زکریا بن آدم اشعری قمی

8ویں صدی کے شیعہ مجتہد

زکریا بن آدم اشعری قمی ( فارسی: زکریا بن آدم اَشْعَری قمی‎) آٹھویں صدی کے شیعہ محدث (حدیث کے اسکالر) تھے اور جعفر بن محمد صادق (چھٹے شیعہ امام ) کے اصحاب میں سے تھے۔ وہ موسیٰ بن جعفر الکاظم (شیعوں کے ساتویں امام) کے راویوں ( حدیث پہنچانے والا) میں سے تھے اور علی ابن موسی الرضا (آٹھویں شیعہ امام) اور محمد الجواد (نویں شیعہ امام) کے قم، ایرانمیں ے عامل تھے۔ [1][2]

زکریا بن آدم اشعری قمی
معلومات شخصیت

نسب نامہ

ترمیم

زکریا بن آدم اشعری قمی جسے ابو یحیی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ( فارسی: ابو یحیی‎) [3] کوفہ سے قم کی طرف ہجرت کرنے والے "الاشعری" خاندان سے ہیں۔ [4] ان کے والد آدم بن عبد اللہ ابن سعد اشعری تھے، جنہیں شیخ طوسی نے [5] الصادق (چھٹے شیعہ امام ) کے اصحاب میں شمار کیا جاتا ہے۔ [6] آدم بن عبد اللہ نے علی الرضا (آٹھویں شیعہ امام) سے ایک حدیث نقل کی ہے جسے ان کے بیٹے زکریا نے نقل کیا ہے۔ [7]

ان کے بھائی اسحاق بن آدم علی الرضا (آٹھویں شیعہ امام) کے راویوں میں سے تھے [8] اور ان کے چچا زاد بھائی زکریا ابن ادریس بھی جعفر الصادق (چھٹے شیعہ امام) موسیٰ کاظم (ساتویں شیعہ امام) اور علی الرضا (آٹھویں شیعہ امام) کے راویوں میں سے تھے۔ [9]

ائمہ کے ساتھ ان کا مقام

ترمیم

شیخ طوسی نے زکریا بن آدم اشعری قمی کو جعفر الصادق (شیعہ کے چھٹے امام) کے اصحاب میں سے ایک شمار کیا ہے۔ [10] عالم اسلام کے کسی بھی ماخذ نے انھیں موسیٰ کاظم (ساتویں شیعہ امام) کے اصحاب میں سے نہیں کہا ہے، لیکن ان کا ذکر اس امام کے راویوں میں کیا گیا ہے۔ [11]

شیخ طوسی نے زکریا بن آدم اشعری قمی کو بھی علی الرضا (آٹھویں شیعہ امام) کے اصحاب میں سے ایک سمجھا ہے۔ [12] بعض روایات کے مطابق علی الرضا نے لوگوں کو زکریا بن آدم کا حوالہ دیا اور انھیں دین و دنیا کے معاملات میں ثقہ قرار دیا۔ [13] اس نے امام کے عامل کے طور پر قم کے لوگوں سے مذہبی چندہ حاصل کیا تھا۔ [13] مدینہ سے مکہ تک حج کے سفر پر، زکریا ابن آدم نے علی الرضا کے ساتھ سفر کیا۔ [14][15]

ایک شیعی روایت کے مطابق زکریا بن آدم نے علی الرضا (شیعہ کے آٹھویں امام) سے کہا: میں اپنے خاندان کو چھوڑنا چاہتا ہوں کیوں کہ ان میں بیوقوف اور جاہل لوگ بڑھ گئے ہیں۔ امام نے اس سے کہا: اے زکریا، ایسا نہ کرو اور قم سے ہجرت نہ کرو، تمھارے وجود کے ذریعے سے خدا تمھارے اہل و عیال سے (دوسرے نسخے میں: اہل قم کی) مصیبتوں کو تمھاری وجہ سے دور کر دیتا ہے، جس طرح وہ، میرے والد موسیٰ کاظم کی وجہ سے اہل بغداد سے مصیبت کو دور کرتا ہے۔ [16][17]

زکریا ابن آدم کا شمار بھی محمد تقی (شیعہ کے نویں امام) کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ [18] کتاب رجال الکاشی کی روایت کے مطابق وہ قم میں شیعوں کے نویں امام کے عامل تھے۔ [13] [19]

کتابیات

ترمیم

عالم اسلام کے منابع نے زکریا بن آدم کی طرف ایک کتاب اور مسائل کا ایک سلسلہ منسوب کیا ہے جو مختلف طریق سے نقل کیا گیا ہے۔ بظاہر، مسائل کا یہ مجموعہ زکریا بن آدم کے علی الرضا (آٹھویں شیعہ امام) سے سوالات و جوابات کا مجموعہ ہے۔ [20][21]

انھوں نے ائمہ اربعہ سے تقریباً چالیس حدیثیں نقل کی ہیں۔ [11] [24]

