سارہ شریف کا قتل
10 سالہ بچی سارہ شریف 10 اگست 2023ء کو انگلینڈ کی کاؤنٹی سَری کے ووکنگ میں اپنے آبائی رہائش گاہ میں مردہ پائی گئی۔[1][2][3] ان کی موت زخموں کی وجہ سے ہوئی۔ تین مشتبہ افراد پاکستان فرار ہو گئے[4][3] اور برطانیہ واپسی پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر قتل کا الزام عائد کیا گیا اور انھیں حراست میں لے لیا گیا۔ نومبر 2024ء میں سارہ کے والد عرفان شریف نے اس کے قتل کا اعتراف کیا۔[5] 11 دسمبر 2024ء کو سارہ کے والد عرفان شریف اور اس کی سوتیلی ماں بینش بتول کو اس کے قتل کا مجرم پایا گیا۔[6]
سارہ کی تصویر | |
پیدائش | 11 جنوری 2013 سلاؤ، برکشائر، انگلینڈ |
---|---|
وفات | 8 اگست 2023 ووکنگ، سری، انگلینڈ | (عمر 10 سال)
وجۂ وفات | متعدد زخموں سے موت |
والدین |
|
رشتے دار | بینش بتول (سوتیلی ماں) فیصل ملک (چچا) |
سارہ شریف
ترمیمسارہ شریف 11 جنوری 2013ء کو سلاؤ، برک شائر میں پیدا ہوئی۔[7][3] اس کے والد عرفان شریف ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ہے جو سنہ 2001ء میں برطانیہ منتقل ہوا تھا۔[7][8] اس کی والدہ اولگا ڈومن کا تعلق پولینڈ سے ہے۔[7] سنہ 2009ء میں وہ دونوں رشتہ ازدواج بندھے اور سنہ 2010ء میں ایک بیٹا ہوا۔[7][8] یہ جوڑا سنہ 2015ء میں علاحدہ ہو گیا اور بعد میں طلاق لے لی، جس کے بعد بچے اولگا ڈومن کے ساتھ رہتے تھے، لیکن سنہ 2019ء میں ان کی تحویل عرفان کو دے دی گئی، جس کے بعد میں وہ ہارسل، ووکنگ میں اس کی دوسری بیوی بینش بتول، جوڑے کے چار بچوں اور عرفان کے بھائی کے ساتھ رہتے تھے۔[7][8] اولگا جسے ان کی پرورش مسلمان کے طور پر ہونے پر اعتراض تھا، ووکنگ میں رہنے کے دوران میں اس کا اپنے بچوں سے تعلق بہت کم ہوگیا۔[7] سارہ سماجی خدمات لینے کے لیے جانی جاتی تھی اور اپریل 2023ء میں عرفان اور بینش بتول نے تشدد اور بد سلوکی کو راز رکھنے کے لیے سارہ کو اسکول سے نکلوا کر ہوم اسکول کا ڈراما رچایا۔[9]
لاش کی دریافت اور تفتیش
ترمیمسارہ کی لاش 10 اگست 2023ء کے اوائل میں پی سی جارج وان ڈر وارٹ کو ہیمنڈ روڈ، ہارسل پر واقع اس کی رہائش گاہ سے ملی۔[2][3] سَری پولیس نے عرفان شریف اس کی بیگم بینش بتول اور اس کے بھائی فیصل ملک کی شناخت مبینہ مجرمین کے طور پر کی۔[4] تینوں 9 اگست کو برطانیہ سے اسلام آباد، پاکستان کے لیے روانہ ہوئے، ایک دن پہلے سارہ کی لاش ملی تھی۔[10][3] عرفان شریف نے اپنے بیوی، بھائی اور پانچ بچوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے کے فوراً بعد ہی پاکستان سے 999 پر کال کی۔[11] اس نے اعتراف کیا، "میں نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا ہے"، یہ کہتے ہوئے کہ "میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا لیکن میں نے اسے کچھ زیادہ پیٹ دیا۔" اس نے پولیس کال ہینڈلر کو بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کو صرف سزا دینا چاہتا تھا اس نے کہا کہ "میں ایک ظالم باپ ہوں"۔[12]
15 اگست کو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ سارہ کی موت لا تعداد چوٹوں کی وجہ سے ہوئی۔[11] مقدمے کی سماعت میں اس کے 70 سے زیادہ زخموں کا انکشاف کیا گیا:[13] ان میں اس کی پسلیوں، شانوں کی ہڈیوں، انگلیوں اور اس کی ریڑھ کی ہڈی میں 11 فریکچر، سر پر سوراخ کا زخم، دماغ کی چوٹ، استری سے اس کے کولھے پر جلنے، گرم کھولتے پانی سے جلد جلنے، جبراً پکڑ کر مار پیٹ کے زخم، نوکیلی اشیا اور دانتوں سے کاٹنے کے نشانات کی چوٹیں شامل ہیں۔[13][14][15] اس کی موت کی اصل وجہ کا تعین نہیں ہوسکا، لیکن ایک تفتیش کے مطابق اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ ایک فطری واقعہ تھا۔[4][3] تفتیش 29 فروری 2024ء تک ملتوی کردی گئی۔[3]
بین الاقوامی طور پر ملزم کی تلاش
ترمیمحکام نے مشتبہ افراد کی تلاش کے لیے بین الاقوامی تلاش شروع کی۔[2] جہلم میں پولیس کی دو ٹیمیں عرفان شریف کی تلاش میں مصروف تھیں۔ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان حوالگی کا کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا تھا۔[11] پولیس نے سارہ کی لاش ملنے کے دو ہفتے بعد مجرمین کی معلومات کے فراہمی کی دوبارہ گزاراش کی اور اس پر زور دیا کہ جو بھی ان سے رابطہ کرے وہ معلومات کے ساتھ آگے آئے۔[2]
