ریاست خاران برطانوی ہند (بعد میں پاکستان) میں ایک نوابی ریاست تھی۔ خاران کی ریاست 1697میں معرض وجود میں آئی جو قلات کی باج گزار ریاست 1940تک رہی نادر شاہ افشار اور ریاست خاران کے حمکران امیر پردل خان کا تنازع بڑھ کر خونریز جنگوں مین تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد مں ایرانی اورخاران کے باشندے ہلاک ہوئے مگر اس جنگ میں نادر شاہ افشار کو کامیابی اور خاران کے حکمران امیر پردل کو شکست کے بعد دونوں حکمرانوں میں صلح ہوئی صلح کے معاہدے کے میں نادر شاہ افشار نے خاران کے حکمران امیر پردل کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے جو سند جاری کی اس کے مطابق امیر پردل کو خاران کے مندرجہ زیل علاقوں کا حکمران تسلیم کیا گیا جو درج زیل ہیں خاران کے نوشیروانی حکمرانوں نے کبھی قلات کے (براہوئی) احمد زئی حکمرانوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا ہمیشہ قلات کے حکمرانوں کو اپنا برابر تصور کیا اگر چہ کے دونوں شاہی خاندانوں کے درمیاں رشتے داریاں بھی قائم ہوئی اس کے باوجود دونوں ریاستوں کے درمیاں متعدد بار جنگ و جدل بھی برپا ہوئی ہمیشہ ہی قلات اور خاران کے حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی ۔ رخشانی ،ریکی ، نوتانی، سربازی ، جدگال ، کیچ و تمب ،بم پور ، کولواہ ،قصر قند ، گہنہ ، صافل ، جالک ، وزک ، اس کے علاوہ جالک ، وزک بمپور ، سرحد مزار خان اور رود بار میر کی بیابت یا آمدنی مکمل طور پر امیر پردل خان کو دے دی یہ سند آج بھی خاران کے نوشیروان خاندان کے پاس موجود ہے 7مارچ 1948ء کو خاران پاکستان میں شامل ہو گیا۔ اور 3اکتوبر 1952کو بلوچستان ریاست ہائے متحدہ میں شامل ہو گیا۔ریاست کو 14اکتوبر 1955 کوختم کر دیا گیا۔ جب مغربی پاکستان کے بہت سے علاقے کو ملا کر مغربی پاکستان کا صوبہ بنایا گیا۔ جب یہ صوبہ 1970میں تحلیل کر دیا گیا ۔ تو ریاست خاران کی سرحدوں کو ضلع خاران میں شامل کر دیا گیا۔ اور صوبہ بلوچستان پاکستان کاحصہ بنا دیا گیا جو بعد میں بلوچستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔21 مارچ 1948ء کو خاران، مکران اور لسبیلہ کے حکمرانوں نے اعلان کیا کہ وہ سب پاکستان کے ساتھ الحاق کر ریے ہیں۔ بلوچستان ریاستی اتحادجنوب مغربی پاکستان کے علاقے میں 3 اکتوبر 1952ء اور 14 اکتوبر 1955ء کے درمیان موجود ریا۔ یہ اتحاد ریاست قلات، ریاست خاران، ریاست لسبیلہ اور ریاست مکران کے درمیان قائم ہوا اور اس کا دار الحکومت قلات شہر تھا۔ 14 اکتوبر 1955ء یہ خانیت ختم ہو گئی اور یہ مغربی پاکستان میں شامل ہو گئی۔

کوہِ نور ہیرا

ترمیم

اس حوالے سے کتاب تاریخ خاران کے مصنف عبدالقادر خارانی بلوچ ایک دلچسپ داستان اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحات میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ نادر شا ہ افشار کے قتل کے وقت خاران کے سربراہ امیر پردل خان نادر شاہ کے ساتھ ہی تھے اور نادر شاہ افشار کے اہم جرنیلوں مِں امیر پردل خان کا شمار کیا جاتا تھا نادر شاہ کے قتل کے بعد خاران کے امیر پردل کے پاس کوہ نور ہیرا آیا وہ نادر شاہ کے قتل کے بعد اپنی ریاست خاران مِں واپس آگئے اور خاران مِین حکمرانی کرتے رہے ان کے انتقال کے بعدامیر پردل خان کے بیٹے جہانگیر خان دوئیم خاران کے حکمران ہوئے توکوہ نور ہیرا ان کے پاس آیا جہانگیر خان کی وفات کے بعد ان کے جانشینوں میں اقتدار کے لیے جھگڑا ہوا تو جہانگر خان کے بیٹے میر ابراہیم اپنے بھائی امیر عباس خان چہارم سے ناراض ہوکر پنجاب کے راجا رنجیت سنگھ کے پاس چلا گیا اپنے ہمراہ کوہ نور ہیرا بھی لے گیا اور مہاراجا رنجیت سنگھ کے پاس پناہ گزیں ہوکر خاران کی حکومت کے حصول کے لیے مدد مانگی اور کوہ نور ہیرا بطور امانت راجا رنجیت سنگھ کے پاس رکھوایا مگر اس سفارت میں ابراہم کو ناکامی ہوئی اور وہ پنجاب سے خالی ہاتھ ریاست خاران میں داخل ہوا جہاں میر عباس خان کے جانشین اور بیٹے امیر آزاد خان نے میر ابراہیم کو ایک لڑائی میں شکست دینے کے بعد ہلاک کر دیا اس طرح کوہ نور ہیرا مہاراجا رنجیت سنگھ کے پاس ہی رہا جہاں سے بعد میں انگریزوں نے رنجیت سنگھ کے فوت ہوجانے کے بعد پنجاب پر قبضہ کرلینے کے بعد مال غنیمت کے طور پر کوہ نور ہیرا بھی حاصل کیا جو برطانیہ روانہ کر دیا گیا جوتاج برطانیہ کی زینت بنا جبکہ ایک دوسری حکایت کے مطابق کوہ نور ہیرا نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد اس کے جانشینوں یا احمد شاہ ابدالی کے پاس آیا جن کے بعد ان کے جانشینوں میں سے نادر شاہ کے بعد شاہ شجاع والیٔ قندھار کے پاس رہا جب افغانستان مِں اقتدار کے حصول کے لیے شاہی خاندان میں خانہ جنگی ہوئی تو شاہ شجاع اس خانہ جنگی میں شکست کھانے کے بعد بھاگ کر ہنددوستان آیا تو مہاراجا رنجیت سنگھ اس وقت پنجاب کا حکمران تھا جس کے پاس شاہ شجا ع نے پناہ حاصل کی ۔ یہ ہیرا اس کے ساتھ تھا، مہاراجا رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع سے کوہ نور ہیرا حاصل کر لیا۔ رنجیت سنگھ کے پاس سے انگریزوں کے ہاتھ لگا اوربرطانیہ کے بادشاہوں اور ملکاوں کے تاج کی زینت ہے اس کی عظمت چمک دمک کی بنا پر اکثر چیزوں وغیرہ کا نام "کوہ نور " رکھ لیتے ہیں۔ا اور غالباً اسی لیے اس ہیرے کا نام اس کی چمک دمک دیکھ کر کوہ نوررکھا گیا

مزید دیکھیے

ترمیم

٭ پاکستان کی نوابی ریاستیں