 
زکریا بن آدم اشعری قمی مقبرہ، شیخان قبرستان، قم، ایران۔

انتقال

ترمیم

بعض نے کہا ہے کہ زکریا ابن آدم کی وفات 819ء اور 835 عیسوی (204 اور 220 ہجری کے درمیان) اور اسی وقت محمد الجواد (شیعہ کے نویں امام) کی ولادت کے ساتھ ہوئی۔ [17] دوسروں نے کہا ہے کہ زکریا بن آدم کا انتقال محمد تقی کی زندگی میں ہوا اور ان کی وفات کے بعد امام نے ان کے بارے میں ایک خط میں بھی ذکر کیا۔

ان کی قبر قم میں شیخان کے قبرستان میں فاطمہ معصومہ کے قریب واقع ہے۔ [25][26]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "خاندان اشعري و گسترش تشيع درايران - راسخون" (فارسی میں)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-17
  2. "سیمای زکریا بن آدم - پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ" (فارسی میں)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-17
  3. نجاشی، احمد بن على (1987)۔ رجال نجاشى (فارسی میں)۔ قم: جامعہ مدرسین۔ ص 596
  4. قمی، حسن بن محمد (1982)۔ تاریخ قم (فارسی میں)۔ تهران: توس۔ ص 257–263
  5. نجاشی، احمد بن على (1987)۔ رجال نجاشى (فارسی میں)۔ قم: جامعہ مدرسین۔ ص 174
  6. طوسی، محمد بن حسن (1995)۔ رجال طوسی (فارسی میں)۔ قم - ایران: موسسہ النشر الاسلامی (تابع جامعہ مدرسین قم)۔ ص 156
  7. شیخ صدوق قمی، ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابَوَیْہ۔ الخصال (عربی میں)۔ ص 638
  8. نجاشی، احمد بن على (1987)۔ رجال نجاشى (فارسی میں)۔ قم: جامعہ مدرسین۔ ص 73
  9. نجاشی، احمد بن على (1987)۔ رجال نجاشى (فارسی میں)۔ قم: جامعہ مدرسین۔ ص 173
  10. طوسی، محمد بن حسن (1995)۔ رجال طوسی (فارسی میں)۔ قم - ایران: موسسہ النشر الاسلامی (تابع جامعہ مدرسین قم)۔ ص 210
  11. ^ ا ب خـویی، ابوالقاسم (1993)۔ معجم رجال الحدیث (فارسی میں)۔ ج 8۔ ص 284
  12. طوسی، محمد بن حسن (1995)۔ رجال طوسی (فارسی میں)۔ قم - ایران: موسسہ النشر الاسلامی (تابع جامعہ مدرسین قم)۔ ص 357
  13. ^ ا ب پ کَشّی، محمد بن عمر بن عبدالعزیز۔ رجال الکشی (اختیار معرفة الرجال)۔ ص 595
  14. علامہ حلّی، ابومنصور جمال‌الدین حسن بن یوسف بن مطهّر۔ رجال علامہ حلی (فارسی میں)۔ ج 75
  15. جباری، محمدرضا (2003)۔ سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمة (فارسی میں)۔ قم: مؤسسہ آموزش پژوهشی امام خمینی۔ ج 2۔ ص 519
  16. کَشّی، محمد بن عمر بن عبدالعزیز۔ رجال الکشی (اختیار معرفة الرجال)۔ ص 594
  17. ^ ا ب "زکریا بن آدم - صدا و سیمای قم" (فارسی میں)۔ 2022-02-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-17
  18. طوسی، محمد بن حسن (1995)۔ رجال طوسی (فارسی میں)۔ قم - ایران: موسسہ النشر الاسلامی (تابع جامعہ مدرسین قم)۔ ص 375
  19. هیئت تحریریہ مؤسسہ در راہ حق (2011)۔ پیشوای نهم، حضرت امام محمد تقی (فارسی میں)۔ قم: موسسہ در راہ حق۔ ص 60
  20. طوسی، محمد بن حسن (1997)۔ الفهرست (فارسی میں)۔ تحقیق جواد قیومی، اول، مؤسسة نشر الفقاهہ۔ ص 132
  21. نجاشی، احمد بن على (1987)۔ رجال نجاشى (فارسی میں)۔ قم: جامعہ مدرسین۔ ص 174
  22. نجاشی، احمد بن على۔ رجال نجاشى۔ ج 1۔ ص 174
  23. تهرانی، آقابزرگ۔ الذریعة الی تصانیف الشیعة۔ ج 6۔ ص 333
  24. خـویی، ابوالقاسم۔ معجم رجال الحدیث (فارسی میں)۔ ج 7۔ ص 274
  25. "گنجینہ های تشیّع/ زکریا بن آدم اشعری؛ امین الرضا، وکیل الجواد - شفقنا" (فارسی میں)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-17
  26. "سیماى زکریا بن آدم – الشیعہ" (فارسی میں)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-17

بیرونی روابط

ترمیم

سانچہ:Ali al-Ridha