12 ستمبر 2023ء کو پولیس نے پاکستان کے پنجاب کے شہر جہلم میں عرفان شریف کے والد کے گھر پر چھاپہ مارا اور پانچ بچوں کو اچھی حالت میں برآمد کیا، جس کے بعد ان کی دیکھ بھال کے لیے منتقل کردیا گیا۔[10][16] 13 ستمبر کو تین مشتبہ افراد کو سیال کوٹ سے دبئی کے راستے پرواز میں اترنے کے بعد قتل کے شبہ میں گیٹوک ہوائی اڈا پر گرفتار کیا گیا۔[10]
مقدمہ
ترمیم14 ستمبر 2023ء کو ان سب پر قتل کے ساتھ ساتھ بچے کی موت کا سبب بننے یا اجازت دینے کے اضافی الزام کا چارج عائد کیا گیا۔ انھیں 15 ستمبر کو گِلڈفورڈ مجسٹریٹ کی عدالت میں سماعت سے قبل حراست میں لے لیا گیا۔[17] وہ 19 ستمبر 2023ء کو ویڈیو لنک کے ذریعے لندن کے اولڈ بیلی کے سامنے پیش کیے گئے۔[18] دسمبر 2023ء میں ایک درخواست کی سماعت ہوئی، جس میں تینوں نے ہر الزام میں قصور وار نہ ہونے کی استدعا کی،[19] اور انھیں ستمبر 2024ء میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔[18]
26 جنوری 2024ء کو اولڈ بیلی کی سماعت میں جج مارک لوکرافٹ نے اکتوبر کے لیے مقدمے کی عارضی تاریخ مقرر کی، ساتھ اس کے کہ اصل تاریخ کی سماعت کی تصدیق فروری میں ہوگی۔[20] یکم مارچ کو ہونے والی سماعت میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ مقدمے کی سماعت یکم اکتوبر کو شروع ہونے والی ہے۔[21]
8 اکتوبر 2024ء کو اولڈ بیلی میں تین مدعا علیہان کے مقدمے کے آغاز پر جیوری نے حلف لیا۔[22] پراسیکیوٹر نے 14 اکتوبر کو انکشاف کیا کہ سارہ کے والد نے پاکستان میں ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد 999 پر کال کر کے اسے قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا،[23] اس نے دعوی کیا کہ اس نے "اسے سرزنش کے طور پر سزا دی" اور آپریٹر سے کہا کہ "میں نے اسے مارا پیٹا، اسے قتل کرنا میرا ارادہ نہیں تھا، لیکن میں نے اسے بہت زیادہ مار پیٹ دیا۔"[24][25] نومبر میں اس نے سارہ کی موت کی "مکمل ذمہ داری" قبول کی۔[5]
11 دسمبر 2024 کو عرفان شریف اور بینش بتول کو سارہ کے قتل کا مجرم پایا گیا۔[6] اس کے چچا فیصل ملک کو قتل کا مجرم نہیں پایا گیا تھا لیکن اسے بچے کی موت کا سبب بننے یا اسے مرنے دینے کے الزام کا مجرم پایا گیا۔[6]
17 دسمبر 2024ء کو عرفان شریف کو کم از کم 40 سال، جبکہ بینش بتول کو 33 سال کی سزا دی گئی، جج کیاواناگ نے ان کے جرائم کو "تشدد کی مہم" قرار دیا جس میں "ظلم کی حد تقریباً ناقابل تصور ہے"۔ لڑکی کے چچا 29 سالہ فیصل ملک کو بچے کی موت کا سبب بننے یا اسے مرنے دینے کے الزام میں 16 سال قید کی سزا سنائی گئی۔[26]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Ellen Manning، Jimmy Nsubuga (5 September 2023)۔ "Sara Sharif murder investigation: Latest updates on death of girl, 10, in Woking - what we know"۔ Yahoo News۔ 01 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2023
- ^ ا ب پ ت Tanya Gupta (24 August 2023)۔ "Sara Sharif murder probe: Fresh appeal two weeks after girl found dead"۔ BBC News۔ 18 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2023
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج Ted Hennessey (29 August 2023)۔ "Sara Sharif's cause of death 'not yet ascertained', inquest hears"۔ The Irish News۔ 11 اکتوبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2024
- ^ ا ب پ Nabiha Ahmed (29 August 2023)۔ "Cause of Sara Sharif's death likely to be 'unnatural', inquest hears"۔ The Guardian۔ 12 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2023
- ^ ا ب Christian Fuller، Daniel Sandford (13 November 2024)۔ "Sara Sharif: Father confesses to killing 10-year-old daughter"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2024
- ^ ا ب پ Christian Fuller (2024-12-11)۔ "Sara Sharif trial: Father and stepmother found guilty of murder"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2024
- ^ ا ب پ ت ٹ ث Liam Doyle (16 August 2023)۔ "Mother of Sara Sharif says her daughter's 'behaviour changed' after Woking move"۔ Express.co.uk۔ 26 جنوری 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2024
- ^ ا ب پ Emily Dugan، Haroon Janjua (8 September 2023)۔ "Sara Sharif: a month of unanswered questions about 10-year-old's death"۔ The Guardian۔ 11 فروری 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2024
- ↑ Emine Sinmaz (17 December 2024)۔ "Judge in Sara Sharif case warns of 'dangers' of automatic right to home school children"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2024
- ^ ا ب پ Daniel Sandford، Doug Faulkner، Helena Wilkinson (13 September 2023)۔ "Sara Sharif: Three relatives arrested on suspicion of murder"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 13 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2023
- ^ ا ب پ Hamish Mureddu-Reid، Helena Wilkinson (20 August 2023)۔ "Sara Sharif murder inquiry: Girl known to authorities, council says"۔ BBC News۔ 18 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2023
- ↑ Daniel Sandford (2024-12-11)۔ "Behind Sara Sharif's smile was a life of violence and torture"۔ BBC (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2024
- ^ ا ب Christian Fuller، Helena Wilkinson (16 October 2024)۔ "Sara Sharif: Girl, 10, had more than 70 injuries, court hears"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2024
- ↑ Christian Fuller، Helena Wilkinson (15 October 2024)۔ "Sara Sharif: Girl, 10, wore hijab to hide injuries, court told"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2024
- ↑ Holly Evans (14 October 2024)۔ "Sara Sharif's father called 999 to admit he 'beat her up' before fleeing to Pakistan leaving body in bunk bed"۔ The Independent (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2024
- ↑ Haroon Janjua (11 September 2023)۔ "Sara Sharif: Pakistani police recover five children from grandfather's house"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0261-3077۔ 12 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2023
- ↑ Malu Cursino (14 September 2023)۔ "Sara Sharif: Father among three charged with murder of girl"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 14 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2023
- ^ ا ب Hamish Mureddu-Reid (19 September 2023)۔ "Sara Sharif's father, stepmother and uncle appear in court over girl's murder"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 20 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2023
- ↑ Christian Fuller (14 December 2023)۔ "Sara Sharif: Father, step-mother and uncle deny girl's murder"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2024
- ↑ Jeremy Britton (26 January 2024)۔ "Sara Sharif: Murder trial expected in October"۔ BBC News۔ 26 جنوری 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2024
- ↑ Helena Wilkinson، Emily Coady-Stemp (1 March 2024)۔ "Sara Sharif murder trial confirmed for October"۔ BBC News۔ BBC۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جون 2024
- ↑ Helena Wilkinson، Christian Fuller (8 October 2024)۔ "Sara Sharif: Jury sworn in for murder trial into girl's death"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2024
- ↑ Christian Fuller، Helena Wilkinson (14 October 2024)۔ "Sara Sharif: Father admitted killing daughter in police call, court hears"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2024
- ↑ Holly Evans (14 October 2024)۔ "Sara Sharif murder trial latest: Father left note next to 10-year-old's body saying 'I lost it'"۔ The Independent (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2024
- ↑ Sam Tobin (14 October 2024)۔ "Sara Sharif murder case: Accused father confessed to UK police, jurors told"۔ Reuters۔ 16 دسمبر 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Sara Sharif's father and stepmother jailed for life for her murder"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 2024-12-17۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2024