورنر کیرالا عارف محمد خان نے دسمبر 2019ء میں کہا تھا کہ مورخ عرفان حبیب نے انڈین ہسٹری کانگریس کنور یونیورسٹی میں ان کے افتتاحی خطاب میں ان کی تقریر میں رکاوٹ پیدا کی تھی ۔ انھوں نے کہا کہ کسی مختلف خیال کے تئیں یہ عدم رواداری غیر جمہوری ہے ۔ گورنر عارف محمد خان کو طلبہ اور مندوبین کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس پر انھوں نے کہا کہ ان کی مخالفت تو کی جا سکتی ہے لیکن انھیں خاموش نہیں کیا جا سکتا ۔[1]
  • 2016ء میں حیدرآباد کے سندریا وگنان کیندر میں بائیں بازو کی حامی طلبہ تنظیم اے آئی ایس ایف کی جانب سے دستور کے تحفظ کے موضوع پر منعقدہ پروگرام میں کنہیا کمار کی تقریر کے دوران ان پر چپل پھینکے گئے اور ان کی تقریر میں رکاوٹ کی کوشش کی گئی ۔ تاہم یہ چپل اسٹیج کے قریب گرے ۔ اچانک اس واقعہ سے افراتفری پھیل گئی اور اے آئی ایس ایف کے طلبہ نے ان دو حملہ آوروں کی پٹائی کردی ۔ ان دونوں کی شناخت مبینہ طور پر گاؤ رکشا دل کے ارکان نرین کمار اور پون کمار کے طور پر کی گئی ہے جنھوں نے کنہیا کی تقریر کے دوران بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگاتے ہوئے ان پر چپل پھینکے تاہم یہ چپل اسٹیچ کے قریب گرے ۔ پولیس نے فوری طور پر ان دونوں کو حراست میں لے کر چکڑ پلی پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔ [2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم